URDUSKY || NETWORK

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملکی و غیر ملکی تنظیموں کی مہم

142

ڈاکٹر باری نے بتایا کہ ان کے ادارے نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت عالمی تنظیموں سے امداد اکٹھی کر کے زچگی کے دوران ماؤں کو بر وقت طبی امداد اور تربیت یافتہ دائیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

’’اس وقت زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار میں سے تقریباً پچاس بچے ہلاک ہو رہے ہیں‘‘۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے  ایک مہم شروع کی ہے جن کا خیال ہے کہ اس ضمن میں موجودہ قوانین ناکافی ہیں۔Children-s-Health-Tips

مہم میں شامل تقریباً بیس تنظیمیں حکومت پر زور دیں گی کہ وہ بچوں کے حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلامیے کے دو اختیاری قوائد ناموں کی توثیق کرے جو بچوں کے جنسی استحصال ، ان کی فروخت اور مسلح  تصادم میں ان کے استعمال کو روکنے سے متعلق ہیں۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’سپارک‘‘ کے ایک عہدیدار اور مہم کے منتظم امتیاز احمد نے کہا کہ اختیاری قوائد ناموں کی توثیق دنیا کے 139 ممالک کر چکے ہیں اور پاکستان کی طرف سے ایسا کرنے سے ملک کے اندر بچوں کے حقوق کا بہتر طور پر تحفظ ہو سکے گا اور انہیں مختلف نوعیت کے استحصال اور تشدد  سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان بڑھتے ہوئے اشتراک کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی صورت حال اگرچہ بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ابھی بھی قانون سازی سمیت بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

’’مثال کے طور پر یہ کہ اگر کسی تعلیمی ادارے میں استاد کی مار پیٹ سے بچا زخمی ہو جاتا ہے یا اس کے جسم کا کوئی حصہ ناکارہ ہو جاتا ہے تو اسے  کس طرح تحفظ فراہم کیا جائے ؟ اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہے‘‘۔

امتیاز احمد نے  کہا کہ مہم میں شامل تنظیمیں ایک ایسے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتی ہیں جو بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا جائزے لےکر ان کی روک تھام کے لیے سفارشات مرتب کرے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے موجود  قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

مہم میں برطانوی تنظیم ’’سیوودی چلڈرن‘‘ بھی شامل ہے جس کے سینئر عہدیدار عبدالباری نے ایک انٹرویو  میں کہا کہ مہم میں بچوں کی صحت کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اچھی صحت  اگر چہ ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان میں اس سلسلے میں صورت حال اس لحاظ سے نہایت تشویش ناک ہے کہ بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔’’اس وقت زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار میں سے تقریباً  پچاس بچے ہلاک ہو رہے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر باری نے بتایا کہ ان کے ادارے نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ایک پروگرام شروع  کیا ہے جس کے تحت عالمی تنظیموں سے امداد اکٹھی کر کے زچگی کے دوران ماؤں کو  بر وقت طبی امداد اور تربیت یافتہ دائیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

VOA