جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید گجرانوالہ سے گرفتار
محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔
سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق حافظ سعید گجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب جارہے تھے کہ انہیں گجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘حافظ سعید کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے میڈیا کو تفصیلات جاری کی جائیں گی’.
جماعت الدعوۃ کے ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کو خبر کی تصدیق کی.
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبدالرحمٰن مکی سمیت 13 رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ کے 2 درجن سے زائد مقدمات درج کیے گئے تھے۔
یکم اور 2 جولائی کو جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف سی ٹی ڈی کے لاہور، گجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد اور سرگودھا میں موجود پولیس اسٹیشنز میں تقریباً 23 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ اپنے فلاحی ادارے الانفال ٹرسٹ، دعوۃ ارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ وغیرہ کے ذریعے جمع ہونے والا فنڈ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ان تمام فلاحی اداروں کی تحقیقات کے بعد جماعت الدعوۃ سے تعلق کا پتہ لگنے پر اپریل کے مہینے میں ان پر اور ان کی اعلیٰ قیادت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
2 روز قبل لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور دیگر 3 پر مدرسے کی زمین غیرقانونی طور پر استعمال کرنے کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری جاری کیے تھے۔
اس ہی دن لاہور ہائی کورٹ کے کے ڈویژن بینچ نے مقدمات کے خاتمے سے متعلق حافظ سعید اور ان کے 7 ساتھیوں کی درخواست پر وفاقی و صوبائی حکومت اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کیا تھا۔
درخواستگزاروں کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر نے موقف اپنایا کہ یکم جولائی کو حکومت پاکستان نے حافظ سعید پر کالعدم لشکر طیبہ کا سربراہ ہونے کا بے بنیاد الزام عائد کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حافظ سعید کا القاعدہ یا پھر اس جیسی کسی بھی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 2003 میں بھی ایک اور فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حافظ سعید نے 24 دسمبر 2001 کو لشکر طیبہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جبکہ تنظیم پر 14 جنوری 2002 کو پابندی عائد کی گئی تھی۔
وکیل نے استدعا کی کہ حافظ سعید ریاست مخالف اقدامات میں ملوث نہیں ہیں، ساتھ ہی یہ استدعا کی گئی تھی کہ کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور دیگر افراد کے خلاف درج کی گئیں ایف آئی آرز کالعدم قرار دے کر ان پر قائم مقدمات ختم کیے جائیں۔
سرکاری وکیل نے ان کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درخواست ناقابل سماعت ہے۔
تاہم عدالت عالیہ میں جسٹس شہرام سرور اور جسٹس وحید خان پر مشتمل بینچ نے حافظ سعید اور دیگر 7 افراد کی درخواست پر وفاقی و صوبائی حکومت اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کیا۔
دیگر درخواستگزاروں میں محمد ایوب شیخ، ظفر اقبال، سید لقمان علی شاہ، حافظ عبدالرحمٰن مکی، عبدالسلام، عبدالغفار اور عبدالقدوس شاہد شامل ہیں۔