URDUSKY || NETWORK

پُراِسرار بَندے

996

پُراِسرار بَندے

باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے

تحریر:محمد الطاف گوہر

اس خطہءزمین پہ ہم روزانہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوے صبح کو آتے ہیں ، دن گزارتے ہیں اور رات کو واپس چلے جاتے ہیں، کبھی معلوم کرنے کی زحمت ہے کہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ بعض اوقات اپنی تمام تر توانائیاں خواہ مخواہ کی مشقت اٹھانے میں لگا دیتے ہیں، ایک مختصر سے لمحے کو رہنے کی زندگی کیلئے شاندار محلات تعمیر کرتے ہیں اور اس کی حفاظت اور ملکیت کو قائم رکھنے میں ہی زندگی تمام ہو جاتی ہے اور جاتے ہوئے خالی ہاتھ، اور کبھی آپنی آن بان قا ئم رکھنے کو مقصد حیات بنا لیتے ہیں اور خوامخوہ کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ شانِ طولانی دیکھئے کہ انا (خود پسندی) کی ملمع کاری بھی سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہر کی طرح ہے جو اپنے ہی شور میں یہ بھول گئی ہے کہ آخر اِسے پھر واپس اِسی سمندر میں مل جانا ہے تو پھر اتنا طلاطم کیسا؟ اور اتنا بپھرنا بھی کیا؟آخر سر اُٹھاتی ہوئی موجیں (لہریں) ہی کناروں سے اپنا سر پھوڑتی ہیں وگرنہ گہرے سمندر تو ازلوں سے خاموش اور ساکن رہے ہیں۔ ہمارے رشتے اور ناطے آپس میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ جیسے ریل کے ایک ڈبے میں چند لوگ بیٹھے سفر کر رہے ہوں اور ان کو اپنی نامعلوم منزل پر پہنچنا ہے اور جیسے ہی کسی کی منزل آ گئی وہ اُتر گیا اور پھر یہ رخت سفر جاری رہا اور آخر ایک وقت آتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ عدم سدھار جاتے ہیں تو پھر آپس میں نفرتیں، عداوتیں اور محبتیں کیسی؟
میں (Self) جو کہ اِس کائنات سے ہمارا رابطہ (Channel) بنتی ہے اس تک رسائی کیلئے پہلے ہمیں اپنے قلوب کے زنگ کو اُتارنا ہو گا جبکہ یہ زنگ وہ بدعملیاں اور منفی جذبے و رویے ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوش بختی، سکون اور راحت باہر سے دستک دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں گھسنے نہیں دیتے۔ ہمارے تمام یہ منفی رویے جذبے (حسد، لالچ، مکر، فریب، دھوکہ دہی، نفرت وغیرہ) اور خوامخواہ کے خوف جو ہم نے اپنے اندر بیج (تخم، Seed) کی طرح بو دئیے ہیں آخر کچھ تو پھل دیں گے؟
قدرت کے بچھائے ہوئے سبز مخملی قالین (گھاس) پہ چلتے ہوئے ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ رنگ برنگے پھل و پھول اور پودے اور تنا آور درخت سب کے سب ایک ہی زمین سے نکلے ہیں مگر ہر ایک کا ثمر (پھل) اور خاصیت دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ گلاب کے پودے پر گلاب کا پھول مگر نرگس کے پودے پر نرگس کا پھول اور دونوں کی رنگت اور خوشبو جداگانہ حالانکہ ایک ہی زمین سے نکلی ہوئی یہ نباتات جو کہ جبلت کی باندھی ہوئی ہے (یعنی نشونما تو ہے مگر نقل مکانی نہیں اور نہ ہی سمجھ بوجھ) اس کو بھی معلوم ہے کہ گلاب کے پودے کے ساتھ گلاب کا پھول لگے گا نہ کہ چنبیلی یا نرگس کا۔ اب اگر ہم آم کا بیج بو کر سیب کے پھل کی دُعا مانگیں تو کیا خیال ہے کہ دُعا قبول ہو گی یا کونسا پھل ملے گا؟ قدرت تو قدرت ہے ہر چیز کی طاقت رکھتی ہے اور اُس کیلئے سب کچھ ممکن ہے مگر ہمیں سنت خدا وندی بھی تو معلوم ہونی چاہیے کہ جس کا قدرت بھی خیال رکھتی ہے یہاں قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار قانون ہمیں پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ جیسا بو ءگئے ویسا کاٹو گے (یعنی جیسا تخم ہو گا ویسا ہی پھل ہو گا) یہاں بیج (Seed) وہ رابطہ (Channel)ہے جو زمین کے ساتھ ایک پودہ اور درخت رکھتا ہے اور اس کی خاصیت کی وجہ سے مخصوص پھل اور پھول حاصل کرتا ہے۔
اگر دُنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے گھونسلے میں پڑے ہوئے بچے ایک سانپ کھا رہا ہے تو دُنیا ہمیں کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر اسی لمحے اِس بھوکے سانپ کی نظر سے دُنیا کو دیکھا جائے تو دُنیا کتنی مہربان نظر آئے گی کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ نظر سے کیا لینا دینا؟ ہمیں تو صرف اِتنا سمجھنا ہے کہ وہ زاویے (Angle)، واسطے (Channel)، نظریے(Concept) اور بیج (Seed) کونسے ہیں جو کہ ہماری زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ہمارے سامنے تو زندگی (دُنیا) فطرت کے شاہکاروں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر میں وہ زاویہ کہاں ہے، وہ رابطہ کہاں جو اِن شاہکاروں کو ملاحظہ فرمائے؟ اپنی نظر میں اتنی بصارت کہاں۔ ہمارے قلوب کے زنگ وہ پردے ہیں جو ہمیں سکون، راحت اور خو ش بختی اور صحت کے تحفے حاصل کرنے سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جسکی چھاپ ہمارے قلوب میں پڑ چکی ہے یعنی جیسا بیج ویسا ہی پھل۔
اب اگر آپ نے اُردو زبان لکھنی پڑھنی سیکھی ہے تو آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ورنہ آپ کے سامنے یہ آڑھی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ تحریر کسی ایسی زبان میں لکھی ہوتی جسکو کہ آپ جانتے نہیں تو کس طرح سے ممکن تھا کہ آپ اِس کو پڑھ سکتے اور پھر اِسکو سمجھ سکتے؟ یعنی ہماری باہر والی دُنیا پر ہماری اندر والی دُنیا کی چھاپ ہوتی ہے اور ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جس کا عکس ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ورنہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک دریا میں ایک مچھلی نے دوسری مچھلی سے پوچھا کہ کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی میں نے تو اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا تو دونوں مِل کر ایک بوڑھی مچھلی کے پاس گئے اور پوچھا کہ اماں کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی بچومیں نے بھی اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا۔ آپ اندازہ کریں کہ اِنہوں نے اگر کبھی خشکی دیکھی ہوتی تو اِن کو پانی کا اندازہ ہوتا اور جس نے ساری زندگی پانی میں گزاری ہو اِسے (ضد دیکھنے کا موقع نہ مِلا ہو) تو اِسے کیسے اندازہ ہو سکتا ہے پانی کیا ہو تا ہے ا؟
جمادات (Minerals, Stoneبے حرکت کوئی نشونما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) ، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) سے کروا دیتا ہے حالانکہ ہمارے منفی جذبے، رویے اور غلط نقطہ نظر وہ گرداب ہیں جن میں پھنس کر اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خوب گزر ہو رہی ہے ،جبکہ ہم ایک دائرے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں منزل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں اور بعض اوقات ہمارے چور دروازے پستی کی طرف کھلے ہوتے ہیں او رہم سمجھتے ہیں کہ ہم دوڑ رہے ہیں مگر جتنا تیز دوڑتے ہیں اتنا ہی پستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ بلندی اور ندرت اور کھلے آسمانوں کا سفر تو قدرت کے حسین و جمیل تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے وہ اِنہیں کو ملتا ہے جو اپنا قلب اِن تمام ملاوٹوں (منفی جذبے، رویے ،اناءکی ملمہ کاری اور خواہ مخواہ کے خوف) سے پاک رکھتے ہیں یہ آئینہ جلا کا کام دیتا ہے اور ہمیں اپنی خود ی(میں Self) کے تمام زاویے اور ثمرات ملتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں۔ اِسی خود ی(Self)کا سفر بھی کیسا کہ نڈر اور بے پرواہ کوئی خوف نہیں نہ کوئی ملمع کاری خوشی کے وقت ہنسنا اور حقیقی خوشی ، تکلیف کے وقت رونا کوئی دکھلاوا نہیں اور کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کسی کیلئے دھوکہ دہی کہ یہ ہمارا وہ بچپن ہے کہ جہاں خود ی(Self)اپنی موج میں رواں دواں ہے۔ اب زندگی کے رنگ بدلتے ہیں اور نفرتوں، خواہشوں کے گرداب میں پھنس کر اور کبھی خود پسندی کے فریب میں ہم اپنی خود ی(Self)سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے درمیان یہ پردوں کی طرح حائل ہوتے جاتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہمارا رشتہ ہمارے ازل سے کٹ جاتا ہے۔
جس طرح ہمارا رابطہ اپنے ازل(اصل) اور کائنات سے اپنے اندر سے خود ی(Self)کے ذریعے ہوتا ہے اِسی طرح ہمارا بیرونی دُنیا سے رابطہ ہمارے ذہن (Mind) کے مرہون منت ہے اور انسان کے سوچنے کی صلاحیت اس کو کائنات پر دراندازی (مداخلت) کا موقع فراہم کرتی ہے۔اب جس طرف بھی نظر دوڑائیں گے آپ کو ایک طرف قدرت کے شاہکار نظر آئیں گے اور دوسری طرف لوگوں کے جمے ہوئے خیالات بھی نظر آئیں گے یعنی یہ ہماری تعمیر کردہ دُنیا (اشیا)، تعمیرات اور ایجادات۔ اب اگر ایک لکڑی کی میز کو دیکھا جائے جس کا خاکہ پہلے کسی اِنسان کے ذہن میں تیار ہوا پھر اِن خیالات نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور وہ ہمیں لکڑی کے میز کی شکل میں منجمد نظر آئے اِسی طرح آپ تعمیرات کو دیکھیں اور ایجادات کو دیکھیں تو یہ سب کے سب لوگوں کے خیالات کا انجماد ہی تو ہے کہ پہلے یہ خیال ذہن میں نقشہ کی طرح بنا اور پھر ٹھوس (منجمد) شکل اختیار کر گیا جسے ہم اِنسانی سوچ کا شاہکار بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جبکہ یہ شعور ی (آگاہ اور آشنا) لمحوں کا انجماد ہے جو انسانی ذہن نے Save کئے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس کا ئنات میں اپنے وجود کی شہادت بھی دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ خود ی(Self) اِنسان کے اندر سے رابطے کیلئے کسی واسطے کی محتاج نہیں جبکہ ذہن حواسِ خمسہ کا محتاج ہے یعنی ہمارے اندر معلومات ذخیرہ کرنے کیلئے پانچ حواس ہوتے ہیں جن کے باعث یہ معلومات ذہن اپنے پاس ذخیرہ کرتا ہے (چکھنا، چھونا، سونگنا، دیکھنا اور سُننا)یہ وہ صلاحیتیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر ایک انسان اپنا ذہن Mind بناتا اور اپنی اندر کی دُنیا تعمیر کرتا ہے۔
خود ی(Self)کا کائنات سے رابطہ اور تعلق اِن سب واسطوں سے بے نیاز ہے (ادراک ماورائے حواس ESP – Extra Sensory Perception )۔ اِس من کی دُنیا میں اگر چشمہ خودی پھوٹ پڑے تو زندگی تپتے صحراﺅں سے نکل کر سکون کی گھنی چھاﺅںمیں آ جاتی ہے اور اندر کا عکس بدل جاتا ہے اور باہر بھی شاہکارِ قدرت کا نظارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے۔ اِس آگہی کی لذت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ بیرونی دُنیا پہ بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ آسمانوں سے مینہ برستا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور قدرت کی طرف سے شاندار استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ اِس لذت سے معمور ہوتا ہے کہ جن کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے اِسی کے دم سے پھلوںمیں رس بھرا جاتا ہے اور پھولوں میں خوشبو۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے اور یہ نظر جس طرف اُٹھتی ہے بہار ہی بہار آ جاتی ہے اور اِس نظر کی موج میں آنے والا ہر پل اپنے اوپر ناز کرتا ہے اور ہر فنا اپنی بقاءدیکھتی ہے۔ اِس زمین میں زرخیزی آتی ہے باالفاظِ دیگر اِس خود ی(Self)کا کیا کہنا کہ جو لذت آشنائی سے لبریز ہے اور ہم اِس کا تذکرہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں۔ سورة الکہف (آیت 60 تا 86) کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے (بندے کی) میں سے ہم اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“ سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔ آشنائی کی لذت سے مامور دیے (چراغ) تو ابد تک کیلئے روشنی بن جاتے ہیں اور یہ روشنی دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے اور ہماری زندگیوں میں روشنی اِنہی چراغوں کے دم سے ہے ورنہ کائنات کا ردِعمل ہر ظلم و زیادتی اور آہ پہ آندھی، طوفان اور زلزلوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ کائنات ہر کرب کا اور مظلوم کی آہ کا جواب ضرور دیتی ہے ۔
خودی (Self) کی لذت کا آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا مگر اِن ثمرات میں مراقبہ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ شاید کسی اور چیز کو نہیں اس عمل کو کرنا دراصل آپ کو آپکی شعوریت کے قریب لاتا ہے اور یہ ایسا ہی عمل ہے جیسا ایک بنجر زمین پر ہل چلانا اور پھر اِس کو دھوپ میں چھوڑ دینا تا کہ اِس کے اندر کی جڑی بوٹیاں خود بخود فنا ہو جائیں اور زمین بیج بونے کے قابل ہو جائے اور اب اِس میں بیچ لگا کر اِس کو پانی دیا جائے اور پھر اِسکے پودے کی نشونما کی جائے اور پھر کہیں جا کر پھل نصیب ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے اِتنی ثابت قدمی ممکن ہے؟ کیونکہ الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پیرونا تو آسان ہے مگر مقامات آگہی میں غوطہ زن ہونا بڑے جگرے کی بات ہے البتہ گہرے سمندر میں غوطہ زنی نہ سہی مگر کنارے کنارے رہ کر کچھ تو سیکھا (حاصل کیا) جا سکتا ہے۔