URDUSKY || NETWORK

List of Rivers in pakistan

306

List of rivers of Pakistan

u
Major rivers and lakes of Pakistan

Rivers of Punjab.

This is a list of rivers wholly or partly in Pakistan, organised geographically by river basin, from west to east. Tributaries are listed from the mouth to the source.

The longest and the largest river in Pakistan is the Indus River. Around two-thirds of water supplied for irrigation and in homes come from the Indus and its associated rivers.[1]

Flowing into the Arabian Sea

Indus River Basin

Flowing into endorheic basins

Hamun-i-Mashkel

Sistan Basin

  • Helmand River (Iran/Afghanistan)
    • Arghandab River (Afghanistan)

Indus Plains

  • Nari River
    • Mula River
    • Bolan River
    • Beji River
      • Anambar River
        • Loralai River
    • Loe Manda River

Thar Desert

Tarim Basin

Ancient rivers

  • Ghaggar-Hakra river: An intermittent river in India and Pakistan that flows only during the monsoon season. While it is often identified with the Saraswati River,[2] this is not a consensus view.[3] The Hakra is the dried-out channel of a river in Pakistan that is the continuation of the Ghaggar River in India. Several times, but not continuously, it carried the water of the Sutlej during the Bronze Age period [4] Many settlements of the Indus Valley Civilisation have been found along the Ghaggar and Hakra rivers.
  • Saraswati River: Also known as Sarasvati River. This river was one of the major rivers of Ancient India which no longer exists.

پاکستان کے دریا

دریائے سندھ

دریائے سندھ
دریائے سندھ کی خلائی تصویر

دریائے سندھ کی خلائی تصویر

آغاز جھیل مانسرور
دہانہ بحیرہ عرب
میدان ممالک چین، بھارت، پاکستان
لمبائی 3200 کلومیٹر (1988 میل)
منبع کی بلندی 4556 میٹر
دہانہ کی بلندی 0 میٹر

دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم دریا ہے۔ دریاۓ سندھ کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے بعد دریا بھارت اور پاکستان کشمیر سے گزرتا ہوا صوبہ سرحد میں داخل ہوتا ہے۔ صوبہ سرحد میں اسے اباسین بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ۔ دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔ صوبہ سرحد میں دریا پہاڑوں سے میدانوں میں اتر آتا ہے اور اس کے بعد صوبہ پنجاب اور سندھ سے گزرتا ہوا کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

آبی حیات

انڈس ڈولفن جو صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے

[ترمیم] اندھی ڈولفن

دریائے سندھ میں اندھی ڈولفن پائی جاتی ہے۔ اس کو سو سو کہا جاتا ہے۔ اسکا ایک مقامی نام بلھن بھی ہے۔ ڈولفن کی یہ قسم دنیا بھر میں نایاب ہے۔ یہ قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہیں اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔ اس کی آبادی میں اظافے اور اس کی حيات کو پیش دشواریوں کو دور کرنے کی کئی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

دریائے جہلم

 

دریائے جہلم

دریائے جہلم کوہ ہمالیہ میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔یہ مغربی پنجاب کےدریاؤں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنج ند کے قریب دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں۔

رسول کے مقام پر دریائے سندھ سے نہر لوئر جہلم نکالی گئی ہے جو ضلع شاہ پور کو سیراب کرتی ہے۔ رسول کی پن بجلی کامنصوبہ اسی کا مرہون منت ہے۔ نہراپر جہلم منگلا ’’ آزاد کشمیر‘‘ کے مقام پر سے نکالی گئی ہے۔ اور ضلع گجرات کے بعض علاقوں کو سیراب کری ہے۔ آب پاشی کے علاوہ ریاست کشمیر میں عمارتی لکڑی کی برآمد کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ یہی دریا ہے۔ سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی اسی دریا کے کنارے لڑی گئی تھی۔ سکندر اعظم نے اس فتح کی یادگار میں دریائے جہلم کے کنارے دو شہر آباد کیے۔ پہلا شہر بالکل اسی مقام پر تھا جہاں لڑائی ہوئی تھی۔ اور دوسرا دریا کے اس پار یونانی کیمپ میں بسایا گیا تھا۔ اس شہر کو سکندر اعظم نے اپنے محبوب گھوڑے بیوسیفاتس سے منسوب کیا جو اس لڑائی میں کام آیا تھا۔

دریائے چناب

دریاۓ چناب (انگریزی میں Chenab) چناب کا نام ‘چن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے، دریاۓ چندرا اور دریاۓ بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ بالائی علاقوں میں اس کو چندرابھاگا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کے ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر یہ دریاۓ جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریاۓ راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریاۓ ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو مٹھن کوٹ کے مقام پر دریاۓ سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریاۓ چناب کی کل لمبائی 960 کلو میٹر ہے، اور سندھ طاس معاہدہ کی رو سے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم ہے۔ ویدک زمانہ (قدیم ہندوستان) میں اسکو اشکنی یا اسکمتی کے نام سے اور قدیم یونان میں آچےسائنز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے سکندریہ (جو آج شاید اوچ شریف یا مٹھن کوٹ یا چچارن ہے) نام سے ایک شہر دریاۓ سندھ کے نزدیک پنجند کے سنگم پر تعمیر کیا۔ پنجابی تہذیب میں چناب کا مقام ایک علامت کے طور پر ہے جسکے گرد پنجابی سوجھ بوجھ گھومتی ہے اور ہیر رانجھا کی پنجابی رومانوی داستان دریاۓ چناب کے گرد ہی گھومتی ہے۔

دریاۓچناب اور جہلم کے سنگم کا مقام، پنجاب، پاکستان

ریلوے

ہندوستان ریلوے، جموں و کشمیر میں دریاۓ چناب پر دنیا کا سب سے اونچا پل بنا رہی ہے جسکی تکمیل 2009ء میں متوقع ہے۔

دریائے راوی

دریائے راوی

دریائے راوی ، چمبہ کے نزدیک
ماخذ چمبہ ، ہماچل پردیش ، بھارت
دہانہ پاک بھارت سرحد سے ہوتے ہوئے دریائے چناب میں
طاس ممالک بھارت ، پاکستان
لمبائی 720 کلومیٹر
Basin area بھارت ، پاکستان اور افغانستان
River system دریائے سندھ کا نظام
بائیں معاون بیاس اور ستلج
دائیں معاون چناب اور سندھ

صوبہ پنجاب میں دریائے سندھ اوراس کے معان دریائے جہلم ، دریائے چناب ، دریائے راوی اور دریائے ستلج بہتے ہیں۔ دریائے راوی ضلع کانگڑہ میں درہ روتنگ سے نکلتا ہے اور ساڑھے چار سو میل لمبا ہے۔ پاک پنجاب کا درالحکومت لاہور اسی دریا کے کنارے واقع ہے۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانہ علاقہ دوآبہ رچنا کہلاتا ہے۔ دریائے راوی کی بڑی بری نہریں یہ ہیں۔ اپر باری دواب مادھو پور بھارت سے نکلتی ہے۔ اس کی قصور برانچ پاکستان کو سیراب کرتی ہے۔ نہر لوئر باری دوآب کے ہیڈورکس بلوکی میں ہیں۔ یہ نہر اضلاع ملتان اور منٹگمری کو سیراب کرتی ہے۔ انہار ثلاثہ ان میں دریائے راوی ، چناب اور جہلم کی تین نہریں اپر جہلم ، اپر چناب اور لوئر باری دواب شامل ہیں۔ گنجی یار منٹگمری اور ملتان کو سیراب کرنے کے لیے راونی کا پانی کافی نہ تھا۔ چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چناب کا پانی بلوکی کے مقام پر بذریعہ نہر اپرچناب دریائے راوی میں ڈالا گیا۔ اس سے نہر لوئر چناب کا پانی کم ہوگیا ۔اور گوجرانولہ شیخوپورہ ، لائلپور اور جھنگ کے اضلاع کے لیے پانی ناکافی ثابت ہونے لگا۔ چنانچہ منگلا کو نہر اپر جہلم کا پانی خانکی کے مقام پر دریائے چناب میں ڈال دیاگیا۔ اضلاع لائل پور ، گوجرانولہ ، ساہیوال اور ملتان کی نہری آبادیاں انہار ثلاثہ کی بدولت ہی سیراب ہوتی ہیں ان میں اعلیٰ قسم کی گندم اور امریکن کپاس پیدا ہوتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

دریائے ستلج

 

ستلج پنجاب کے دریاؤں ميں سے ایک دریا کا نام ہے۔ 1960ء کے معاہدہ سندھ طاس کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد سے بھارت نے متعدد ڈیموں اور بیراجوں کے ذریعے اس کا پانی مکمل طور پر روک لیا ہے۔ اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھارت سے پاکستانی علاقے میں پانی اب صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے کیونکہ بھارت اسے Flood ReleaseRiver کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

دریائے کنہار

 

دریاۓ کنہارناران کے مقام پر

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

دریائے کنھار وادئ ناران، خیبر پختونخوا ، پاکستان میں لولوسر جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ ملکہ پربت، سیف الملوک جھیل، مکڑا چوٹی اور وادئ کاغان کا پانی سمیٹتا ہوا دریائے جہلم سے آ ملتا ہے۔ اس کے پانیوں میں عمدہ ٹرا‎ؤٹ مچھلی ملتی ہے۔ بالاکوٹ سے ناران جانے والی سڑک اس کے کنارے سے گزرتی ہے۔ چٹانوں سے ٹکراتا ہوا اس کا پانی ایک خوبصورت مگر خوفناک منظر پیش کرتا ہے۔

دریائے چترال

 

چترال کا ایک دریا

دریائے چترال چترال کے دریاوں میں سب سے بڑا دریا ہے۔ اس کے علاوہ دریائے تورکھو اور دریائے موڑکھو بھی چترال کے بڑے دریاوں میں شامل ہیں۔ دریائے چترال کابل کے دریا کے ساتھ مل کر دریائے کابل بن جاتا ہے۔

دریائے بیاس

 

کوہ ہمالیہ سے نکلتا ہے اور مشرقی پنجاب ’’بھارت‘‘ کے اضلاع امرتسر اور جالندھر کے درمیان سے گزرتا ہوا فیروز پور کے قریب دریائے ستلج سے مل جاتا ہے۔ پھر مؤخر الذکر نام سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔326 ق م میں سکندر اعظم کی فوجیں یہاں آکر رک گئیں تھیں۔

دریائے نیلم


دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

دریائے نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے۔ بھارت میں اسے دریائے کشن گنگا بھی کہتے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں گرتا ہے۔ اس مقام سے کچھ ہی آگے جہلم پر منگلا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ دریا اپنے شفاف نیلگوں پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔

دریائے حب

دریائے حب پاکستان میں کراچی کے قریب واقع ایک چھوٹا دریا ہے۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کوہ کیرتھر سے شروع ہوکر بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اپنے آخری حصے میں یہ دریا صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے مابین سرحد بناتا ہے۔

1981ء میں اس دریا پر ایک ڈیم بنایا گیا جسے حب ڈیم کہتے ہیں۔ یہ ڈیم لسبیلہ کے لیے آبپاشی اور کراچی کے لیے پینے کا پانی فراہم کرتا ہے۔

دریائے ہنزہ

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

دریائے ہنزہ پاکستان کے شمالی علاقوں ہنزہ اور نگر کا اہم دریا ہے۔ بہت زیادہ مٹی اور چٹانی ذروں کی آمیزش کی وجہ سے یہ بہت گدلا ہے۔ مختلف گلیشیر اور خنجراب اور کلک نالے اسکی بنیاد ہیں۔ پھر اسی میں نلتر نالہ اور دریائے گلگت ملتے ہیں۔ بلآخر یہ دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ شاہراہ ریشم اس دریا کے ساتھ چلتی ہے۔

دریائے گلگت

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

دریائے گلگت شمالی پاکستان کا ایک دریا ہے۔ گلگت کے پیچھے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے ساتھ سے گزرتا ہے۔ پانی صاف ہونے کی وجہ سے اس میں ٹراؤٹ مچھلی بھی ہوتی ہے۔ دریائے ہنزہ سے ملنے کے بعد یہ دریائے سندھ سے ملتا ہے۔

دریائے ہنگول

دریائے ہنگول، مکران، صوبہ بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ 350 میل لمبا یہ دریا بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔ ہنگول نیشنل پارک میں واقع اس دریا میں سارا سال پانی رہتا ہے۔

دریائے سواں

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

دریائے سوآں پوٹھوہار پاکستان کا ایک اہم دریا ہے۔ یہ مری کی پہاڑیوں سے شروع ہوتا ہے پھر اسلام آباد، راولپنڈی، چکوال اور میانوالی کے اضلاع سے ہوتا ہوا کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ اس کی لمبائ 250 کلومیٹر ہے۔

دریائے ٹوچی

 

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

یہ دریا وادی داوڑ کو سیراب کرتے ہوئے تنگہ سے گزرتا ہوا بنوں میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے گریڑا کا نام دیا گیا ہے۔ بنوں میں وزیر بکا خیل اور علاقہ میریان کا کچھ حصہ سیراب کرتا ہے۔ ضلع لکی میں داخل ہو کر اس کا نام گمبیلا ہو جاتا ہے جو عیسک خیل کے قریب دریائے کرم میں جا گرتا ہے۔ ماضی میں جب کنویں نہ تھے تو اس کا پانی صحت کے لیے مفید خیال کیا جاتا تھا اور دریائے کرم کا پانی مضر صحت ہوا کرتا تھا چونکہ بنوں کے باسی انہی دریاؤں سے پانی پیتے تھے یہی وجہ تھی۔ ماضی میں بنوں وال مروت کے مقابلے میں زرد رو ، کمزور اور لاغر ہوا کرتے تھے۔ مگر اب صورت حال بہتر ہو گئی ہے۔ بنوں وال بھی اچھی صحت کے مالک ہیں اور پیٹ کی جملہ بیماروں سے نجات پا چکے ہیں۔

دریائے کرم

 

Korm.JPG

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا

یہ دریائے پہاڑ کے متصل غزنی سے 50 میل دور کوہ سفید کے جنوبی حصے سے نکل کر علاقہ کرم میں قوم طوری کے زمینوں کو سیراب کرتے ہوئے ٹل بلند خیل شاخ، بنگش خیل کے پاس سے گزرتا ہے۔ ضلع بنوں کی مغربی حد سے متصل پوسٹ کرم کے مقام مشرق سے بنوں میں داخل ہوتا ہے یہ دریا تقریباً ہر موسم میں بہتا ہے آس پاس پہاڑی برساتی نالے اس میں جاگرتے ہیں۔ ماضی میں برسات کے دنوں دونوں کناروں تک بہتا تھا مگر کرم گڑھی سکیم کے بعد دریا سنبھلنے لگا۔ اب ماضی کی طرح کہرام بپا نہیں کرتا۔ ماضی میں بہت سارے قصبات اور اراضی دریا برد ہوئے ہیں۔ دریائے کرم سے قبیلہ منگل نے پہلی بار نہر کچکوٹ نکالی تھی ایک دوسری ویال پٹونہ ہے جو بعد میں جنوب سے موجود اولاد شیتک کے عہد میں نکالی گئی ہے جس سے علاقہ ممد خیل وزیر سیراب ہوتا ہے۔ مجیر نکلسن نے ویال لنڈیڈوک ٹیلی رام تحصیلدار کی نگرانی میں 1855ء میں کھدوائی۔ اسے ٹیلی رام نہر بھی کہتے ہیں اس سے لنڈیڈوک کی چھ ہزار کنال اراضی قابل کاشت بن گئی ہے اس کے علاوہ ویال آمندی ویال ہنجل ، ویال منڈان، ویال فاطمہ خیل، خون بہا، ویال چشنہ اور ویال شاہ اسی دریائے کرم سے نکالی گئی ہیں۔ ویال شاہ جو یہ شاجہان کے بیٹے دارا سے منسوب کی جاتی ہے۔ بہتر نظامِ آبپاشی کے باعث بنوں ایک زرخیر جگہ ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو بنوں جنگل نظر آتا ہے۔

بشکریہ وکیپیڈیا

pic_jhelumriver-bridge

mangla-dam
mangla-dam