URDUSKY || NETWORK

البرٹ آئنسٹائن |Albert Einstein

159

البرٹ آئنسٹائن

البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)، بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتا ہے۔ جرمنی کے شہر الم میں 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہؤا۔ باپ کا نام ہرمین (Hermann Einstein) اور ماں کا نام پالین (Pauline Koch) تھا۔

آئنسٹائن کا خاندان جرمنی کے خوشحال یہودی النسل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ باپ کاروباری تھا مگر زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ جب آئنسٹائن چھ برس کا تھا، یہ لوگ میونخ آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ایک کیتھولک مدرسہ میں پائی۔ یہاں کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ 1894ء میں آئنسٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔ دسمبر 1894ء میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئنسٹائن (غالباًً جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر 1896ء میں اس نے جرمن شہریت چھوڑ دی۔ اکتوبر 1895ء میں سویٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقعہ یونیوسٹی albert einsteinETH کے داخلہ کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ استاد نے مشورہ دیا کہ سکول کی تعلیم مکمل کرو، چنانچہ سویٹزرلینڈ کے شہر Aarau کے ایک سکول میں پڑھائی کی۔ یہاں جس گھر میں قیام تھا، اس کے مالک کی بیٹی Marie سے شناسائی ہوئی۔ اگلے سال ETH کا داخلہ امتحان کامیاب کیا۔ اب اس نے ETH میں پڑھائی شروع کر دی۔ وہ سکول استاد بننے کی پڑھائی کرنے لگا۔ اگست 1900ء میں امتحان ہؤا، پانچ طالب علموں کے امتحان میں آئنسٹائن چوتھے نمبر پر آیا۔ پہلے تین کو ETH نے نوکری دے دی، مگر اسے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ملیوا مارِک (Mileva Maric) کو نہیں۔ ملیوا کے ساتھ اس کا میل جول تھا اور وہ بعد میں آئنسٹائن کی پہلی بیوی بنی۔ ملیوا عیسائی تھی اور سربیا سے تعلق تھا۔ ملیوا اور آئنسٹائن کے درمیان 1897ء سے 1903ء تک کے خطوط کے تبادلہ سے تاریخ دانوں کو اس بارے معلومات ملی ہیں۔ ان خطوط میں ذاتی معاملات کے علاوہ فزکس کے مسائل پر بھی گفتگو ملتی ہے۔ فکرِ معاش کی وجہ سے آئنسٹائن شادی نہیں کر پا رہا تھا، مگر ملیوا حاملہ ہو گئی۔ 1902ء میں ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر پالا نہیں۔ 1902ء میں ہی آئنسٹائن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آئنسٹائن عارضی استاد کے طور پر مختلف جگہ کام کرتا رہا، حتٰی کہ جون 1902ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے patent دفتر میں نوکری مل گئی۔ 1901ء میں آئنسٹائن سویٹزرلینڈ کا شہری بھی بن گیا۔ جنوری 1903ء میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران آئنسٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا، اور اسی دوران اس نے اپنی زندگی کے عظیم تریں مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے، کہ آئنسٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔ یہ شبہات آئنسٹائن اور ملیوا کے خطوط سے پیدا ہوئے جن میں آئنسٹائن "ہمارے نظریے” کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی سائنسدان Abraham Joffe نے مبینہ طور پر یہ بتایا کہ جب آئنسٹائن نے اپنے مقالے جریدہ Annalen der Physik کو بھیجے تو ان پر پیٹنٹ دفتر میں کام کرنے والے Einstien-Maric نامی کسی شخص کے دستخط تھے۔ [1]

1905ء، کارناموں کا سال

اس سال آئنسٹائن نے چار مشہور مقالے شائع کیے:

  1. پہلا مقالہ روشنی کی ہیئت کے بارے تھا۔ روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے کچھ تجرباتی نتائج کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئنسٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو چھوٹے چھوٹے نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے پیش کیا تھا۔
  2. دوسرا مقالہ براؤنین حرکت (Brownian motion) کا ریاضی ماڈل تھا، جس میں احصاء کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔
  3. تیسرا مقالہ اس کی مشہور مساوات E = mc2 تھی، جس میں مادہ اور توانائی کا آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔ حال میں ایک محقق نے رائے دی ہے کہ یہ مساوات ایک اطالوی نے آئنسٹائن سے کچھ سال پہلے شائع کی تھی، اگرچہ اضافیت نظریہ کے سیاق و سباق میں نہیں۔ [2]
  4. چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضاء کو علیحدہ علیحدہ تصور کرنے کی بجائے "وقت۔فضاء” یا "زمان و مکاں” (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ (مگر یکساں) سمتار سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہو گی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم، اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کو ایک ہی (تقریباًً \ 3 \times 10^8 metres/second) نظر آئے گی۔ اور یہ بھی کہ کوئی مادہ چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں (uniform) سمتار سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا "ساکن” ہے۔ واضح رہے کہ اضافیت کا نظریہ اس سے پہلے Hendrik Lorentz اور Henri Poincare پیش کر چکے تھے۔ آئنسٹائن نے یہ اضافہ کیا کہ ایسا تجربہ ناممکن ہونے کا اطلاق Maxwell کی برقناطیسی موجوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طیبیعات کے قوانین تمام غیر اسراعی (non-accelerated) جمودی حوالہ جاتی قالب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

پروفیسری اور واپس جرمنی میں

1906ء میں زیورخ یونیوسٹی نے پی۔ایچ۔ڈی کی سند عطا کی، جس کے لیے آئنسٹائن نے تحقیقی مقالہ 1905ء میں جمع کرایا تھا۔ مقالات کی وجہ سے آئنسٹائن کی شہرت جو پھیلی، تو زیورخ یونیوسٹی نےنظریاتی طیبعیات میں اکتوبر 1909ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔ 1910ء میں پراگ یونیوسٹی سے پوری پروفیسر کی پیشکش ہوئی، تو 1911ء میں پراگ چلا گیا۔ یہاں جرمن اور چیک افراد میں لسانی و قومیاتی چپقلش کی وجہ سے کشیدگی تھی، اس لیے ایک سال ہی یہاں گزارنے کے بعد 1912ء میں زیورخ یونیوسٹی میں مکمل پروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ 1911ء میں برسلز میں اس کی Max Planck اور Lorentz جیسے بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی۔ 1911ء میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کیا۔ شہرت اور بڑھی، تو برلن یونیوسٹی، جو اس وقت علم کا گڑھ تھا، سے پروفیسر اور نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر، اور اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، جو قبول کر کے آئنسٹائن 1914ء میں جرمنی چلا آیا۔ جرمن شہریت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہاں آنے کے چار ماہ بعد ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ چار سالہ جنگ کے دوران آئنسٹائن زیادہ تر جرمنی میں ہی مقیم رہا۔ 1918ء میں جنگ جرمنی کی شکشت پر ختم ہوئی۔ جرمنی پر سخت شرائط تھیں، اور اسے فاتح ممالک کو بھاری رقم جرمانے کے طور پر دینا پڑ رہی تھی۔ اس سے جرمنی کی معیشت تباہ ہونا شروع ہوئی تو جرمن سیاست میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں نے زور پکڑ لیا۔ فرانس جرمنی کے کچھ علاقہ پر غاصبانہ قابض تھا، مگر اس کے باوجود آئنسٹائن فرانس کی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں یہودیوں کو بھی جرمنی کی تباہ شدہ معیشت کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ اس کے باوجود آئنسٹائن جرمنی میں مقبول تھا (سوائے کچھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے)۔ آئنسٹائن عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکہ، امریکہ اور فلسطین شامل تھے۔ امریکہ کئی دفعہ گیا۔ ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئنسٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔ 1922ء میں آئنسٹائن کو نوبل انعام دیا گیا۔ 1929ء میں جرمنی کے ایک شہر نے ایک جھیل پر آئنسٹائن کو جھونپڑی تحفے میں دی (بعد میں آئنسٹائن کو اس کی کچھ قیمت بھی دینا پڑی)۔ آئنسٹائن کشتی رانی کا شوقین تھا۔ 1933ء میں آئنسٹائن امریکہ کے دورے پر تھا کہ جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار سنبھال لیا۔ آئنسٹائن یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئنسٹائن نے جرمنی کے بجائے بیلجیم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔[3] 1933ء میں ہی آئنسٹائن امریکہ منتقل ہو گیا۔

اولاد

پہلی بیٹی شادی سے پہلے 1902ء میں سربیا میں بیوی ملیوا کے آبائی گھر پیدا ہوئی، مگر اسے ماں باپ نے پالا نہیں۔ اس کا انجام معلوم نہیں۔ 1903ء میں پہلا بیٹا ہینز (Hans)، شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہؤا، جس نے سویٹزرلینڈ سے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی تعلیم مکمل کی، اور بعد میں برکلے یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پروفیسر بنا، اور 1973ء میں وفات پائی۔ اپنی ماں سے آئنسٹائن کے برے سلوک کی وجہ سے کافی عرصہ اس کے باپ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ دوسرا بیٹا ایڈورڈ 1910ء میں پیدا ہؤا، جو ذہنی مریض تھا، اور ذہنی امراض کے اداروں میں ہی زیادہ وقت گزارا۔ 1965ء میں زیورخ میں وفات پائی۔

ازواج

پہلی بیوی ملیوا مارِک (Mileva Maric) سے 1903ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی، اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ 1914ء میں برلن جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ آئنسٹائن نے ملیوا کو صرف اس صورت اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تھا اگر وہ یہ شرائط پوری کرے [4]

A. تم یہ یقینی بناؤ گی کہ (1) میرے کپڑے اور بسترا ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (2) مجھے اپنے کمرے میں تین وقت کا کھانا پہنچاؤ گی۔ (3) میرا سونے اور پڑھنے کا کمرہ صاف ستھرا رکھو گی۔ میری پڑھنے والی میز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ B. میرے سے تمہارے تمام ذاتی تعلقات ختم ہوں گے، سوائے لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ …..جب مخاطب ہوں تو فوراً جواب دو گی …..میرے بچوں کو میرے خلاف نہیں کرو گی، گفتگو سے یا اپنے عمل سے۔

اس کے بعد ملیوا بچوں کو لے کر زیورخ چلی آئی۔ 1916ء میں آئن سٹائن نے طلاق کا سوال کیا۔ ملیوا ذہنی صدمے سے نڈھال ہو گئی، ہسپتال میں داخل ہوئی۔ آخر 1918ء میں اس شرط پر طلاق ہوئی کے اگر میاں کو نوبل انعام ملے تو اس کے پیسے ملیوا کے ہوں گے اور بچوں کو مالی طور پر میاں سہارا دے گا۔ دونوں بیٹوں کو ملیوا نے اکیلے ہی سوئٹزرلینڈ میں پالا۔ بڑا بیٹا بڑا ہو کر امریکہ چلا گیا۔ 1948ء میں ملیوا کی وفات ہوئی تو ہسپتال میں اکیلی تھی۔

1914ء میں برلن آنے کے بعد آئنسٹائن کی شناشائی اپنی چچا زاد بہن ایلسا (Elsa) سے دوبارہ ہوئی۔ اس نے آئنسٹائن کے لیے ایک سیکرٹری ہیلن ڈیوکس (Helen Dukas) ڈھونڈ کر رکھ کے دی جو عمر بھر آئنسٹائن کی سیکرٹری رہی۔ آئنسٹائن اس شش وپنج میں تھا کہ ایلسا سے شادی بنائے یا اس کی جوان سال بیٹی سے۔ [5] مگر اس بیٹی نے کچھ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور آئنسٹائن نے ایلسا سے ہی شادی کر لی۔ ایلسا بعد میں آئنسٹائن کے ساتھ امریکہ آ گئی جہاں 1936ء میں انتقال کیا۔

عمومی اضافیت نظریہ

نظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915ء میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ

  • اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔
  • کشش ثقل (جس کی وجہ سے مثلاً سورج کے گرد سیارے کا گھومتے ہیں) کی طاقت کی ایک اور توضیح پیش کی۔ وہ یہ کہ سورج کی موجودگی سے زمان و مکان ہی ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اب سیارہ اپنی طرف سے سیدھا ہی چل رہا ہوتا ہے مگر اس زمان و مکان کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے وہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اس ٹیرھے پن کا اثر برقناطیسی موجوں پر بھی ہو گا۔ مثلاً ستاروں کی روشنی سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا رُخ ہلکا سا تبدیل کرتی ہے۔ روشنی کے اس مڑنے کی تصدیق تجرباتی طور پر سورج گرہن کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے 1919ء میں کی، جس سے عمومی اضافیت نظریہ کی تصدیق ہو گئی اور آئنسٹائن کی شہرت کی اخباروں میں دھوم مچ گئی۔ تاریخ دانوں نے کہا ہے کہ برطانوی سائنسدان ایڈنگٹن نے اس تصدیق میں ڈنڈی ماری تھی۔[6]
  • اس کے علاوہ سیارے عطارد کا مدار مشاہدے میں جیسا نظر آتا تھا، اس کی آئزک نیوٹن کا کشش ثقل نظریہ albert einsteinپوری طرح تشریح نہیں کر پاتا تھا، جبکہ نظریہ اضافیت کی پیشن گوئی اور مشاہدہ میں مماثلت دیکھی گئی۔
  • نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی کی شعائیں بھاری ستاروں سے نکلتے ہوئے ان شعاعوں کا تعدد سرخ (روشنی کے طیف میں سرخ رنگ کی) طرف تھوڑا سا کھسک جاتا ہے۔

جب آئنسٹائن نے یہ نظریہ تیار کر رہا تھا، اسی عرصہ میں اس کا عظیم جرمن سائنسدان ڈیوڈ ہلبرٹ کے ہاں کچھ دن قیام رہا اور اس سے سائنسی بحث بھی ہوتی رہی۔ آئنسٹائن سے کچھ دن پہلے ہلبرٹ نے نظریہ اضافیت پر ابنا مقالہ سائنسی جریدے کو ارسال کیا۔ آئنسٹائن نے بعد میں ہلبرٹ پر اس کے خیالات "چوری” کرنے کا الزام لگایا۔ یہ اب تک متنازعہ ہے کہ ہلبرٹ اور آئنسٹائن کا عمومی اضافیت نظریہ میں کتنا حصہ تھا۔ [7]

علم الکائنات

آئنسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کا علم الکائنات سے گہرا تعلق بنتا تھا۔ اس لیے علم الکائنات کے بارے بھی آئنسٹائن نے تحقیقی نظریات پیش کیے۔

مقداریہ آلاتیات

مقداریہ آلاتیات کا نظریہ اسی زمانے میں وجود میں آ رہا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق:

  • ہم یہ نہیں کہے سکتے کہ برقیہ گردش کرتا ہوا جوہر کے اندر ایک خاص مدار میں ہے، بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں برقیہ کا کسی جگہ موجود ہونے کا احتمال کیا ہے۔ یعنی جس طرح روشنی کی موجیں دوہری فطرت (dual nature) رکھتی ہیں، یعنی روشنی کی موجوں کو نوریہ ذرات پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے، بعینہ، جوہری ذرات (مثلاً برقیہ) بھی دوہری فطرت رکھتے ہیں، یعنی انہیں بھی موجوں کی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
  • اس نظریہ سے اصولِ سببیہ (causality principle) albert einsteinکی بھی نفی ہو سکتی ہے۔
  • غیریقینی اصول، جس کے مطابق کسی ذرے کا مقام اور معیار حرکت دونوں ایک ساتھ اپنی مرضی کی انتہائی درستگی سے ناپا نہیں جا سکتا۔

آئنسٹائن نے فلسفیانہ بنیادوں پر اس نظریہ سے اختلاف کیا۔ آئنسٹائن کا قول تھا کہ "خدا طاس نہیں کھیلتا۔” اس کا خیال تھا کہ یہ ایک عارضی نظریہ ہے اور ایک بہتر نظریہ دریافت ہو گا جس میں یہ "خامیاں” نہیں ہونگی۔ اس سلسلہ میں اس کی بوہر سے طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ البتہ مقداریہ آلاتیات نظریہ سائنسدانوں میں قبول ہو گیا اور جوان سائنسدان بوڑھے آئنسٹائن کو غیر مناسب سمجھنے لگے۔

صیہونیت کی معاونت

آئنسٹائن فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا پُر جوش حامی تھا۔ 1921ء میں اس نے وائزمین (Chaim Weizmann) کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا اور صیہونیت کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے متعدد شہروں میں تقریریں کیں۔ 1952ء میں آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش ہوئی جو اس نے قبول نہیں کی۔

امریکہ میں

1933ء میں آئنسٹائن، ایلسا اور ہیلن کے ساتھ امریکہ چلا آیا اور پرنسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ امریکہ کے پہلے دوروں پر اسے مختلف یونیوسٹیوں نے پہلے سے پروفیسری کی پیشکش کر رکھی تھی۔ یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول میں اپنی تحقیقات میں لگ گیا جو اب قدرت کی تمام طاقتوں کا ایک متحد نظریہ دریافت کرنا تھا۔ اس میں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری رکھیں۔ 1940ء میں امریکہ کی شہریت حاصل کی۔ امریکہ میں آئنسٹائن کی عظیم شخصیت کی طرح پذیرائی ہوتی تھی، اور صحافی اس کے ہر موضوع پر خیالات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آئنسٹائن کو جرمن قوم سے سخت نفرت ہو گئی اور جنگ کے بعد پیشکش ہونے پر بھی وہ جرمنی نہیں گیا۔ 18 اپریل 1955ء کو پرنسٹن میں ہی موت ہوئی۔ آئنسٹائن hemolytic anemia کا مریض تھا۔ موت کی وجہ اس کے arota میں aneurysm کا پھٹنا تھا۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے خفیہ طور پر سر چیر کر دماغ مرتبانوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔[8] میت کو بعد میں جلا کر راکھ (cremate) کر دیا گیا۔

ایٹم بم

1939ء میں امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس میں ایٹم بم بنانے کی ترغیب دی۔ وجہ یہ بتائی کہ شاید ایڈولف ہٹلر ایسا کرنا چاہتا ہو۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل ہوئے تو آئنسٹائن نے افسوس کا اظہار کیا۔

امریکی بحریہ کا بم ماہر

دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی بحریہ نے اس کی خدمات اسلحہ ماہر کی حیثیت سے حاصل کیں۔ آئنسٹائن اپنی ماہرانہ رائے دیا کرتا کہ سمندر میں کس طرح کہ بم کی ساخت کامیاب رہیں گی۔

ایف۔بی۔آئیalbert einstein

امریکی خفیہ ایجنسی FBI آئنسٹائن کے بائیں بازو (سیاسی و معاشی) نظریات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور خفیہ تحقیقات کر رہی تھی۔

آئنسٹائن کا خدا

آئنسٹائن کے اقوال میں خدا (God) کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ خدا سے مراد قدرت (nature) تھی۔ بہرحال آئنسٹائن کا نظریۂ خدا مذہبی نقطۂ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

  1. ^ Abraham Pais, "Einstein lived here,” Clarendon Press, Oxford, 1994.
  2. ^ Guardian 11 Nov. 1999 Einstein’s E=mc2 ‘was Italian’s idea’
  3. ^ Jake Goldberg, Albert Einstein, Franklin Watts, 1996, pp. 96
  4. ^ Donald Goldsmith, Einstien: a relative history, 2005, Simon & Schuster, Inc., pp. 89
  5. ^ Denis Brian, The unexpected Einstein, Wiley, 2005, pp. 33
  6. ^ Tony Rothman, everything’s RELATIVE, chapter 8, Wiley, 2003
  7. ^ The Register,15 November 2004, Was Einstein a plagiarist?
  8. ^ Mario Livio, The equation that could not be solved, Simon & Schuster Trade, 2005
  9. Wikipedia