URDUSKY || NETWORK

ظالموں قا ضی آ رہا ہے

121

ظالموں قا ضی آ رہا ہے

شمشیر حق۔۔محمد وجیہہ السمائ،کھاریاں
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک آدمی اپنی گا ئے پر بیٹھ کر دوسرے شہر جا رہا تھا کہ قریب سے ایک اور آ دمی جو اپنی گھوڑی(وچھیری)پر بیٹھ کر قریب سے گزراتو گا ئے والے شخص نے اپنی مخصوص آواز میں آواز لگا ئی آواز لگا نے کی دیر تھی کہ گھوڑی آ واز لگا نے والے کے پاس آ گئی گھوڑی کے مالک نے بھی اسے نا گوار نہ سمجھا اور گا ئے والے شخص کے ساتھ ہو لیا ۔ شہرابھی تھوڑے فا صلے پر تھا کہ گا ئے کے مالک نے یہ دعوی کر دیاکہ گھوڑی گا ئے کی بچی ہے اور اس لحاظ سے وہ اس کا مالک ہے جب یہ بات شہر کے محافظوں کو پتہچلی تو دونوں کو پکڑ کر قا ضی کے پاس لے گئے اس سے پہلے کہ قاضی فیصلہ کر تا۔ گا ئے کے مالک نے قاضی کو رشوت لگا دی۔ اور فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا گھوڑی کے مالک نے دوسرے قا ضی کی عدالت میں رجوع کیا وہاں بھی گا ئے والے کی دی ہو ئی رشوت کام آ گئی اور فیصلہ پھر گا ئے والے کے حق میں آ گیا۔ گھوڑی والے نے پھر تیسری جگہ اپنا کیس دائر کیا تو قاضی نے کہا کہ میں کل فیصلہ کروں گا آ ج مجھے حیض آ رہا ہے اس پر عدالت میں موجود گا ئے کے ما لک سمیت لوگوں نے کہا کہ جناب یہ تو عورتوں والی بیماری ہے توقاضی صاحب نے کہا ہاں!بالکل یہ عورتوں والی بیماری ہے جو یقینا مردوں میں نہیں ہو سکتی اور اگر اسی طر ح انصاف کے تقا ضے پورے کئے جا ئیں تو سچ بات یہ ہے کہ کوئی گھوڑی گا ئے کی بچی نہیں ہو سکتی ۔ یہ ایک قصہ کہا نی تھی جھو ٹی یا سچی ۔ اگر اسی طر ح اپنے ملک کی جانب دیکھیں تو یہی صورتحال نظر آ تی ہے۔ یہی صورتحال ہماری تمام سیا سی جماعتوں کی ہے کہ ان میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جنھیں عوام کی بجا ئے اپنی اور اپنی پارٹی کی زیادہ فکر ہے جس کی نشا ندہی گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کی کہ پاکستان کی لو ٹی ہو ئی رقوم آ ج بھی بیرون ممالک کے بنکوں میں موجود ہےں ان کو واپس آ نا چا ہیئے یہ ان کی واپسی کے لئے بیان دیا گیا ہے اگر وہ یہ کام پاکستان کے لئے کر جا ئیں تویقینا یہ ان کے ترقیاتی کا موں سے ہزار گناہ بڑھ کے ہو گا اگر خدانخواستہ اس موقع پر بھی” مفا ہمتی عمل“ اور مصلحت پسندی سا منے نہ آ گئی۔ حقیقت میں اپوزیشن پارٹیوں کی ذمہ داری بھی یہی بنتی ہے کہ وہ حکومت کی کرپشن، ناکامی، کمیوں کو تا ہیوںاور نااہلی کو سا منے لا ئے اس پر آواز بلند کر ے لیکن نا جا نے پاکستان میں کو ن سی خفیہ طا قت ہے جو سہی معنوں میں ملک و قوم کی خد مت کر نے والوں کو اس بات پر اکسا رہی ہے کہ ایک دوسرے کے غلط کاموں کی نشاندہی کر نی ہے اور نا ہی ان پر کسی قسم کا بیان جاری کر نا ہے اس سے”جمہوریت “کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور جب جمہوریت کے ماتھے کے جھو مر کو ہی اتار دیاجا ئے تو وہ ”جمہوریت“ ہی کب رہتی ہے وہ تو منا فقت کی صورت اختیار کر جا تی ہے جو آجکل سیاستدانوں کے لئے نظر یہ ءضرورت بن چکی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر حکمران نے آ کر پہلا نعرہ یہی بلند کیا ہے کہ پاکستان کا خرانہ خالی ہے ۔ اس سے صاف ظا ہر ہو تا ہے کہ پاکستان کی معشیت کیا ہو گی ۔ اگریہ با ت حقیقت ہے کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہے تو پھر بیرون ملکوںکے بنک پاکستانی لوگوں کے ”خزانوں“اور نوٹوں سے بھرے پڑے ہیںیہ روپیہ پیسہ ان افراد کے پا س کیسے آ یا انہوں نے کیسے اتنا کمایا اور انہوں نے یہ پاکستانی بنکوں میں رکھنے کی بجا ئے بیرون ممالک کے بنکو ں میں رکھنے کو تر جیح کیوں دی؟ یقینا یہ ایک اہم سوال ہے جو اب عوامی حلقوں میں سرایت کر چکا ہے اور عوام کی نظریں اب بھی اپنے ان عوامی نما ئندوں پر لگی ہو ئی ہیں کہ وہ ان کے کیا کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے عوامی خدمت نظر نہ آ نے کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے ایسے کرپٹ حکمرانوںجو کرپشن میں سب کو برابری کا درس دیتے ہیں کی دنیا تو شاید بڑے پر تعش طریقہ سے گزر جا ئے لیکن عاقبت۔۔۔۔
اور وزیر اعلی پنجاب اگر اپنے بڑے بھا ئی اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے قا ئد میاں نواز شریف سے کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے تمام عہدیداران اور اراکین کو کرپشن کے خلاف کلمہ حق کی آ واز بلند کر نے کا کہہ دیں تو جس طرح ان کی پارٹی ملک کی دوسری بڑی پارٹی بنی اسی طرح پاکستان میں رشورت اور سفارش کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں بہت حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے اور خصوصا ملک میں بڑھتی ہو ئی کرپشن کو ختم کر نے کے لئے ان تمام افراد کو حکومتی سطح پر قومی دھارے میں لا نا ہو گا جو اپنے ملک کی بہتری کے لئے کام کر سکیں اور احتساب کا یہ عمل مسلم لیگ (ن) کو اپنے گھر سے شروع کر نا ہوگا کہ 25سال سے مسلم لیگ سے وابسطہ لوگ آ ج بھی کہیں ورکرہی تو نہیں کیا انہیں سٹی،تحصیل، ضلع، ڈویژن ، یا صوبا ئی سطح پر اپنے قا ئدین سے ملنے میں کو ئی رکاوٹ تو نہیں کہیں وہ پارٹی کا صرف ایک نظریا تی ووٹر ہی تو نہیں !کیا ایسے افراد کا معا شرے کو کوئی نقصان تو نہیں؟
اگر ہم سب حقیقت میں پاکستان کی خدمت کر نے کا عزم رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ہمیں اپنا کردار بہتر کر نا ہو گا ہمیں ہر اس پار ٹی کے فرد کا خیال رکھناہو گا جو دوسروں کے لئے دن رات ایک کئے ہو ئے ہے اور پارٹیوں سے ان نااہل لوگو ں کو بھی نکالنا ہو گا جو غریبوں کی لوٹی ہو ئی دولت سے ایک ظالم کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ایسے سرکاری ملازمین کو بھی نوکریوں سے فارغ کر نا ہو گا جو عوام خدمت کی بجائے عوامی جا بر حکمران بنے ہو ئے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو جا ئے تو جماعت اسلامی کے نعرے ”ظالموں قاضی آ رہا ہے“ کو عملی تعبیر مل سکتی ہے جس کے بغیر شا ید پاکستا ن کبھی تر قی نہیں کر سکتا۔۔۔

ظالموں قا ضی آ رہا ہےشمشیر حق۔۔محمد وجیہہ السمائ،کھاریاں
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک آدمی اپنی گا ئے پر بیٹھ کر دوسرے شہر جا رہا تھا کہ قریب سے ایک اور آ دمی جو اپنی گھوڑی(وچھیری)پر بیٹھ کر قریب سے گزراتو گا ئے والے شخص نے اپنی مخصوص آواز میں آواز لگا ئی آواز لگا نے کی دیر تھی کہ گھوڑی آ واز لگا نے والے کے پاس آ گئی گھوڑی کے مالک نے بھی اسے نا گوار نہ سمجھا اور گا ئے والے شخص کے ساتھ ہو لیا ۔ شہرابھی تھوڑے فا صلے پر تھا کہ گا ئے کے مالک نے یہ دعوی کر دیاکہ گھوڑی گا ئے کی بچی ہے اور اس لحاظ سے وہ اس کا مالک ہے جب یہ بات شہر کے محافظوں کو پتہچلی تو دونوں کو پکڑ کر قا ضی کے پاس لے گئے اس سے پہلے کہ قاضی فیصلہ کر تا۔ گا ئے کے مالک نے قاضی کو رشوت لگا دی۔ اور فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا گھوڑی کے مالک نے دوسرے قا ضی کی عدالت میں رجوع کیا وہاں بھی گا ئے والے کی دی ہو ئی رشوت کام آ گئی اور فیصلہ پھر گا ئے والے کے حق میں آ گیا۔ گھوڑی والے نے پھر تیسری جگہ اپنا کیس دائر کیا تو قاضی نے کہا کہ میں کل فیصلہ کروں گا آ ج مجھے حیض آ رہا ہے اس پر عدالت میں موجود گا ئے کے ما لک سمیت لوگوں نے کہا کہ جناب یہ تو عورتوں والی بیماری ہے توقاضی صاحب نے کہا ہاں!بالکل یہ عورتوں والی بیماری ہے جو یقینا مردوں میں نہیں ہو سکتی اور اگر اسی طر ح انصاف کے تقا ضے پورے کئے جا ئیں تو سچ بات یہ ہے کہ کوئی گھوڑی گا ئے کی بچی نہیں ہو سکتی ۔ یہ ایک قصہ کہا نی تھی جھو ٹی یا سچی ۔ اگر اسی طر ح اپنے ملک کی جانب دیکھیں تو یہی صورتحال نظر آ تی ہے۔ یہی صورتحال ہماری تمام سیا سی جماعتوں کی ہے کہ ان میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جنھیں عوام کی بجا ئے اپنی اور اپنی پارٹی کی زیادہ فکر ہے جس کی نشا ندہی گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کی کہ پاکستان کی لو ٹی ہو ئی رقوم آ ج بھی بیرون ممالک کے بنکوں میں موجود ہےں ان کو واپس آ نا چا ہیئے یہ ان کی واپسی کے لئے بیان دیا گیا ہے اگر وہ یہ کام پاکستان کے لئے کر جا ئیں تویقینا یہ ان کے ترقیاتی کا موں سے ہزار گناہ بڑھ کے ہو گا اگر خدانخواستہ اس موقع پر بھی” مفا ہمتی عمل“ اور مصلحت پسندی سا منے نہ آ گئی۔ حقیقت میں اپوزیشن پارٹیوں کی ذمہ داری بھی یہی بنتی ہے کہ وہ حکومت کی کرپشن، ناکامی، کمیوں کو تا ہیوںاور نااہلی کو سا منے لا ئے اس پر آواز بلند کر ے لیکن نا جا نے پاکستان میں کو ن سی خفیہ طا قت ہے جو سہی معنوں میں ملک و قوم کی خد مت کر نے والوں کو اس بات پر اکسا رہی ہے کہ ایک دوسرے کے غلط کاموں کی نشاندہی کر نی ہے اور نا ہی ان پر کسی قسم کا بیان جاری کر نا ہے اس سے”جمہوریت “کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور جب جمہوریت کے ماتھے کے جھو مر کو ہی اتار دیاجا ئے تو وہ ”جمہوریت“ ہی کب رہتی ہے وہ تو منا فقت کی صورت اختیار کر جا تی ہے جو آجکل سیاستدانوں کے لئے نظر یہ ءضرورت بن چکی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر حکمران نے آ کر پہلا نعرہ یہی بلند کیا ہے کہ پاکستان کا خرانہ خالی ہے ۔ اس سے صاف ظا ہر ہو تا ہے کہ پاکستان کی معشیت کیا ہو گی ۔ اگریہ با ت حقیقت ہے کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہے تو پھر بیرون ملکوںکے بنک پاکستانی لوگوں کے ”خزانوں“اور نوٹوں سے بھرے پڑے ہیںیہ روپیہ پیسہ ان افراد کے پا س کیسے آ یا انہوں نے کیسے اتنا کمایا اور انہوں نے یہ پاکستانی بنکوں میں رکھنے کی بجا ئے بیرون ممالک کے بنکو ں میں رکھنے کو تر جیح کیوں دی؟ یقینا یہ ایک اہم سوال ہے جو اب عوامی حلقوں میں سرایت کر چکا ہے اور عوام کی نظریں اب بھی اپنے ان عوامی نما ئندوں پر لگی ہو ئی ہیں کہ وہ ان کے کیا کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے عوامی خدمت نظر نہ آ نے کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے ایسے کرپٹ حکمرانوںجو کرپشن میں سب کو برابری کا درس دیتے ہیں کی دنیا تو شاید بڑے پر تعش طریقہ سے گزر جا ئے لیکن عاقبت۔۔۔۔اور وزیر اعلی پنجاب اگر اپنے بڑے بھا ئی اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے قا ئد میاں نواز شریف سے کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے تمام عہدیداران اور اراکین کو کرپشن کے خلاف کلمہ حق کی آ واز بلند کر نے کا کہہ دیں تو جس طرح ان کی پارٹی ملک کی دوسری بڑی پارٹی بنی اسی طرح پاکستان میں رشورت اور سفارش کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں بہت حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے اور خصوصا ملک میں بڑھتی ہو ئی کرپشن کو ختم کر نے کے لئے ان تمام افراد کو حکومتی سطح پر قومی دھارے میں لا نا ہو گا جو اپنے ملک کی بہتری کے لئے کام کر سکیں اور احتساب کا یہ عمل مسلم لیگ (ن) کو اپنے گھر سے شروع کر نا ہوگا کہ 25سال سے مسلم لیگ سے وابسطہ لوگ آ ج بھی کہیں ورکرہی تو نہیں کیا انہیں سٹی،تحصیل، ضلع، ڈویژن ، یا صوبا ئی سطح پر اپنے قا ئدین سے ملنے میں کو ئی رکاوٹ تو نہیں کہیں وہ پارٹی کا صرف ایک نظریا تی ووٹر ہی تو نہیں !کیا ایسے افراد کا معا شرے کو کوئی نقصان تو نہیں؟اگر ہم سب حقیقت میں پاکستان کی خدمت کر نے کا عزم رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ہمیں اپنا کردار بہتر کر نا ہو گا ہمیں ہر اس پار ٹی کے فرد کا خیال رکھناہو گا جو دوسروں کے لئے دن رات ایک کئے ہو ئے ہے اور پارٹیوں سے ان نااہل لوگو ں کو بھی نکالنا ہو گا جو غریبوں کی لوٹی ہو ئی دولت سے ایک ظالم کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ایسے سرکاری ملازمین کو بھی نوکریوں سے فارغ کر نا ہو گا جو عوام خدمت کی بجائے عوامی جا بر حکمران بنے ہو ئے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو جا ئے تو جماعت اسلامی کے نعرے ”ظالموں قاضی آ رہا ہے“ کو عملی تعبیر مل سکتی ہے جس کے بغیر شا ید پاکستا ن کبھی تر قی نہیں کر سکتا۔۔۔