URDUSKY || NETWORK

سکے کے دورخ

98

سکے کے دورخ
تاریخ کو خون آلودراہداریوں میں ایک محل اور قصر شاہی کے دربار میں پڑا ”ایک پتھر“ بدلتے دنوں میں انسانوں کی بربریت، ظلم و جور اور حیوانیت کی کہانی مدتوں بیان کرتا رہا۔اس پتھر پر سب سے پہلے اعلائے کلمة الحق کے قافلہ سالار شہید کربلا سید نا امام حسین کامقدس سرا بن زیاد کے سامنے رکھا گیا۔ پھر اسی پتھر پر ابن زیادکا سر مختار بن ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا ۔ یہی پتھر مختار بن ثقفی کے خون کی گواہی بناجب اس کا سر عبداللہ بن زبیر کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر اسی پتھر پر عبد اللہ ابن زبیر کا سر حجاج بن یوسف کے روبرو تاریخ کی بربریت کی شہادت دیتا رہا۔سربریدہ لاشوں کی بے حرمتی، کٹے ہوئے سروں کی نمائش ان لوگوں کا فعل رہا جن میں بربریت انسانی احترام پرغالب تھی یا پھر جن کے انتقام کی آگ نے انہیں ان لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبور کردیا جن کے خلاف وہ حق کی آواز بلند کرتے تھے۔
میں تاریخ کی یہ کہانیاں پڑھتا تھا اورحیرت میں ڈوب جاتا تھا۔ احد کی وادیوں میں سیدنا حمزہؓ کی مقدس لاش کا مثلہ کرنے پرسید الانبیائﷺکا کرب اور دکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔مجھے وہ ہدایت یاد آجاتیں جو آپﷺ لشکر کو جہاد پر روانہ کرتے ہوئے دیا کرتے تھے۔ کسی فصل کو تباہ نہ کرنا،کسی لاش کا مثلہ نہ کرنا، کسی عورت اور بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا۔لیکن ان سب ہدایات کا تمسخر تاریخ میں جس طرح اس امت مسلمہ کے چندافرادنے اقتدارکی لالچ میں اڑایا وہ میری روح پر بوجھ تو تھا ہی لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اپنی ہی زندگی میں اس تمسخر کی آنکھوں دیکھی گواہی کے مسلسل عذاب میں مجھے گرفتار ہونا پڑے گااوراس کرب کا تجربہ مجھے گزشتہ تریسٹھ سال سے جموں وکشمیرکی انگاروادی میںبغورمطالعہ سے ملے گا۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں پچھلی چھ دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اس جنت ارضی میں ان تمام ظلم وستم کے دوران کربلا کے میدان سجاتے وقت وزارت اعلیٰ کامنصب ان افرادکے پاس رہا جو اسی رحمة اللعالمین ﷺکی سنت کے دعویداراور اس کے دین مبین کے علمبردار ہیں اور جن کی زبان ان کے ساتھیوں اور ان کے گھرانے سے محبت میں رطب اللسان رہتی ہے لیکن اقتدارکی خاطر ظالم کے ہاتھ پربیعت کرکے تاریخ میںاپنے ہی ہم وطنوں کے قتل وغارت کے ذمہ دارٹھہرائے جائیں گے۔
بدقسمتی سے نائن الیون کے بعدبالخصوص امریکااوربالعموم مغرب نے مسلمانوں کے تمام مسائل سے نہ صرف چشم پوشی بلکہ ایک دشمنی کارویہ اپنارکھا ہے جس سے بھارتی حکومت بھی پوری طرح فائدہ اٹھارہی ہے‘اس لئے ان کاتصورِ دہشت گردی اورانتہاپسندی صرف مسلمانوں کے گردہی گردش کرتارہتا ہے۔ اس مدارمیں اتنی خوبصورتی اورتوازن ہے کہ بھول کربھی یہ تصوربھارت کی بی جے پی اوراسرائیل کی لیکوڈپارٹی کی طرف نہیں جاتا‘جنہوں نے انسانوں کوکیڑوں مکوڑوں سے بھی نچلی سطح پر رکھاہواہے۔جتنے بچے انہوں نے کشمیر‘گجرات اورغزہ میںانسانوں کے مارے ہیں‘اتنے اگرکسی جنگل میں سانپ کے مارے ہوتے توامریکااورمغرب میں جنگلی حیات اورماحول کے تحفظ کی تنظیمیںان ملکوں کے خلاف پابندیاں لگوانے میں کامیاب ہوچکی ہوتیں لیکن چونکہ ان جماعتوں کے ہاتھوں مرنے والے بچے مسلمانوں کے تھے اس لئے امریکااوریورپ نے اسرائیل اوربھارت میں کبھی بھی انتہاپسندوں کی جیت پرناگواری اورشکست پر مسرت کااظہارنہیں کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر باراک اوبامہ سے اپنے ایک خط میں بھارت کے مجوزہ دورے میںان کی توجہ مسئلہ کشمیرکی طرف مبذول کرواتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے پہل کرنے پرمجبورکیاجائے۔کچھ دنوں پہلے دلی اورسرینگر کے سیمیناروں میںکشمیریوں کے انسانی حقوق کےلئے بلند ہونے والی آوازایک عالمی شہرت یافتہ ارن دھتی نے بھی اٹھائی ‘انہوں نے دلی سرکارکوہوش کے ناخن لینے کامشورہ دیا ہے۔انہوں نے دلی سرکار سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کشمیرمیں اجتماعی قاتلوںاورعصمت کے لٹیروں کوجوکھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اس کولگام دی جائے اوراپنے بیان میں مزید کہاکہ تاریخ کے مستندحوالوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جموں وکشمیرکبھی بھی بھارت کاحصہ نہیں رہااس لئے کشمیریوں کوان کے بنیادی حق سے محروم نہیں رکھاجاسکتا۔ارن دھتی کی صاف گوئی پربی جے پی نے فوری طورپراپنے شدیدردعم لااظہارکرتے ہوئے ان پرغداری کامقدمہ قائم کرنے کااور کانگرس نے ارن دھتی سے اس بیان سے دستبرداری کامطالبہ کردیالیکن اس دبنگ عورت نے ایک دفعہ پھر حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ اس نے وہی بات کہی ہے جوسرینگر کے بچے بچے کی زبان پر ہے اورجوبھارت کے سیاسی مبصرین اورقلمکارسالہاسال سے کہتے چلے آرہے ہیں۔
ارن دھتی کاقصوریہ ہے کہ اس نے کشمیریوں کےلئے انصاف کامطالبہ کیا ہے کہ اب تک بھارتی افواج کے ہاتھوںایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوصفحہ¿ ہستی سے مٹادیا گیا ہے‘پچاس ہزارسے زائدماو¿ںکوان کے جگرگوشوں سے جداکردیا گیا ہے کہ وہ اب کبھی دنیامیں واپس نہیں آئیں گے‘ تیس ہزارسے زائدنوجوان کشمیری بچیاں اپنے سہاگ کاخون دلی سرکار کے ہاتھوں پرعائد کررہی ہیں‘ایک لاکھ تیس ہزاربچے شفقتِ پدری سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ارن دھتی کاالمیہ یہ ہے کہ وہ دلی سرکار سے ان دلت سپاہیوں کےلئے انصاف کی بات کررہی ہے جوکشمیر کے اندرمارے جارہے ہیں‘وہ چڈالونامی گاو¿ں کے اس گندگی پربنی قبروں کاتذکرہ کرکے دلی سرکارکے سوئے ہوئے ضمیرکوجھنجھوڑنے کاجرم کررہی ہے۔وہ حقائق کی تلاش میں جنوبی قصبے شوپیاں پہنچ گئی جہاں ایک سال پہلے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوںنیلوفراورآسیہ کی عصمت دری کرنے کے بعدان کوبہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیاتھااورجس کے قاتل آج بھی آزادی کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں‘آسیہ کے بھائی اورنیلوفرکے شوہرشکیل کے ساتھ یکجہتی کااظہارکرنے ان کے گھر پہنچ گئی جسے آج تک انصاف نہیں مل سکا‘وہ اس گاو¿ں کی ماو¿ں بہنوں اوربھائیوں سے اظہارہمدردی کررہی تھی جنہوں نے اس ظلم کے خلاف مسلسل ۷۴روزمکمل احتجاج کیالیکن انصاف کی بجائے ان کومزید لاشوں کاتحفہ دیاگیا۔وہ اس سوگوارگاو¿ں کی کیفیت کامطالعہ کرنے گئی جس کے مکیں اب مکمل مایوسی اورصدمے سے دوچارہیں اورجنہیں اب دلی سرکارسے کسی انصاف کی توقع نہیں۔
ارن دھتی نے ان سنگبازوں سے بھی ملاقات کی جن کی آنکھیں پھوڑدی گئیں‘اس نے ایک ایسے نوجوان کے ساتھ سفرکیاجس نے اسلام آبادمیں اپنے ایسے تین دوستوں کاذکرکیاجن کے ہاتھوں کے ناخن کھینچ کرنکال دیئے گئے کہ وہ آئندہ سیکورٹی فورسزپرپتھر نہ پھینک سکیں۔بے بس‘مجبورومقہورکشمیریوں کے حق میں انصاف کی فریادکرنے والی کوبالآخر مجبوراًیہ کہناپڑاکہ ”مجھے اس ملک وقوم پرافسوس ہورہا ہے جس کواپنے قلمکاروںکوخاموش کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ‘ افسوس اس ملک پر جس کوانصاف کی بات کرنے والوں کوجیل بھرنے کی ضرورت پرتی ہے اوراس کے برعکس جہاں فرقہ وارانہ قاتل‘اجتماعی قتلوں میں ملوث عناصر‘گھپلے باز‘عصمتوں کے لٹیرے اورغریبوں کاشکارکرنے والے آزادگھوم رہے ہیں“۔یہ وہی ارن دھتی ہے جس نے چندسال قبل کشمیر سمیت بھارت کی شمال مشرقی ریاستوںمیں فورسز کے ہاتھوںعوام پربے پناہ ظلم وستم اورجبرکے پہاڑ توڑنے پراحتجاجاً پدم شری کااعزازقبول کرنے سے انکارکردیا تھا بلکہ ۸۰۰۲ءمیں امرناتھ تنازعے کے موقع پردلی سرکارکویہ صلاح دیتے ہوئے کشمیریوں کے دل جیت لئے تھے کہ” اب وقت آگیا ہے کہ کشمیریوں کوآزادی جیسی نعمت سے ہمکنارہوناچاہئے“۔
ارن دھتی کی یہ صاف گوئی جہاں دلی سرکار کوگراں گزری ہے وہاں بھارت کے ایک مشہورصحافی ودانشورجناب کلدیپ نیئرنے دلی سرکار کی وکالت کرتے ہوئے پونے مہاراشٹرمیں دلی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کوانٹرویودیتے ہوئے من موہن سنگھ کومسئلہ کشمیر کےلئے بہت مخلص قراردیتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ” کشمیرکاحل آئین ہند کے دائرے میں بھارتی خدوخال کے عین مطابق ہوناچاہئے “۔ کیاکلدیپ نیئرکے پاس اس بات کو کوئی جواب ہے کہ اب تک کوئی ایک بھی ا یسا عمل من موہن سنگھ کاسامنے کیوں نہیں آیا جس سے یہ محسوس ہوکہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بہت مخلص ہیں ؟اورپھربھارتی خدوخال کانیا مشورہ توکشمیریوں کے زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔اگر۷۴۹۱ءمیںبرطانوی وزیراعظم چرچل یاایٹلی پنڈت نہرواورگاندھی جی کواپنے اخلاص کا صدق دل سے ایسا ہی یقین دلاتے کہ برطانوی خدوخال میں بھارت کی آزادی کاحل تجویزکریں گے توکیاکلدیپ نیئر اوردیگربھارت کے اکابرین اس اخلاص کے طریقہ کار سے اتفاق کرتے؟ اگر ایسا حل اس وقت ممکن نہیں تھا تو اب بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
مناسب یہی ہے کہ کلدیپ نیئرکشمیریوں پرہونے والے مظالم کے خلاف ارن دھتی کاساتھ دیں اورممکن ہوتودلی سرکار کے قائم کردہ کئی ”گوانتاناموبے “کیمپوں سے کشمیریوں کورہائی دلوائیں۔ابھی حال ہی میں بمنہ سرینگر کے شیخ فرحت محمود(جس کاقصور یہ تھا کہ اس نے جیل میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پربھوک ہڑتال کی تھی )کوکولکتہ کی جیل میں درگاپوجاکے پوتردن الف ننگاکرکے ساری جیل میں گھمانے کی انسانیت سوزحرکت پرمن موہن سنگھ کے اخلاص کی قلعی کھل کرسامنے آگئی ہے۔ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی لامتناہی پامالی ‘لاکھوں کشمیریوں نوجوانوں کاقتل‘سیکورٹی فورسز کے ہاتھوںہزاروں کشمیری خواتین کی عصمت دری کاسلسلہ بند کرانے میں ارن دھتی کاساتھ دیں نہ کہ ایسے بیانوں سے ان قوم و فرقہ پرست جماعتوں کی حوصلہ افزائی کریں جن کے نزدیک سچائی‘حق پرستی کی کوئی وقعت نہیں اورطاقت وجبرکے بل بوتے پرکشمیریوں کواپناغلام بنائے رکھناان کے ایمان میں شامل ہے۔یوں لگتا ہے کہ ارن دھتی اورکلدیپ نیئرصحافت کے سکے کے دوایسے رخ ہیں جن کی مشابہت کبھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔