URDUSKY || NETWORK

سپر بگ ۔این ڈ ی ایم ۔۱

137

عبدالجلیل منشی ۔ کویت
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ نت نئی بیماریاں دنیا کے مختلف حصوں میں ظاہر ہورہی ہیں اوربایولوجیکل لیبارٹریوں میں نئے نئے جراثیم اور بگز (BUGS)کا انکشاف ہورہا ہے جن کے بارے میں آج سے پہلے کے انسان نے نہ کبھی سوچا تھا نہ سنا تھاایک سائنسی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پینے کے پانی میں موجود بیکٹیریا میں ایک ایسے جین (Gene) کا سراغ ملا ہے جو موجودہ دور کی تمام معروف اور موثر انیٹی بایوٹیک ادویات کے خلاف ان بیکٹیریا اور جراثیم کی قوت مدافعت اور قوت مزاہمت کوحیرت انگیز طور پر حد سے زیادہ بڑھا دیتا ہے
نیو دہلی میٹالو بیٹا لیکٹاماسی ۔۱ (Delhi metallo-beta-lactamase 1) یا این ڈ ی ایم ۔۱ (NDM-1) نامی یہ جین ایسے سپر سپربگز(SUPER SUPER BUGS) تخلیق کرتا ہے جو ہیضے ، اورپیچش کے جرثوموںمیں باسانی سرائیت کر جاتے ہیں اور دیگر بیماریوں کے جرثوموں میںبھی بغیر کسی دقت کے گردش کرسکتے ہیں
برطانیا کی کارڈف یونیورسٹی میں میڈیسن کے شعبے سے منسلک ایک محقق مارک ٹولیمن نے اسی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ساتھی محقق ٹموتھی والش کے ساتھ کی گئی ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نئی دہلی کے باشندے ایک ایسے وائرس کا شکار ہورہے ہیں جو موجودہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتا ہے اور جو پینے کے پانی میں پایا جاتا ہے جسے اہلیان دہلی اپنی روز مرہ کی زندگی میں پینے، کھانا پکانے ، نہانے اور کپڑے دھونے میں استعمال کرتے ہیں
گزشتہ ہفتے مارک ٹولیمن نے اپنی اس مشترکہ دریافت کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم نے بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اس اہم زریعے کو دریافت کر لیا ہے جو وہا ں ایسے جرثومے تخلیق کرنے کا سبب بن رہا ہے جو موجودہ دور کی تمام انٹی بایوٹک ادویات کے خلاف زبردست قوت مدافعت کا حامل ہے جن میںانٹی بایوٹک گروپ کے سب سے طاقتورطبقہ کارباپینم کی ادویات بھی شامل ہیں
مارک ٹولیمن کی تحقیقی رپورٹ (جو کہ لانسٹ انفیکشن ڈیزیز جرنل (Lancet Infectious Diseases journal میں شائع ہوئی تھی ) کے مطابق این ڈی ایم ۔۱ جین کا سب سے پہلا ظہور تین سال قبل ہو اتھا اور اب وہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اور مختلف انواع و اقسام کے کیڑوں اور جراثیم میں پایا جاتا ہےاس جین کے تخلیق کردہ طاقتور بگز کے حامل جراثیم نیو دہلی کی گلی کوچوں میں موجود گندے پانی کی نالیوں، آبی جوہڑوں،پانی کے تالابوں اور شہری علاقوں میں واقع پینے کے پانی کے نلکوں میں پائے گئے ہیںجرنل کی رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سپر بگ سے دنیا بھر میں سانس اور پیشاب کی نالیوں کا انفیکشن اور انسانی سوائن فلو پھیل
سکتا ہے
تحقیق کاروں نے ستمبر اور اکتوبر ۰۱۰۲ کے درمیان مرکزی دہلی کے بارہ کیلومیٹر اطراف کے رہائشی علاقوں میں واقع نالیوں اور جوہڑوں سے تقریبا ۱۷۱ (ایک سو اکتھر) نمونے حاصل کئے جبکہ عوامی پانی کے نلکوں سے پچاس نمونے حاصل کئے گئے جن میں سے دو پینے کے پانی کے نمونوں میں اور ۱۵ (اکاون) جوہڑوں اور نالیوںکے نمونون میں این ڈی ایم ۔۱ جین پایا گیا جبکہ دو پینے کے پانی کے نمونوں اور بارہ جوہڑوں اور نالیوں کے نمونوں میں این ڈی ایم ۔۱ کے حامل جرثومے پروان چڑھتے ہوئے پائے گئے
مشترکہ رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیاگیا ہے کہ صرف نیو دہلی میں پانچ لاکھ سے زائد افراد این ڈی ایم ۔۱ کے حامل جرثوموں کا شکار ہیںجبکہ اس جین اور اسکے حامل جرثوموںکا سدباب کرنے کے لئے مزید نئی ادویات کو مارکیٹ میں آتے آتے مزید پانچ تا چھے سال کا عرصہ لگ سکتا ہے
ماہرین کے مطابق سپربگ کے انتشار نے موجودہ جدید ادویات کی تمام اقسام کی اہمیت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے کیوںکہ یہ ادویات اس وقت تک موثر انداز میں کام نہیں کر سکتیں جبتک ڈاکٹروں کے پاس ہر قسم کے انفیکشن کودور کرنے کے لئے انتہائی فعال قسم کی انٹی بایوٹیک ادویات موجود نہ ہوں
دوسری جانب لندن سے شائع ہونے والے لانسٹ انفیکشن ڈیزیز جرنل کے ایڈیٹررچرڈ ہارٹن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سپر بگ کو نیو دہلی کے نام سے منسوب کرنا انڈیا کو بدنام کرنے کے مترادف ہے ہم نے اس رپورٹ کو شائع کرتے وقت اس بگ کو نیو دہلی کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے اسکے منفی نتائج کے بارے میں نہیں سوچا تھا جس کے لئے میں دلی معذرت کا طلبگار ہوں، اس بات کا اظہار انہوں نے اپنے بھارت کے حالیہ دورے کے دوران اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیاانہوں نے محققین پر زور دیا کہ بگ کو نیو دہلی کے نام سے منسوب کرنا ایک ملک اور اسکے شہر کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اسلئے محققین کو یہ نام تبدیل کردینا چاہیے
اس سلسلے میں بھارت کی وزارت صحت نے لانسٹ رپورٹ کوسختی کے ساتھ مسترد کرتے ہویے اسے مبالغہ آرائی انتہائی غیر مناسب قرار دیا ہے جبکہ کچھ سیاست دان اسے ملک کی پروان چڑھتی ہوئی سیاحت اور صحت کی صنعت کے خلاف ایک سازش قرار دے رہے ہیں
این ڈی ایم ۔۱ جین سب سے پہلے ٹموتھی والش نے ۹۰۰۲ میں سویڈن کے ایک باشندے کے خون میں شامل بیکٹیریا میں دریافت کیا تھاجو اس زمانے میں بغرض علاج انڈیا کے ایک اسپتال میں داخل ہوا تھا لانسٹ رپورٹ کی اشاعت کے بعدکینڈا، امریکا، بیلجیم،ہولینڈ، اسٹریا،فرانس، جرمنی، کینیا،آسٹریلیا،ہانگ کانگ،اومان اور جاپان میںاین ڈی ایم ۔۱کے حامل مریضوں waterکا انکشاف ہونا شروع ہوگیا تھاہندوستان سے باہر این ڈی ایم ۔۱ کے جو مریض سامنے آئے ہیںانکا علاج یا کوسمیٹک سرجری کے سلسلے میں بھارت میںقیام رہا تھا
ماضی میں اینٹی بایوٹک کے استعمال سے متعلق انڈیا کی آزادپالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا تھاجہاں ان ادوایات کامریضوں پر غیر ضروری اور ضرورت سے زیادہ استعمال کیا گیاجس کے نتیجے میںبیماریوں کے جراثیم میں ان ادوایات کے خلاف زبردست قوت مدافعت پیدا ہوگئی اور وہ جسم میں موجود انفیکشن کو ختم کرنے میں ناکام ثابت ہونے لگیں