URDUSKY || NETWORK

حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام

117

فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا (البقرہ: ١٣٧)

پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم لائے ہو تو تب ہی ہدایت یافتہ ہوں گے

حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام

محمد زکریا

حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا سلام پہنچانے خانہ نبوت میں تشریف لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: یا رسول اللّٰہ ھذہ خدیجہُ قد اتت، معھا اناء فیہ اِدام اَو طعام اَو شراب، فاذا ھی اَتَتک، فاقراعلیھا السلام من رَبَّہا ومنِیّ اے اللہ کے رسول، خدیجہ کچھ خوردونوش کا سامان لے کر آپ کے پاس آیا چاہتی ہیں، جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن سے اُن کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی سلام کہیے

عرشِ معلی سے اتری یہ تہنیت جب اپنے شوہر سے سنتی ہیں تو ایک بڑا پاکیزہ جملہ عرض کرتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰہ ھو السلام اللہ تو خود سلام ہے (مجھ جیسی گناہ گار بندی کے لیے یہ مژدا!) (وعلی جبریل السلام) جبریل علیہ السلام پر سلام (وعلیک السلام) اور آپ پر سلام۔

حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ کہ اللہ تو خود سلام ہے وہی الفاظ ہیں جو حضور اکرم نے کئی سالوں بعد مدینے میں صحابہ کرام سے کہے تھے آپ نے جب صحابہ کرام کو نماز میں تشھد کا طریقہ سکھلایا تھا تو یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اللہ خود سلام ہے، تم تشھد میں یوں کہا کرو: السلام علیک ایہا النبی ورحمہ اللّٰہ وبرکاتہ والسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین۔ آپ کے ان فرمودات سے پہلے صحابہ کرام اللہ پر بھی سلام بھیجا کرتے تھے۔ درآں حالیکہ تمام سلامتی اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت خدیجہ اللہ کے اس صفاتی نام کا ازخود علم رکھتی تھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کا ایک واقعہ ہے۔ اللہ پر بے ساختہ ایمان، اس کی قدرت دیکھ کر اس کی عظمت اور کبریائی کا تصور، وہ رحمت جو نبوت بن کر ان کے آنگن میں اتری تھی اور اس کے لیے شکرانے کے جذبات، پھر عبادت کا وہ ہمہ گیر تصور جس کی دولت وہ پچیس برس مسلسل اللہ کی رضا جوئی میں جان ومال کھپا دیتی ہیں، وہ اعمال ہیں جو فرض عبادات کے بغیر ہی انہیں اپنے زمانے کی سب سے افضل عورت کے مرتبے پر پہنچا دیتے ہیں۔ نماز پنجگانہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد فرض ہوتی ہیں، روزے ہجرت کے بعد فرض ہوئے اور اسی طرح زکوٰت اور حج بھی مدینے کے آخری دور میں فرض ہوتے ہیں۔ اللہ پر کامل ایمان اور پھر اس ایمان سے جو اعمال رونما ہوتے ہیں وہ آخرت کے میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں۔

نبی علیہ السلام سے آپ کی طویل رفاقت رہی اور رفاقت کے اِس طویل عرصے میں نبی علیہ السلام نے کسی دوسری خاتون کو اپنی زوجیت میں نہیں لیا اور نہ کسی خادمہ کی ضرورت سمجھی۔ اکیلی حضرت خدیجہ نبوت جیسی اہم ذمہ داری میں نبی علیہ السلام کا اس بھرپور انداز سے ساتھ دیتی ہیں کہ آپ کسی بڑے کنبے کی ضرورت نہیں سمجھتے، جو بعد میں آپ کو مدینے میں حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ازواج مطہرات کی موجودگی میں باکثرت حضرت خدیجہ کو یاد کرتے۔ اگرچہ حضرت خدیجہ دو ہاجن تھیں، پہلا نکاح ابوھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا، دوسرا عقد عتیق بن عابد مخزوی سے ہوا، مگر آپ کو کل جہان سے پیاری تھیں، وہ عمر میں آپ سے بزرگ تر تھیں مگر جواں سال عائشہ سے آپ کو عزیز تر تھیں۔ آپ تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ کی بابت چند ناپسندیدہ الفاظ کہے، جنہیں سن کر نبی علیہ السلام ایک ماہ تک حضرت عائشہ سے ناراض رہے اور گھر قدم نہیں رکھا۔

وہ فرماتی ہیں: کان لم یکد یسام من ثَناء علیہا واستغفارِ لہا آپ کا حضرت خدیجہ کی تعریفیں کرکے کبھی جی نہیں بھرتا تھا اور باکثرت ان کے لیے استغفار کرتے۔

میں نے ایک دن حضرت خدیجہ کی عیب جوئی کر دی تو آپ غضبناک ہو گئے، جبیں مبارک پر پسینہ نمودار ہوا، پیشانی پر بال بکھر گئے، آپ کے غصے کا یہ عالم دیکھ کر میں نے جھٹ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے:

اللھمّ اِن اَذھبتَ غضب رسولِکَ عَنیِّ لم اَعُد اُذکُرَھا بسوئٍ

”اے اللہ آج کے دن تو اپنے رسول کا غصہ مجھ سے دور فرما دے، میں حضرت خدیجہ کے لیے آئندہ کبھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کروں گی“۔

جب آپ پرسکون ہو گئے تو ازواج مطہرات سے فرمایا: ”جیسے مریم بنت عمران اپنے زمانے میں سب عورتوں سے افضل تھیں، ویسے خدیجہ اِس زمانے کی سب عورتوں سے افضل ہیں“۔

بخدا خدیجہ سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ اُس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے کفر کیا، دُنیا بھر نے مجھے جھٹلایا، اُس نے میری تصدیق کی، لوگوں نے مال دینے سے انکار کردیا، خدیجہ نے کل مال وقف کردیا، خدیجہ کے بطن سے میری اولاد ہوئی اور کسی بیوی سے مجھے اولاد نہیں ملی۔

حضرت خدیجہ سے آپ کی چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں اور دو لڑکے القاسم اور عبداللہ تولد ہوئے۔ جو شیر خواری کے دوران میں وفات پا گئے۔ طاہر اور طیب دراصل آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے لقب ہیں۔ بعض سیرت نگار طاہر اور طیب کو بھی نبی علیہ السلام کی اولاد میں شمار کرتے ہیں جو درست نہیں۔

جبریل علیہ السلام ان کو بشارت دیتے ہیں:

بشرھا ببیت فی الجنت من قصبٍ لا صحب فیہ ولارضبا

انہیں بشارت دے دیجئے، جنت میں ایک ایسے گھر کی جو موتی چھید کر بنایا گیا ہے۔ ایسا گھر جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو گی اور نہ کوئی چھن جانے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔

حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ ان کی ہمشیرہ ھالہ بنت خولد تشریف لاتی ہیں اور آپ سے اندر آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ دونوں بہنوں کی آواز میں کافی مشابہت تھی۔ ھالہ کی آواز سن کر آپ کو یوں لگا کہ خدیجہ تشریف لائی ہیں مگر جب آپ دوبارہ آواز سنتے ہیں تو فرماتے ہیں ”اللھم ھالہ“ ارے یہ تو ھالہ ہیں۔ صحیح بخاری میں الفاظ ہیں فارتاع لذلک اور صحیح مسلم میں فارتاع کی بجائے فارتاح لذلک کے الفاظ ہیں۔ دونوں روایتوں کو جمع کرنے سے معنی نکلتا ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کی یاد سے ایک قسم کی فرحت محسوس کی۔

حضرت خدیجہ قریشی قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنا سرمایہ بڑی سمجھ داری سے تجارت میں لگاتی تھیں۔ حکمت اور دانائی وافر ملی تھی۔ ایسی عفت مآب کہ طاھرہ (پاک دامن) لقب تھا۔ جاھلیت میں بھی اپنی فطرت اصلیہ کو بت پرستی یا شرک سے آلودہ نہیں کیا تھا۔ پہلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتی تھیں، مردم شناسی کا ملکہ آپ کو ودیعت ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے لیے وہ نبی علیہ السلام کا انتخاب کرتی ہیں اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا جو سفر آپ کرتے ہیں وہ سب احوال اپنے وفادار خادم میسرہ سے سن کر سمجھ جاتی ہیں کہ آپ اس امت کے آخری نبی ہیں۔ نبی کی بیوی بننے کی سعادت سے آپ محروم نہیں ہونا چاہتی تھیں اس لیے دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے آپ کا نکاح نبی علیہ السلام سے ہو جاتا ہے اور پندرہ برس بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ وحی اترنے کی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس وقت آپ کو ایک سچے ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد اور کون ہو سکتا تھا۔ آپ گھر لوٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: زَمّلونی، دَثَّرونی مجھے جلدی سے لحاف اڑھا دو۔

ہمارے زمانے کی کوئی بیوی ہوتی تو عین ممکن ہے سوال پر سوال کرتی، مگر اطاعت شعار بیوی کے لیے سب سے مقدم اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل ہوا کرتی ہے۔ اس وقت آپ کو پرسکون کرنا اور حوصلہ بڑھانا اولین ضرورت تھی، اس لیے بڑی مستعدی سے آپ کو کمبل اڑھا دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور مسلسل دلاسا دیتی رہتی ہیں۔ آپ جب پرسکون ہو جاتے ہیں تو غار حرا کا ماجرا من وعن سنا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔

مگر حضرت خدیجہ فرماتی ہیں (کلاَّ) ایسا مت سوچیے۔

اِنَّکَ لَتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق

(بھلا خدا ایسے شخص کو کیوں ہلاک کرے گا)

آپ رشتہ داری نبھاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ناتواں کو سہارا دیتے ہیں، نادار پر خرچ کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصائب میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

پھر مزید اطمینان دلانے کے لیے ورقہ بن نوفل جیسے عالم کے پاس لے جاتی ہیں۔ ورقہ بن نوفل آپ کے عم زادہ تھے، آسمانی مذاہب کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور عیسوی مذہب پر کاربند تھے۔ عبرانی اور عربی دونوں زبانوں میں پوری مہارت رکھتے تھے اور کثرت مطالعہ سے نابینا ہو گئے تھے۔ تاہم علوم الغیبیات کے متعلق تورات اور اناجیل میں جو کچھ مذکور تھا اس کا پورا علم رکھتے تھے۔ مزید براں ایک خیر خواہ اور دور اندیش درویش تھے۔ رسول اللہ پر جو پہلی وحی اتری تھی اور اُس سے آپ جس گھبراہٹ میں مبتلا تھے، اُس کا ذکر ورقہ بن نوفل سے کرنا نہایت قرین قیاس تھا اور حضرت خدیجہ کی دانائی کا بین ثبوت۔ غار حرا کا واقعہ سن کر وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ناموس (جبریل فرشتہ) ہے جو انبیاءپر نازل ہوتا ہے۔ کاش میں اُس وقت آپ کی بھرپور مدد کر سکوں جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کر دے گی۔

آپ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کیا میری اپنی قوم مجھے نکال دے گی! ورقہ بن نوفل ایک عام کلیہ بیان کرتے ہیں کہ ہر نبی کو اس کی قوم ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔

ورقہ بن نوفل نے حضرت خدیجہ کی بات کی تصدیق کر دی کہ اللہ نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیے چن لیا ہے، لہٰذا آپ مستعد ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری وحی جب آپ پر نازل ہوئی تو آپ اس کے لیے ذہنی طور پر پوری طرح تیار تھے اور وہ خوف یا اندیشہ جو پہلے آپ کو لاحق تھا وہ حضرت خدیجہ کے حسن تدبیر سے دور ہو گیا تھا۔

رسول اللہ مکہ میں پوری مستعدی سے اسلام کا پرچار کرتے ہیں اور خالص اللہ کی عبادت اور بت پرستی اور غیر اللہ کی عبادت سے پوری سختی سے لوگوں کو منع کرتے ہیں۔ برسوں اس بنیادی اور متنازع عقیدے کو قرآن کے ذریعے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور عقیدہ توحید اور عقیدہ شرک کے درمیان ایک بڑی واضح تفریق پیدا کر دیتے ہیں جو بالآخر مکہ کا اشرافی طبقہ برداشت نہیں کر سکتا اور بنی عبدالمطلب اور ہاشمی خانوادے کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ خلق خدا کے ستائے دونوں خاندان شعب ابی طالب میں تین برس کے لیے محصور ہو جاتے ہیں۔ عسرت اور فاقہ کشی کے تین برس۔ حضرت خدیجہ ناز ونعم میں پل کر جوان ہوئی تھیں، تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک امیر زادی کے لیے بھوک برداشت کرنا کتنا صبر آزما رہا ہوگا۔ مگر جس نے ایمان کا مزہ پالیا ہو اُس کے لئے دنیاوی لذتوں سے محرومی کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔ پورے تین برس وہ پہلے سے بڑھ کر رسول اللہ کی خدمت کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب سماجی بائیکاٹ ختم ہوتا ہے اور آپ مع اپنے خاندان کے مکہ میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، حضرت خدیجہ داغ مفارقت دے جاتی ہیں، تین برس کی محنت شاقہ اور بھوک وافلاس آخر اپنا اثر دکھا کر گئی، لیکن وہ وفا کی پیکر اُس وقت وفات پاتی ہیں جب دعوت اسلام پورے عرب میں ایک روٹین پر چل نکلتی ہے۔ اگلے تیرہ برس میں دعوت اسلامی کے ثمرات نکلنے تھے۔ مکہ کے کئی بااثر افراد ایمان لا چکے تھے، نبی علیہ السلام کے ساتھ صحابہ کرام کا ایک مضبوط جتھہ وجود پا گیا تھا۔ جب حضرت خدیجہ جنت میں اپنے موتی محل کو چل دیتی ہیں تو زمین پر بھی ان کی باغبانی سے ایک گلستان سربسر پھیل رہا ہوتا ہے۔ مگر اللہ کو یہی پسند تھا کہ دُنیا کی سب سے افضل عورت کی ضیافت ارضی نہیں سماوی گلستان میں ہو۔

ہجرت سے تین برس قبل یکے بعد دیگرے ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ نے اِس سال کو عام الحزن کہا تھا، مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ نے پورے سال میں سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ عام الحزن کہنے سے مراد ہے کہ نبوت کے دسویں سال آپ کو دو صدمے اٹھانے پڑے۔ ایک ابوطالب کی وفات کا صدمہ اور دوسرا ایک ماہ بعد حضرت خدیجہ کے انتقال کا صدمہ جو پہلے سے بڑھ کر جاں گسل تھا۔

یہ ہیں پہلی مسلم شخصیت، عفت مآب، اعلیٰ نسب، علم سے بہرہ مند، تجارت میں سود مند، بلند کردار، پاکیزہ افکار، سلیم الفطرت، سماجی حیثیت میں معزز تر۔

اسلام اتنا ہی عظیم ہے کہ اس میں داخل ہونے والے افراد حضرت خدیجہ جیسے اخلاق کے مالک ہوں۔

کوتاہ بیں، ڈرپوک، جلد ثمرات لینے والے، مال وزر کو سینت سینت کر رکھنے والے، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو شک سے دیکھنے والے اسلام کی بلندی کو نہیں پانے والے۔

رضی اللّٰہ عنھم ورضواعنہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Reference: www.eeqaz.com