URDUSKY || NETWORK

روسی حملے کے بعد یوکرین میں پھنسے پاکستانی: ’ہمیں ڈر تھا انارکی کی کیفیت میں سب سے پہلے ہم پردیسی نشانہ بنیں گے‘

’سینکڑوں دیگر گاڑیوں کے ہمراہ اپنی زندگی بچانے کے لیے ہماری منزل بھی پولینڈ ہے۔ مگر ہماری طرح کوئی نہیں جانتا کہ ہم لوگ محفوظ مقام تک پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔‘

159

یوکرین پر روسی حملے کے بعد بہتر مستقبل کی تلاش میں آنے والے پاکستانی شہریوں کا ایک گروہ اب پولینڈ جانے پر مجبور ہے اور یہ سفر ان کے لیے ہرگز آسان نہیں ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے چار پاکستانی دوست محمد اعظم اقبال، حافظ راشد، علی شیخ اور عزیز الرحمان یوکرین کے دارالحکومت کیؤ میں تقریباً چار ماہ سے بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔

گذشتہ روز تک ان کا خیال تھا اور مقامی لوگوں نے بھی ان سے یہی کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری کشیدگی ایک بڑے تصادم میں تبدیل نہیں ہوگی۔ اور ان کی بھی یہی خواہش تھی کیونکہ وہ یہاں کام کر کے پاکستان میں موجود اپنے خاندانوں کی مالی مدد کر رہے تھے۔

انھیں یوکرین آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا مگر اس کے باوجود انھیں یہاں بہتر مستقبل نظر آ رہا تھا۔ لیکن گذشتہ روز روسی افواج کی جانب سے یوکرین پر تین اطراف سے مداخلت کے بعد انھیں مجبوراً اپنے خوابوں پر نظرثانی کرنا پڑی ہے۔

محمد اعظم اقبال کہتے ہیں کہ ’بدھ کی شب ہم لوگ پُرسکون انداز میں سوئے ہوئے تھے۔ ہمیں یوکرین کے لوگوں نے کہا تھا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ روس عالمی دنیا کے دباؤ تلے حملہ نہیں کرے گا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’مگر شاید ابھی بدھ ہی تھا اور ہم سوئے ہوئے تھے کہ پتا چلا کہ روس نے حملہ کر دیا ہے۔

یوکرین کے میڈیا نے بتایا کہ حملہ شدید ہے۔ صبح ہوئی تو دارالحکومت میں بھی خوف و ہراس پھیل چکا تھا۔ لوگوں نے کیئو چھوڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے بھی عافیت اسی میں سمجھی کہ کیئو کو چھوڑ کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔‘

’چھوٹی گاڑیوں میں بھی دس دس لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘

یوکرین کی اس افراتفری میں عام شہری ہوں یا کسی اور ملک سے آئے طلبہ اور پیشہ ور افراد، سب کو اپنی زندگی کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔

محمد اعظم اقبال کہتے ہیں کہ ’جمعرات کی صبح جب ہم نے کیئو کو چھوڑا تو اس وقت دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ فضا میں جنگی طیارے موجود تھے۔ باہر سڑکوں پر یوکرین کی سکیورٹی فورسز تھیں۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ ’دارالحکومت خطرے میں ہے، روس کی فوج کسی بھی وقت، کسی بھی لمحے پہنچ سکتی ہے‘۔‘

انھیں ان کے ساتھیوں نے یہاں تک کہا کہ ’اگر روسی فوج یہاں نہ پہنچی تو فضا سے بمباری ہوسکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ، ریستوران اور مارکیٹیں مکمل طور پر بند تھیں۔ ’جن لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں تھیں وہ ان میں اپنے بیوی بچوں اور خاندان والوں کو لے کر شہر سے باہر جانے والی مین روڈ کی طرف رواں دواں تھے۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ چھوٹی گاڑیوں میں بھی دس دس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔‘

وہ اس منظر کو بھلا نہیں سکے کہ ’بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی حالت سب سے زیادہ بُری تھی۔ عورتیں اور بچے رو رہے تھے۔‘

پولینڈ جانے کا فیصلہ اور 100 کلو میٹر کا سفر سات گھنٹوں میں

اس خوف میں انھوں نے آپس میں مشوروں کے بعد کیش کے حصول کی کوشش کو ترک کر دیا اور شہر سے باہر پولینڈ جانے والی مرکزی شاہراہ کا رُخ کیا۔

’سب کہہ رہے تھے کہ پولینڈ نے اپنی سرحد کھول دی تھی۔ اس کے علاوہ باقی کوئی راستہ بھی نہیں بچا تھا۔‘

اعظم اقبال بتاتے ہیں کہ پولینڈ کے لیے سفر کرتے ہوئے بھی پیڑول پمپوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ ’کیش کے بغیر تو نکل سکتے تھے کہ شاید آگے مل جائے مگر پیڑول کے بغیر گزارہ نہیں تھا۔ دو گھنٹے انتظار کے بعد ہمارا نمبر آیا۔‘

عزیز الرحمان کہتے ہیں کہ پولینڈ والی روڈ پر ٹریفک جام تھی۔ ’مین روڈ پر گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے سفر کر رہی ہیں۔ ہر کوئی پریشانی کا شکار ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ جلدی جلدی نکل کر پولینڈ کی سرحد تک پہنچ جائے۔‘

پولینڈ کی سرحد ان سے قریب 750 کلو میٹر دور تھی اور وہ سات گھنٹوں میں صرف 100 کلومیٹر طے کر سکے۔ اس دوران راستے میں گاڑیاں خراب ہونے یا پیڑول ختم ہونے کی وجہ سے کھڑی نظر آ رہی تھیں جس سے ٹریفک بلاک ہو رہا تھا۔

عزیز الرحمان کہتے ہیں کہ ’لوگ اس مین روڈ پر پیدل بھی چل رہے ہیں۔

انھوں نے کندھوں پر سامان اٹھایا ہوا ہے۔ جبکہ خراب اور پیٹرول ختم ہونے والی گاڑیوں کے مسافر جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ہر گاڑی کو لفٹ کے لیے اشارہ کرتے ہیں۔ مگر شاید کسی کے لیے انھیں لفٹ دینا ممکن نہ ہو۔‘

محمد اعظم اقبال کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں نے صبح افراتفری میں جو کچھ گھر میں دستیاب تھا اس سے ناشتہ کیا اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ پانی اپنے ساتھ لے کر جاسکیں۔ اس کے علاوہ رات گئے تک ہم لوگوں نے کچھ بھی کھایا پیا نہیں ہے۔ ایک تو راستے میں کچھ دستیاب نہیں۔ اگر دستیاب ہو بھی تو ہم لوگ نقد رقم کی قلت کا شکار ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں کہ پیسے بچا لیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’سینکڑوں دیگر گاڑیوں کے ہمراہ اپنی زندگی بچانے کے لیے ہماری منزل بھی پولینڈ ہے۔ مگر ہماری طرح کوئی نہیں جانتا کہ ہم لوگ محفوظ مقام تک پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔‘

’اور یہ بھی معلوم نہیں کہ آنے والا وقت ہمارے لیے کیا لے کر آئے گا؟‘

بشکریہ: بی بی سی اردو