URDUSKY || NETWORK

ہڑپہ

133

ہڑپہ قدیم پاکستان کا ایک شہر جس کے کھنڑرات پنجاب میں ساہیوال سے 35 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف ہیں۔

یہ وادی سندھ کی قدیم تہزیب کا مرکز تھا۔ یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک رہا۔ یہاں چالیس ہزار کے قریب آبادی رہی۔

یہ شہر 1922 میں دریافت ہوا لیکن اسکی بہت ساری اینٹیں۔ لاہور ملتان ریلوے بنانے میں صرف ہو چکی تھیں۔ اس جگہ کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائیٹی بھی اس کام میں شامل ہے۔

قدیم شہر ہڑپا منصور مہدی حکومت پاکستان نے رواں سال کو سیاحت کا سال قرار دیا ہوا ہے اور اس بارے میں اکثر بیانات اخبارات شائع ہوتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت، عدم توجہی، مقامی لوگوں میں شعور کی کمی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپہ میں واقع دنیا کی قدیم ترین

تہذیب کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو چکیں ہیں اور پانچ ہزار برس قبل اس خطہ میں آباد ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں سے بنائے گئے اس شہر کے آثار معدوم ہونے لگے ہیں اور ماضی میں کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والے قیمتی اور نایاب نوادرات چوری ہوتے چلے گئے اور اس طرح قدیم تاریخ کا جدید شہر دریافت ہونے سے پہلے ہی اجڑ گیا جبکہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے آثار کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سائٹ جانوروں کی آمجگاہ بن کر رہ گئی اور اس طرح ملکی سیاحت کو فروغ harappaدینے کے حکومتی دعوے اور ہڑپہ کو ٹورسٹ سپاٹ بنانے کا خواب ادھورا وہ گیا معلوم تاریخ کے حوالے سے دنیا میں تقریبا پانچ ہزار برس قبل تین تہذیبیں معرض وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی ہے وادی سندھ کی تہذیب سلسلہ ہمالیہ کے دامن سے لیکر بحیرہ عرب تک تقریبا چار لاکھ مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اسکا رقبہ اپنی دونوں ہمعصر تہذیبوں کے رقبے سے دوگنا ہے اور اب اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایک ہڑپہ بھی شامل ہے۔قدیم ہڑپہ شہر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے بنے ہوئے شہر اور عوام کی ضرویات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کا نظام اکیسویں صدی کے لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔قدیم ہڑپہ شہر تقریبا پانچ ہزار تین سو سال قبل یہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور چار ہزار چھ سو سال قبل یہ لوگ ترقی کے عروج پر پہنچ گئے تھے یہاں کے باشندے تاجر اور زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔قدیم ہڑپہ کے آثار تقریبا ایک سو پیسٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کی دریافت حادثاتی طور پر 1890 میں اس وقت ہوئی جب لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو ریلوے ٹریک کیلئے اینٹوں کی سپلائی دینےوالے ٹھیکیدار نے ہڑپہ میں اینٹوں کی کان دریافت کی ہوئی تھی اور یہاں سے اینٹیں لا کر ریلوے لائن کی تعمیر میں لگائی جاتی رہیں اور جب بعض افسروں نے اینٹوں کی مخصوص ساخت کو دیکھا اور تحقیق کی تو 1920 میں جا کر پتہ چلا کہ یہ اینٹیں ہڑپہ کے قدیم شہر کی تھیں چنانچہ 1920 میں ہی اس علاقے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔مگر تب تک قدیم تاریخ کا یہ جدید شہر اجڑ چکا تھا اور جب اس وقت کی حکومت نے یہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا تو نامناسب حالات کی وجہ سے یہاں سے ملنے والے نوادرات کی حفاظت نہ ہو سکی پاکستان بننے کے فوری بعد سے محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی کمی اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی کھدائی اور نوادرات کی حفاظت اور ان سے تاریخ اور علم جاننے کا کام غیروں کے مرہون منت رہا مگر اب جب محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں مگر مناسب مقدار میں فنڈ نہ ہونے اور دیگر شعبوں کی طرح روایتی سستی اور غفلت کی وجہ سے قدیم ہڑپہ شہر کی باقیات زبوں ھالی کا شکار ہو گئیں لوکل آبادی میں تعلیم اور شعور کی کمی نے بھی اس جدید طرز پر آباد شہر کے آثاروں کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ آثار کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے محفوظ نہ رکھا جا سکا اگرچہ موجودہ اکیسویں صدی میں قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور قدیم آثاروں سے علم حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگوں کیلئے مناسب سہولیات مہیا کر کے انہیں یہاں آنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور اسے ایک خوبصورت پکنک سپاٹ میں تبدیل کر کے نہ صرف ملکی سیاحوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس پورے علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے مگر سیاحت کو فروغ دینے کے ذمہ دار محکموں کی ناقص منصوبہ بندی، عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے اس علاقے کی ترقی کے خواب کو اس کی عملی تعبیر نہ مل سکی۔دنیائے تاریخ میں شہروں کے بسنے اور اجڑنے کی داستانیں صفحہ قرطاص پر بکھری پڑی ہیں ان میں ہڑپہ کا بھی ذکر ملتا ہے آریاوں کی مقدس کتاب رگ وید میں ہری یوپیا کا ذکر ملتا ہے جس کے معنی سنہری قربان گاہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام ہڑپہ کی صورت اختیار کرگیا جس کو گردش دوراں کی اٹھکیلیوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہڑپ کر لیا ویسے بھی پنجابی زبان میں سیلاب کو ہڑ کہتے ہیں اور شاید یہی لفظ بگڑتے بگڑتے ہڑپہ بن گیا اگر سفر نامہ بخارا اور سفر نامہ بلوچستان کا مطالعہ کریں تو ماضی بعید کے قدیم شہروں میں ہڑپہ کا ذکر ملتا ہے۔ہزاروں برس زمین کے سینے میں مدفن قدیم شہر ہڑپہ پر کسی نے توجہ نہ دی اگرچہ 1856 سےقبل سرالیگزینڈر ماہر آثار قدیمہ نے ہڑپہ کے بلند و بالا اور وسیع و عریض ٹیلوں کی بعض جگہوں سے کھدائی مگر اس کے بعد پھر کسی نے کوئی توجہ نہ دی اور یوں وقت گزرتا رہا اور قدیم ہڑپہ ایک بار پھر ماہرین آثار قدیمہ اور حکومتوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور 64 برس تک کسی نے ان آثار کی طرف توجہ نہ کی آخر کار 1920 میں جب انگریز حکومت نے ان ویران ٹیلوں کو اپنی تحویل میں لیا اور جنوری 1921 میں کھدائی کا عمل جاری ہوا تو 1934 تک یہ کھدائی ہوتی رہی یوں ترقی یافتہ ہڑپہ تہذیب ماضی کے آئینہ میں اپنے نمایاں خدوخال کے ساتھ دنیائے تاریخ کے نقشے پر مکمل ہوتی نظر آئی بلاشبہ یہ بات فخر سے کہی جا سکتی ہے کہ غیر ملکی ماہرین آثار قدیمہ کی طرح اگر ہمارے ماہرین کو آثار کی کھدائی کیلئے سہولتیں اور فنڈ میسر آئیں تو پاکستانی ماہرین دنیا میں نمبر ایک ہیں۔کھدائی کا مقصد صرف زمین کھودنا ہی نہیں بلکہ زمین میں دفن تمدنی گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے قدیم تہذیب کا مطالعہ اور تحقیق کرنا ہے یہ کام انتہائی پیچیدہ، نازک اور مشقت طلب ہے تا ہم جب بھی کوئی نئی چیز کی دریافت ہوتی ہے تو ویسے بھی تمام تھکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔آج کمپیوٹر کا دور ہے لیکن کمپیوٹر بھی گزرنے وقتوں میں پیش آنے والے واقعات اور آفتوں سے بے خبر ہے مگر ایک ماہر آثار قدیمہ ہی ہے جو مٹی کی تہوں کو کھنگال کر مٹی چھان کر ذرے ذرے سے علم نچوڑ کر پتھروں، ہڈیوں اور ٹھیکریوں کی مدد سے عروج وزوال کے پرانے آثار اکھٹے کرتا پھر ان سربستہ رازوں سے پردہ چاک کرتا ہے جہاں تاریخ کی وسعت ادھوری ہی نہیں ختم ہو جاتی ہے وہاں آثار قدیمہ کا علم دراصل کارہائے خداوندی کے راز طشت ازبام کر کے اس کی بڑائی اور عظمت کا ثبوت فراہم کرتا ہے ہڑپہ کا رقبہ ایک سو پچاس ایکڑ ہے جس میں کھنڈرات تقریبا 76 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔پرانی تہذیب کا یہ خوبصورت شہر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔انمول چوڑی اینٹ کے بنے کشادہ مکانات و گلیاں اور بڑی چنائی والے کنوئیں، ڈھکی ہوئی نالیاں، نکاسی آب کا مربوط نظام، حفظان صحت کے اصولوں مد نظر رکھتے ہوئے اناج گھر، مزدوروں کے مکانات، ورک پلیٹ فارم، دھات پگھلانے اور ان سے برتن بنانے کی بھٹیاں، اوزان پیمائش کیلئے معیاری ترازو و باٹ مختلف بوٹیوں، مرجان، یاقوت سے بنے ہوئے ہار، تانبے اور پتھر کی مہریں، فن سنگ تراشی سے مختلف جانوروں کی تصویریں اور انجانے حروف سے کندہ شدہ مہریں مل چکی ہیں مگر دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ آج کا انسان چاند پر کمند تو ڈال چکا اور دنیا کی تباہی کیلئے سٹار وار سسٹم تو تیار کر چکا ہے دنیا بھر سے مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین آئے مگر ان انجانے حروف کو سمجھ نہ سکے اور پڑھنے سے قاصر رہے ان حروف کو سمجھ لینا اب ان ماہرین کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ ڈاکٹر احمدحسن، ڈاکٹر افضل احمد خان، ڈاکٹر محمد شریف، ڈاکٹر فرزند علی درانی، ڈاکٹر محمد رفیق مغل اور آئی ایچ ندیم پاکستان میں ہڑپہ تہذیب کی تقریبا 400 بستیاں دریافت کر چکے ہیں جس سے ہڑپہ تہذیب کے مختلف ادوار میں ترقی کے مراحل کا پتہچلتا ہے گزشتہ سال پانچ ہزار سال پرانا مگر جدید طرز کا ڈرین سسٹم دریافت ہوا۔تحقیق کے مطابق یہ قدیم دور کے نکاسی آب کے جامع نظام کی عکاسی کرتا ہے۔جبکہ موجودہ دور کا سیوریج سسٹم بھی ہڑپہ تہذیب کی نقل معلوم ہوتا ہے اس طرح ٹیلہ ای میں کھدائی کے دوران دوہری دیوار سے تعمیر شدہ بھٹیاں ملی ہیں۔یہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے ظروف پکانے کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔انہی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات، غلہ جمع کرنے کے لئے قد آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے، موتی بنانے کے کارخانے، تانبہ کانسی اور سیپی کی چوڑیاں، زرد عقیق، سنگ سلیمانی سے بنے بارک ٹوکے، خوشنما مہریں، کچی اینٹوں سے بنی فصیل نما دیوار جو 27 فٹ اور بعض جگہ39فٹ چوڑی ہے اور پختہ اینٹوں سے بنا ہوا دروازہ بھی دریافت ہوا۔اس قلعہ نما دیوار کے اندر گشت کرنے کیلئے سڑک، نکاسی آب کیلئے پل، سکیورٹی چیک پوسٹ اور پہرے داروں کیلئے واچ ٹاور بھی ملے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دیوار ہڑپہ شہر کو دشمن فوجوں کے حملے اور سیلاب سے محفوظ رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی یوں اس دیوار کو دیوار چین کی طرح قدیم ترین فصیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ہڑپہ چیچہ وطنی روڈ پر ان ویران ٹیلوں اور خوبصورت قدرتی جنگل کے دامن میں ایک پرکشش جاذب نظر اور خوبصورت عمارت میں ہڑپہ کا عجائب گھر ہے جس کے اندر دیواروں کے ساتھ بیس عدد شیشوں کی الماریوں میں کھدائی شدہ مقامات یعنی وادی سون، کوٹ ڈیجی، آمری، موہنجوداڑو اور ٹیکسلا سے ملنے والے نوادارت رکھےہیں عجائب گھر کے مغرب میں تقریبا ایک ہزار سال پرانا برگد کا خوبصورت درخت لگا ہوا ہے اس کے تنے اور اس کے پھیلاو کو دیکھ کر سیاح اس کے سحر سے اتنا مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ اس کی تصویر لئے بغیر نہیں رہ سکتے۔یہاں پر اکثر درختوں کی ٹہنیوں پر اہل نظر کے نامکندہ ہیں۔ہڑپہ شہر کے آثاروں کے درمیان ایک ٹیلے پر حضرت بابا نور شاہ ولی کا مزار مرجع خلائق ہے۔قبر کی لمبائی نو گز ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مناسبت سے یہ بابا نوگزہ کے نام سے معروف ہیں۔ایک روایت کے مطابق قدیم زمانے کے لوگوں کا قد طویل ہوتا تھا مگر یہاں سے دوران کھدائی برآمد ہونے والے انسانی ڈھانچوں کے قدوقامت سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم ہڑپہ کے لوگوں کا قد بھی آج کے انسانوں کے قد کے برابر ہوتا تھا۔ہڑپہ کے آثاروں کو اتنا نقصان انسانوں نے نہیں پہنچایا کہ جتنا اس کو نقصان اس زمین میں پائے جانے والے تھور اور نمک سے پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی مٹی اتنی بھربھری اور کھوکھلی ہو چکی ہے کہ جس کسی مٹی کے ٹیلے پر پاوں رکھا جائے تو وہ اندر زمیں میں دھنس جاتا ہے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق زمین میں پانچ سو مائیکروم نمک کی مقدار کسی چیز کو نقصان نہیں دیتی مگر ہڑپہ کی زمین میں تین ہزار مائیکروم سے بھی زیادہ نمک کی مقدار شامل ہے چنانچہ آثار کی باقیات کو محفوظ رکھنے کیلئے ان پر مٹی کا پلستر کیا جاتا ہے جو وہاں پائے جانے والے نمک کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور وقت کے ساتھ یہ مٹی کا پلستر جھڑ جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ نیا پلستر کر دیا جاتا ہے۔بارش کی وجہ سے بعض جگہ مٹی میں غار نما اتنے گہرے کھڈے ہیں کہ ایک طرف داخل ہو کر دوسری طرف باآسانی نکلا جا سکتا ہے ہڑپہ کے آثاروں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق یہاں کے لوگوں نے دنیا بھر میں سب سے پہلے لکھنا پڑھنا شروعکر دیا تھا اور یہاں سے برآمد ہونے مہروں پر درج تحریریں اور دیگر اشیا پر درج تحریریں دنیا کی قدیم ترین زبان شمار ہوتی ہے۔ہڑپہ کے آثاروں کو محکمہ آثار قدیمہ نے سات حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک حصے میں عجائب گھر، دوسرے حصے میں مدفن آر، تیسرا مدفن ایچ، چوتھا حصہ کھدائی شدہ آثار، پانچواں حصہ فصیل، چھٹے حصے میں نوگزے کی قبر اور ساتویں حصے غلے کے گودامواقع ہیں۔علاقہ ایچ کے کھنڈرات کی کھدائی سرمادھو سروپ وٹس نے 1928سے لیکر 1934 تک کرائی تھی اس حصے میں کھدائی کے دوران ایک وسیع قبرستان دریافت ہوا تھا کہ جہاں سے مٹی کے بڑے بڑے انسانی قد کے برابر گھڑوں میں سے انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے تھے۔یہ لوگ اپنے مردوں کو مٹی کے بنے بڑے بڑےگھڑوں میں دفناتے تھے اور اس کے ساتھ دیگر استعمال کی چیزیں بھی رکھتے تھے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انسان مرنے کے بعد ایک نئی دنیا میں زندہ رہتا ہے اور اسے وہاں پر بھی بعض چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ مٹی کے گھڑے اپنے خدوخال میں بے مثال ہوتے اور ان پر رنگین بیل بوٹے بنے ہوتے تھے۔ٹیلہ اے بی جنوبی کی کھدائی میں ملنے والے والی دیوار شمالا جنوبا 1450فٹ لمبی اور شرقا غربا 800 فٹ ہے۔دیوار کے باہر پانی کی خندق اور اس پر پل کے آثار بھی موجود ہیں۔2200 قبل مسیح کا بنا ہوا پانی کا ایک بڑا کنواں بھی دریافت ہوچکا ہے جس پر چاروں طرف نہانے کے چبوترے بنے ہوئے ہیں۔اسی ٹیلے کے قریب میم کا کھڈا کے نام سے ایک جگہ ہے جہاں پر بیرونی ممالک سے آنے والی ٹیموں کے افراد اور عورتیں زیادہ تر آکر بیٹھتی ہیں ٹیلہ اے بی میں زمین دوز نالیاں اور نالے ہیں یہاں سے ایک ایک ایسی مہر بھی دریافت ہوئی کہ جس ڈھول بجانے والا چیتا دکھایا گیا ہےجس کا تعلق 2400قبل مسیح سے ہے ٹیلہ ایف کا علاقہ قدیمشہر کا مضافاتی علاقہ شمار ہوتا ہے یہاں پر غلہ رکھنے کے گودام پائے جاتے ہیں اور ان کی ترتیب اور تعمیر آج کل پاسکو کے بنے ہوئے گوداموں سے ملتی جلتی ہے۔ٹیلہ ایف میں مختلف نوعیت کی ورکشاپس اور فیکڑیاں بنی ہوئی ہیں اور اگر اس علاقے کو اس دور کا اندسٹریل ایریا کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ہڑپہ شہر کی قدیم تاریخ اور وہاں کے کھنڈرات کو بیرونی ممالک کی تعلیمی اور تحقیقی حلقوں میں جتنی اہمیت حاصل ہے وہاں پر ہڑپہ کا ایک عام شہری بھی اتنا ہی پہچانا جاتا ہے اور اسے ہڑپہ سے ملنے والے نوادرات پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے یہ شخص سات جماعت پاس محمد نواز کمہار ہے جس کا دعوی ہے کہ اس کا خاندان حضرت نوح علیہ االاسلام کے زمانے سے ہاتھوں کی انگلیوں کی مدد سے مٹی برتن اور دیگر اشیا بنانے کا کام کر رہا ہے۔محمد نواز کا ہنر ایک امریکی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر جوناتھن مارک کنائر نے ہڑپہ کے نوادارت کی دریافت کے ساتھ دریافت کیا تھا محمد نواز جو مٹی اور گارے سے بنے ہوئے ایک کچے دس مرلے کے مکان میں اپنی بیوی، چھ بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتا ہے۔1986سےڈاکٹر جوناتھن کی ٹیم میں مزدوری کر رہا ہے اور اسے اس وقت 27 روپے یومیہ دیہاڑی ملتی تھی جو بعد میں 400 روپے روزانہ ہو گئی۔پہلے پہل ڈاکٹر جوناتھن نے اس کی ذہنی قابلیت اور مٹی سے برتن بنانے کی خوبی سے کام لیتے ہوئے ہڑپہ سے دریافت ہونے والے نوادرات جن میں مہریں، برتن، مجسمے، مورتیاں اور دیگر انواع کی اشیا کی نقول تیار کروائی ڈاکٹر جوناتھن اور اس کی ٹیم اپنے تجزیے اور تجربے سے ہزاروں سال پرانی برآمد ہونے والی اشیا میں استعمال ہونے والی مٹی اور میٹریل کا فارمولا دریافت کرتے اور ویسا ہی میٹریل بنا کر محمد نواز سے نقلیں تیار کرواتے۔محمد نواز کی اپنی ہاتھوں بنائی گئی اشیا اتنی مکمل ہوتی کہ اصل اور نقل میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔محمد نواز کا کہنا ہے کہ وہ 1977 سے قبل اپنی بنائی ہوئی اشیا پر کسی قسم کی کوئی نشانی یا مہر ثبت نہیں کرتا تھا جس وجہ سے اصل اور نقل میں فرق محسوس نہیں ہوتا تھا مگر پاکستانی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر محمد رفیق مغل کی ہدایت پر اب میں اپنے نام کی مہر اور سال ثبت کر دیتا ہوں یہ اشیا 5 روپے سے لیکر 15 اور 50 روپے فی کس دیتا ہوں جبکہ بیرون ممالک یہ ڈالروں کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔محمد نواز کی تیار کردہ اشیا کی کراچی، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ امریکہ میں بھی نمائش ہو چکی ہے۔ہڑپہ کے آثاروں کو اگرچہ 1920 میں حکومتی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور اس harappaپر وقتا فوقتا کھدائی کا کام بھی ہوتا رہا مگر 1986 سے تاحال ہر سال موسم سرما میں امریکی ماہرین کی ٹیم یہاں پر کھدائی کیلئے آتی ہے۔پاکستان کے شعبہ آرکیالوجی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد رفیق مغل، داکٹر رچرڈ میڈو اور ڈاکٹر جوناتھن نے اپنی زیرنگرانی دیگر ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا ۔1986 سے لیکر 1992 تک ڈاکٹر رچرڈ میڈو بطور ڈائریکٹر پراجیکٹ کام کرتے رہے اور انھیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ تحقیقی خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز بھی دیا۔1992 میں ان کی وفات کے بعد سے ڈاکٹر جوناتھن مارک کنائر جن کا تعلق بھارت سے ہے کام کر رہے ہیں۔یہ چھ سات افراد پر مشتمل ٹیم ہے جس میں امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے پندرہ سے بیس طالب علم بھی ہوتے ہیں مگر گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد سے یہاں پر کھدائی کا کام بند پڑا ہے پاکستان میں قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات کی تلاش اور ان کی کھدائی کے کام پر ابھی تک غیر ملکی مشن ہی کام کر رہے ہیں جیسے بلوچستان میں مہر گڑھ کے مقام پر ملنے واے آثاروں کی کھدائی اور تحقیق کاکام فرانسیسی لوگ کر رہے ہیں، صوبہ سرحد میں گندھارا تہذیب پر کام زیادہ تر جاپانیوں کے پاس ہے اور سندھ میں روہڑی کے مقام پر اٹلی کی ٹیم کام کر رہی ہے۔