URDUSKY || NETWORK

ڈھائی لاکھ کم خوراک بچوں کی زندگیاں خطرے میں

131

ڈھائی لاکھ کم خوراک بچوں کی زندگیاں خطرے میں


حالیہ سیلابوں سے متاثر ہونے والے تقریباً 22 ملین انسانوں کو اب موسم سرما کی آمد پر نئے مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال ان ڈھائی لاکھ بچوں کی ہے، جو سیلابی آفت کے سبب اپنے گھر بار سے محروم ہیں۔

یہ بچے گزشتہ تقریباً تین ماہ سے کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں اور دیگر اہلکاروں کے مطابق پاکستان کے جنوبی علاقوں میں قائم ان کیمپوں میں ہزاروں بچے خوراک کی کمی اور حفظان صحت کی ابتر صورتحال کے سبب صحت کے گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث ناتوانی کے شکار کم از کم ڈھائی لاکھ بچے گندگی اور عفونت میں رہ رہے ہیں اور انہیں مستقبل قریب میں گھر نصیب ہونے کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

امدادی کارکنوں نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ کا بیشتر علاقہ اب بھی زیر آب ہے۔ وہاں متعدد اسکولوں میں بنائے گئے کیمپ اب خالی کروائے جائیں گے تاکہ وہاں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکے۔ بے سروسامان سیلابی متاثرین کے لئے آنے والے دنوں اور مہینوں میں صحت کے اور دیگر مسائل سنگین تر ہو جائیں  گے۔

بچوں کو مناسب غذا فراہم نہ کی گئی تو ان کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی

حیدر آباد کے ایک ریلیف کیمپ میں طبی امداد پہنچانے والے ڈاکٹر محمد اشرف کے بقول: ’’کم خوراکی کے شکار بچے اور نوجوانوں کے جسم بالکل سوکھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ناتوانی کے سبب یہ بستر سے اٹھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف اور پاکستان کے حکومتی اداروں کے لئے کم خوراکی کے شکار کم از کم 75 ہزار ایسے بچوں کی زندگیاں بچانا بہت بڑا  چیلنج ہے، جو دیگر متاثرین سیلاب کے مقابلے میں مناسب غذا اور پینے کے صاف پانی کی قلت کا دس گنا زیادہ شکار ہیں۔

اس کے علاوہ تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ایسے بچے ہیں، جو نسبتاً کم ناتوانی کا شکار ہیں۔ تاہم انہیں بھی مطلوبہ خوراک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ایک معروف فلاحی ادارے پیپلز ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ کلیم شیخ کے مطابق حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے ’’پہلے ہی سے شدید غربت کے شکار بچوں کی کم خوراکی کی خوفناک حد تک حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے۔‘‘

کیمپوں میں اب بھی پینے کے صاف پانی اور غذائی اجزا ء کے منتظر بچے امدادی کارکنوں کی راہ تک رہے ہیں

کراچی کے مغربی نواحی علاقے میں ایک ٹینٹ میں تین ہفتوں کے جڑواں بچوں، بلاول اور بختاور کی ماں اپنے جگر گوشوں کی روز بروز گرتی ہوئی صحت سے بہت زیادہ پریشان ہے۔ یہ دونوں بچے بالکل زرد اور ناتواں نظر آتے ہیں۔ 38 سالہ نذیراں بی بی کے بقول’یہ دونوں سخت بیمار ہیں۔ ان کے جسم سوکھتے جا رہے ہیں، کوئی ہمارا پُرسانِ حال نہیں۔ یہ صرف میرے دودھ پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں تاہم میں انہیں یہ کہاں سے فراہم کروں۔ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘ نذیراں بی بی نے اپنے دونوں بچوں کے نام بلاول اور بختاور تو رکھ دئے تاہم وہ انہیں سابقہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بچوں بلاول اور بختاور جیسی قسمت نہیں دے سکتی۔

پاکستان میں 2002 میں کم خوراکی  کے بارے میں کروائے جانے والے ایک سروے کے نتائج سے پتہ چلا تھا کہ پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے کم خوراکی کے سبب اپنی عمر کے دیگر بچوں کے اوسط وزن اور جسمات سے کہیں کم کے مالک ہیں۔ اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ سیلابوں سے پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً تین ملین بچے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے ڈھائی لاکھ ابھی تک خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی