URDUSKY || NETWORK

موسیقی، مصوری اور رقص کی یکجائی

173

images

رقص

رقص دل کش تھے لیکن کوریوگرافر انھیں مصوری سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے

کراچی میں پاکستانی بحریہ کے ایک بیس پر حملے کے دوسرے ہی دن کراچی آرٹس کونسل میں مصوری کی ایک مختلف نوعیت کی نمائش ہوئی۔

اس نمائش میں سینتالیس تصویریں تھیں جن میں آمنہ اسماعیل پٹوڈی کی چوبیس اور ثنا قاضی خان کی تئیس تصویریں تھیں۔ یہ تصویریں کولاژ اور مِنی ایچر کا انتہائی خوبصورت امتزاج ہیں جو گواش میں وصلی پر بنائی گئی تھیں۔

پروگرام کے مطابق یہ نمائش ہندوستان اور پھر امریکہ جانے والی ہے۔ اس سے پہلے یہ نمائش لاہور اور راولپنڈی میں ہو چکی ہے۔

گواش آبی رنگوں کی ایک قسم ہے جو استعمال میں دوسرے آبی رنگوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے جب کہ وصلی ایک خاص طرح کا دستی کاغذ ہے جو اب زیادہ تر ہندوستان میں بنایا جاتا ہے۔ یہ کاغذ مختلف موٹائیوں میں دستیاب ہوتا ہے اور اب خاص طور پر منی ایچر مصوری کے لیے مخصوص ہے۔ اس کاغذ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تیزابیت نہیں ہوتی۔

وصلی پر گُواش سے بنائی جانے والی یہ تمام تصویریں سازوں، سازندوں، گلوکاروں اور رقص سے متعلق ہیں۔

یہ تصویریں ظفر ابراہیم کے اس خواب کی تعبیر ہیں جو انھوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والی موسیقی کو سنتے ہوئے اس وقت دیکھا جب وہ دس سال کے تھے۔

تصویروں میں وینا، تانپورہ، گٹار، شہنائی، وائلن، بانسری، طبلہ، ڈھول، ڈھولک، ڈگڈگی، گھنگرو، ستار، چمٹا، سارنگی، رباب، پیانو، ہارپ اور دوسرے ایسے کئی سازوں کے ساتھ ساتھ خواجہ خورشید انور، گنگوبائی ہنگال، سالامت علی، مہدی حسن، عالم لوہار، ونیسا مائی اور بوب مارلے جب کہ رقص میں فلیمنگو اور سالسا تک کو مصور کیا گیا ہے

اسی کی دہائی کے وسط میں وہ امریکہ چلے گئے اور مختلف کام کرتے رہے لیکن موسیقی اور سازوں سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے دنیا بھر کے سازوں اور ان کے بجانے والوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں سازوں میں ایک پُر اسراریت محسوس ہوتی ہے۔ چوتھائی صدی تک امریکہ میں رہنے کے بعد جب والدہ کے انتقال پر پاکستان لوٹے تو پھر سے خواب کی تکمیل میں لگ گئے۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات عذرا کاظمی سے ہوئی جن کے ذریعے وہ صفیہ کاظم اور ان کے ذریعے زریں سلمان اور پھر آمنہ اور ثنا سے ملے۔

آمنہ اسماعیل پاکستان اور برطانیہ میں مصوری کی تعلیم مکمل کر کے اب شاکر علی میوزیم میں ایڈمنسٹریٹر ہیں اور پاکستان اور بیرون ملک مصوری کی نمائشیں کر چکی ہیں۔ ثنا قاضی بھی شاکر علی میوزیم سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے نیشل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مصوری کا مِنی ایچر اسلوب انھیں خاص طور پر پسند ہے۔ وہ خطاطی اور مجسمہ سازی بھی کرتی ہیں۔

ان تصویروں میں وینا، تانپورہ، گٹار، شہنائی، وائلن، بانسری، طبلہ، ڈھول، ڈھولک، ڈگڈگی، گھنگرو، ستار، چمٹا، سارنگی، رباب، پیانو، ہارپ اور دوسرے ایسے کئی سازوں کے ساتھ ساتھ خواجہ خورشید انور، گنگوبائی ہنگال، سالامت علی، مہدی حسن، عالم لوہار، ونیسا مئے اور بوب مارلے جبکہ رقص میں فلیمنگو اور سالسا تک کو مصور کیا گیا ہے۔
آمنہ اسماعیل پٹوڈی

آمنہ اسماعیل پٹوڈی شاکر علی میوزیم میں ایڈمنسٹریٹر ہیں

آمنہ اسماعیل کہتی ہیں کہ ان تصویروں کا مقصد موسیقی کے وسیع تر معنی، مقاصد اور اقدار کو مختلف طریقوں سے دیکھنا اور سازوں اور آوزوں کو رنگوں کے ذریعے دکھانا ہے۔ انھیں بناتے ہوئے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سازوں کی جیتی جاگتی روح ان میں آ جائے اور دیکھنے والے کو محسوس ہو سکے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جوں جوں میں ان سازوں اور آوازوں کو مصور کر رہی تھی میں ایک انوکھے تجربے سے گزر رہی تھی، ان کی صورتیں، آوازیں اور کردار میرے اندر بستے جا رہے تھے، میرا ان سے ایک رشتہ بنتا جا رہا تھا جیسے آپ کا جیتے جاگتے انسانوں سے بنتا ہے‘۔

ثنا قاضی نے مِنی ایچر کا مخصوص انداز اپنایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقی ایک ایسی زبان ہے جس میں بات کرتے ہوئے رنگ، نسل، عقیدے اور جغرافیہ آڑے نہیں آتے ’مجھے لگتا ہے کہ موسیقی اور مصوری کی یکجائی سے ہم جغرافیے سے ماورا انسانی یکجائی کوپیدا کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی الگ الگ شناختوں کو قائم رکھتے ہوئے بھی اس روح تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو ایک ہے۔‘

موسیقی ایک ایسی زبان ہے جس میں بات کرتے ہوئے رنگ، نسل، عقیدے اور جغرافیہ آڑے نہیں آتے۔ مجھے لگتا ہے کہ موسیقی اور مصوری کی یکجائی سے ہم جغرافیے سے ماورا انسانی یکجائی کوپیدا کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی الگ الگ شناختوں کو قائم رکھتے ہوئے بھی اس روح تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو ایک ہے

ثنا قاضی

اس سوال کے جواب میں کہ دونوں مصوروں میں اسلوب کی اتنی مماثلت کیوں ہے کہ اگر نام ہٹا دیے جائیں تو سارا کام ایک ہی مصور کا لگنے لگے؟ آمنہ اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’شاید یہ ایک ہی وقت میں ایک ہی مصقد کے لیے ایک ہی جگہ کام کرنے کا اثر ہو‘۔

نمائش کے ساتھ ساتھ موسیقی اور رقص کا بھی اہتمام تھا جس میں مصوری اور رقص اور موسیقی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں استاد سلامت علی خاں نے بانسری بجائی اور ایک نوجوان ستار نواز نے بھی بہت عمدہ کوشش کی لیکن ناظرین کا خیال تھا کہ موسیقی اور رقص اپنی جگہ بہت اچھے ہوتے ہوئے بھی مصوری سے اس طرح ہم آہنگ نہیں ہو سکے جیسے مصوری موسیقی سے ہم آہنگ دکھائی دے رہی تھی۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ کراچی کے حالات کے باوجود اتنے لوگوں کا جمع ہو جانا اہمیت کا حامل ہے

BBC urdu