URDUSKY || NETWORK

اجوکا تھیٹر کا کھیل’ہوٹل موہنجوڈارو‘

129

غلام عباس نے "دھنک” کے عنوان سے1960 کے عشرے میں تصنیف کیے گئے اپنے افسانے میں تصوراتی طور پر جو مذ ہبی انتہا پسندی پیش کی تھی آج یہ ملک واقعتاً ویسی ہی انتہا پسندی کا بظاہر شکار دکھائی دیتا ہے۔ لاہور کے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں جب غلام عباس نے اپنا یہ افسانہ پڑھا تھا تو وہ ایوب خان کا دور تھا۔ اس دور میں مذہبی انتہا پسندی کے تحت ہلاکتوں یا مساجد کو توڑنے پھوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مصنف کو حلقہ اربابِ ذوق کے اس اجلاس میں شامل ارکان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ناقدین نے اس افسانے کو مذہبی نظریات کی توہین تک قرار دے دیا تھا لیکن آج کے دور میں یہی افسانہ ملک کے حالات کی پیشگی تصویر پیش کرنے والی ایسی تحریر ثابت ہوا جو حیران کن حد تک درست ہے ۔ اجوکا تھیٹرز نے اسی وجہ سے اس افسانے کی کہانی پر مبنی سٹیج ڈرامہ ہوٹل موہنجوڈارو پیش کرکے لوگوں پر نہ صرف غلام عباس کے اس افسانے کی عظمت واضح کی ہے بلکہ اُن کو یہ بتانے کی بھی یہ کوشش کی ہے کہ کسطرح مذہبی انتہا پسندی ہنستے بستے معاشروں کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔

 

اجوکا تھیٹر کا کھیل’ہوٹل موہنجوڈارو‘

’’لوگ ہر مرتبہ یہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مصنف نے برسوں پہلے کس طرح مذ ہبی انتہا پسندی کی تباہی کو محسوس کیا‘‘

اجوکا تھیٹر نے ہوٹل موہنجوڈارو کے عنوان سے الحمراہال لاہور میں پیش ہونے والے اپنے سٹیج ڈرامے میں دکھایا ہے کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور چاند پر انسان کو بھیج چکا ہے۔ ایسی بے مثال ترقی کے دور میں ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک مسجد سے انتہا پسندی کی لہر شروع ہوتی ہے اور وہ سارے ملک میں پھیل جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسند ترقی یافتہ پاکستان کی حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر اس ملک کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس ڈرامہ کی کہانی غلام عباس کے ایک افسانے دھنک پر مبنی ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ اُردو زبان کی کہانی ” آنندی ” کے مصنف غلام عباس کو اُردو ادب کا ایک اہم ترین افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان کے لیے غلام عباس کے افسانے دھنک کو جو اہمیت حاصل ہوئی ہے وُہ اس لحاظ سے بے مثال ہے کہ اس شخص نے پچاس برس پہلے مذ ہبی انتہا پسندی کے مضر اثرات کا جو تصوراتی خاکہ پیش کیا وہ آج کے دور میں ایک حقیقت دکھائی دیتا ہے۔

ہوٹل موہنجوڈارو کے مصنف شاہد محمود ندیم ہیں جنہوں نے اجوکا تھیٹرز کے لیے متعدد اسٹیج ڈرامے تصنیف کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلام عباس کے افسانے دھنک کو پڑھ کر وہ حیرت زدہ ہوگئے تھے کہ اس شخص نے پچاس برس پہلے قوم کو مذ ہبی انتہا پسندی کے بُرے اثرات سے اپنے افسانے کی شکل میں اُس وقت آگاہ کیا تھا جبکہ ملکی حالات آج کے مقابلے میں یکسر مختلف تھے۔ شاہد محمود ندیم کا کہنا تھا کہ وہ اس امر کو بدقسمتی باور کرتے ہیں کہ آج بھی ہمارے بعض دانشور مذ ہبی انتہا پسندی کو خطرہ نہیں سمجھتے حالانکہ جو کچھ اس ملک میں ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کٹر مذ ہبی رجحانا ت کے مضر اثرات سے انکار کرنا حقیقت سے آنکھیں بند کردینے کے مترادف ہے۔

مدیحہ گوہر شاہد محمود ندیم کی اہلیہ بھی ہیں اور اس ڈرامے کو پیش کرنے والی ٹیم کی سربراہ بھی ہیں۔ اُنہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اجوکا تھیٹر گروپ اپنے سٹیج ڈرامے ہوٹل موہنجوڈارو کے جتنے بھی شوز کرچکاہے وہ سب کامیاب رہے ہیں اور لوگ ہر مرتبہ یہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مصنف نے برسوں پہلے کس طرح مذ ہبی انتہا پسندی کی تباہی کو محسوس کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ڈرامہ پاکستان کے علاوہ بھارت میں دہلی سمیت جنوبی بھارت کے کئی شہروں میں بھی پیش کیا جا چکا ہے اور انتہائی اہم مبصرین اس ڈرامے کی تعریف کرچکے ہیں ۔

ڈرامے کا آغاز ہوٹل موہنجوڈارو کی طویل القامت عمارت کی آخری منزل پر ایک پُروقار تقریب سے ہوتا ہے جہاں اس بات کا انتظار ہورہا ہے کہ پاکستانی خلا باز جب چاند پر قدم رکھے گا تو براہِ راست نشریات کے ذریعے سب اُس کو دیکھ سکیں گے۔ مقصد اس منظر سے یہ دکھانا ہے کہ پاکستان ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک ہوچکا ہے اور چاند کو بھی تسخیر کرچکا ہے۔ اس کے بعد ڈرامے میں یکدم ایک مولوی کی آواز گونجتی ہے ” یہ کون گستاخ ہے ”   یعنی جس نے چاند پر قدم رکھا ہے اُس نے اس مولوی کے بقول اللہ کے نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

اس کے بعد ڈرامے میں دکھایا جاتا ہے کہ احتجاجی مذہبی تحریک شروع ہوچکی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مذ ہبی انتہا پسندوں کی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ پھر ڈرامے کے مناظر میں مذ ہبی لوگوں کے باہمی اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں اور مختلف گروپ بن جاتے ہیں کوئی ہری پگڑی والے ہیں کوئی لال پگڑی والے ہیں اور کوئی سیاہ پگڑی والے ہیں۔ ان کی لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں جن کے نتیجے میں ملک تباہ ہوجاتا ہے۔ ڈرامے  کے آخری منظر میں ایک ویران جگہ پر ایک سیاح کو بتایا جارہا ہے کہ اس مقام پر کبھی ایک ترقی یافتہ ملک ہوا کرتاتھا۔

غلام عباس کا افسانہ دھنک اگرچہ پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے مگر آج ناقدین اس کو ایک حیران کن تصنیف کے ساتھ ساتھ ایک عظیم فن پارہ بھی قرار دیتے ہیں۔ شو ختم ہونے کے بعد جن لوگوں سے گفتگو ہوئی تو اُنہوں نے اس ڈرامے کی محض تعر یف ہی کی ۔ کالج کے ایک ریٹائرڈ پروفیسرمحی الدین بھی اُن میں شامل تھے اُنہوں نے کہا کہ اجوکا والوں نے اس کہانی کو جس انداز میں اسٹیج ڈرامہ کی شکل دی ہے وہ قابلِ تعریف ہے

VOA