URDUSKY || NETWORK

اتحاداُمت کے نقیب،مسلم قومیت کے علمبردارمولانا شاہ احمد نورانی صدیقی

99

مولانا شاہ احمد نورانی کی 18ستمبر2011ءکو آٹھویںبرسی کے حوالے سے خصوصی تحریر

اتحاداُمت کے نقیب،مسلم قومیت کے علمبردار، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی

جن کی قیادت میں اکٹھا ہونا ہر مکتبہ فکر اورمختلف سیاسی جماعتوں کیلئے باعث اعزار تھا

تحریر :۔ محمد احمد ترازی

سیاست کے میدان کارزار میں اُترنے کے بعد اپنے دامن کو جھوٹ،فریب،مکرودجل اور منافقت سے پاک رکھنا اور اُسے آلودہ نہ ہونے دینا ایک مشکل کام ہے،ایسی صورت میں تو یہ کام اور بھی ناممکن ہوجاتا ہے جب یہ عوامل ایک سیاستدان کی کامیابی کیلئے لازمی اوصاف شمار ہونے لگیں،یعنی جوجتنا بڑا جھوٹا،مکار،مطلبی اور دغا بازہو وہ اُتنا ہی بڑا سیاستدان مانا جائے،اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نہ تو سیاست مثالی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کا کردار قابل رشک ہے،یہی وجہ ہے کہ جس کی طبیعت زرا مچلتی ہے اُس کا ہاتھ سیدھا سیاستدانوں کے گریبان تک پہنچ جاتا ہے،جب کسی کو اپنی زبان کا ذائقہ بدلنا ہوتا ہے تو وہ سیاستدانوں کو دوچار صلواتیں سنالیتا ہے،جس کسی کو اپنے قلم کی جولانی اور حق گوئی کی دھاک بیٹھانی ہوتی ہے وہ سیاستدانوں کو تختہ مشق بنالیتا ہے،مگر جھوٹ،فریب اور مکرودجل کے اِس تعفن زدہ ماحول میں ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جس کی سیاست اور کردار ہی مثالی اور قابل رشک نہیں بلکہ آج تک کسی کا ہاتھ اُس کے گریبان تک نہیں پہنچ سکا،صلواتیں سنانا اور برا بھلا کہنا تو دور کی بات ہے،قلم کی جولانی دکھانے والے ہزار تلاش وجستجو کے باوجود آج تک اُس کے کردار وعمل میں کوئی کمزور لمحہ تلاش نہ کرسکے،جھوٹ،فریب اور منافقت سے آراستہ سیاسی بازی گری کے اِس میدان میں علامہ شاہ احمد نورانی وہ واحد قومی سیاستدان تھے جنھوں نے کبھی اِن اوصاف رذیلہ سے اپنے اُجلے اور شفاف دامن کو آلودہ نہ ہونے دیا، ہمیشہ صاف ستھری اور بے داغ سیاست کے علمبردار رہے،کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کی،یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے شدید ترین مخالف بھی اُن کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں ۔

علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز1970ءکے انتخابات سے کیا،آپ کی 33سالہ ہنگامہ خیز سیاسی زندگی11دسمبر 2003ءبروز جمعرات کو اختتام پذیر ہوئی،78 سالہ مولانا نورانی ایک تجربہ کار سیاستدان،مذہبی رہنما اور مبلغ اسلام تھے، اُن کا ہنستا مسکراتا چہرہ،پان کے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹ اور خوش لباسی،خوش گفتاری اور اصول پسندی اُن کی شخصیت کا خاصہ اور پہچان تھی،یکم اپریل1926ءکو میرٹھ میں ”مبلغ اسلام ،سفیر پاکستان“ شاہ عبدالعلیم صدیقی کے گھر پیدا ہونے والے مولانا نورانی نے صرف آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا،وہ مذہبی علوم پر مہارت رکھنے کے ساتھ الٰہ آباد یونیورسٹی کے گریجویٹ بھی تھے،بطور طالب علم انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور میرٹھ کے نوجوانوں کو منظم کیا بلکہ تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان میں سنی کانفرنسوں کے انعقاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے،علامہ نورانی اردو ، عربی،فارسی کے علاوہ انگریزی،سواحلی،فرانسیسی سمیت متعدد زبانیں بول سکتے تھے،انھوں نے اپنے بزرگوں کی طرح طریقت کے راستے کو اختیار کیا،سادہ زندگی گزاری اوروفات سے چند سال قبل تک ”الفقرفخری“ پر نازاں کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کچھی میمن مسجد سے محلقہ بوسیدہ فلیٹ میں رہتے رہے جس میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے کے بعد سے مقیم تھے ۔

علامہ شاہ احمدنورانی شاہی مسجد میرٹھ کے خطیب مولانا عبدالحکیم جوش میرٹھی کے پوتے تھے،جن کے بھائی اسماعیل میرٹھی اردو کے بلند پایہ شاعر اور نعت گو مانے جاتے ہیں،مولانا نورانی کے خاندان کا قریبی تعلق قائداعظم سے رہا،اِس لیے وہ اُن مذہبی پیشواؤں میں تھے جو تحریک پاکستان کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے،آپ کے تایا نذیر احمد خجندی صدیقی(جنھوں نے قائد اعظم اور رتن بائی کا نکاح پڑھایا) بمبئی میں مسجد کے خطیب تھے،اُن کے قائد اعظم محمد علی جناح سے ذاتی مراسم تھے،اسی طرح آپ کے دوسرے تایا مختار احمد صدیقی اور والد عبدالعلیم صدیقی بھی قائد اعظم کے ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں،پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے پہلی نماز عید مولانانورانی کے والد شاہ عبدالعلیم صدیقی کی امامت میں18اگست 1947ءکو کراچی میں ادا کی،اپنے والد شاہ عبدالعلیم صدیقی کی وفات کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی نے1953ء میں سرگرم عملی زندگی کا آغاز کیا اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تبلیغی مشن پرجاتے رہے،ایک مبلغ کے طور پر آپ کا کام عملی سیاست میں آنے کے بعد تا دم آخر بین الاقوامی تبلیغی ادارے ورلڈ اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے جاری رہا ۔

مولانا نورانی کو گستاخان رسول اور منکرین ختم نبوت سے سخت نفرت تھی،1953ءکی تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران آپ قادیانی کے خلاف ایک متحرک رہنماءکے طور پر سامنے آئے اور قومی اسمبلی اور سینٹ سے لے کر عوامی جلسہ عام تک ہر میدان میں اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا،1969ءمیں پاکستان آنے کے بعد آپ نے قادیانیوں کےخلاف سب سے پہلا اور سخت بیان جاری کیا جس میں قوم کو اِس فرقہ کے خلاف لائحہ عمل مرتب کرنے کی دعوت دی،1972ء میں دستور سازی کے موقع پر جن ارکان اسمبلی نے آئین کو بھٹو کے سوشلزم اور صدارتی نظام سے محفوظ رکھنے اور اسے اسلامی،وفاقی اور پارلیمانی رنگ دینے کیلئے قائدانہ کردار اداکیا،اُن میں علامہ شاہ احمد نورانی سر فہرست تھے،آپ ہی نے سب سے پہلے 1972کے عبوری آئین میں مسلمان کی تعریف کا تعین کروایا،جس میں مسلمان ہونے کےلئے خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور آخری رسول ایمان رکھنا شرط قرار اوّل قرار پایا،1973ءکے آئین کی تیاری میں علامہ نورانی کا کردار اُس وقت خاص اہمیت کا حامل رہا جب آپ نے اسلام پسند قوتوں،سوشلزم اور جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے درمیان کامیاب سمجھوتے کو ممکن بنانے میں مدد دی اورآپ کی کوششوں کی بدولت1973ءکے آئین میں اسلامی دفعات شامل ہوسکیں،آپ ہی نے 30جون 1974ءکو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کےلئے قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جس کے تحت7ستمبر 1974ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طورپر پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔

جب 1970ءکے عام انتخابات میں جمعیت علماءپاکستان نے 7نشستیں جیت کر علامہ شاہ احمد نورانی کو پارلیمانی لیڈر مقرر کیا تو عام خیال یہی تھا کہ علماءو مشائخ کی یہ جماعت اپنی سابقہ روایات کے مطابق یحییٰ خان کیلئے پرواسٹیبلشمنٹ پالیسی وضع کریگی اور فوجی حکومت کے ہراَول دستے کا کردار ادا کرے گی،مگریہ اعزاز مولانا نورانی کو جاتاہے کہ انہوں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے شانہ بشانہ فعال کردار ادا کرنے والے علمائے اہلسنّت کی سیاسی جماعت جمعیت علماءپاکستان کو حکمرانوں کے حرم سے نکال کر عوامی اور جمہوری جدوجہد کی راہ پر ڈالا اور ہر حاکم وقت کو امام ضامن باندھنے اور اُس کے اقتدار وسلامتی کا وظیفہ پڑھنے والے علماءو مشائخ کو سرکاری کانفرنسوں اور کمیٹوں سے نکال کر یحییٰ خان،ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاءالحق کی سول و فوجی آمریت کے سامنے صف آراءکردیا تاکہ سیّدالشہداء امام حسین،امام اعظم،امام احمد بن حنبل اور مجدد الف ثانی کی درخشاں روایات کو زندہ رکھا جاسکے،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مولانا نورانی حزب مخالف کے رہنما بن کر ابھرے اور1977ءمیں سیاسی محاذ پاکستان قومی اتحاد کے روح رواں بن گئے،آپ نے اپنی فہم و فراست سے 1977ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کوتحریک نظام مصطفی میں تبدیل کردیا،اِس تحریک کے دوران آپ گرفتار ہوئے ا ور پاکستان کے گرم ترین مقام گڑھی خیرو میں اسیر بھی رہے ۔

علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان میں بائیں بازو کی سیکولر اور لبرل سیاست کے مقابلے میں دائیں بازو کی اسلامی سیاست کے علمبردار تھے،آپ نے قادیانیت کے خلاف تحریک چلا کر 1973ءکے آئین میں اسلامی دفعات شامل کروائیں اور قومی اتحاد کی سیاست کو نظام مصطفی کے رنگ میں ڈھال کر جس مذہبی رجحان کی تعمیر کی وہ بعد میں فوجی آمر حکمران جنرل ضیاءالحق کی سیاست کی بنیاد بنا،جنرل ضیاءنے اُسی رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو اپنے سیاسی جواز کےلئے استعمال کیا اور بہت سی مذہبی وسیاسی جماعتوں اور اُن کے وابستگان کو اپنے دام فریب میں پھنسالیا،مگربھٹو کے سخت ترین مخالف ہونے کے باوجود مولانا نورانی نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکی برملا مذمت کی اور ضیاءکابینہ میں اپنے ارکان نامزد کرنے کے بجائے قومی اتحاد ہی چھوڑ دیا،جس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ انہیں بعد میں کبھی جنرل ضیاءکی حمایت پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار نہیں کرنا پڑا،حالانکہ 1981ء میں جمعیت کی تیسرے درجے کی قیادت جن میں حاجی حنیف طیب،ظہورالحسن بھوپالی،حافظ تقی، احد یوسف اور الحاج شمیم الدین وغیرہ شامل تھے،مولانا نورانی کو چھوڑ کر اسلام آباد جانے والی آمریت کی ٹرین میں سوار ہوگئے، 1988ءمیں مولانا نورانی کو دوسرا دھچکہ اُس وقت لگا جب اُن کے دیرنہ رفیق مجاہد ملت علامہ عبدالستار خان نیازی حلقہ 99 کے ضمنی انتخابات کے موقع پراُن سے الگ ہوگئے اور نواز شریف کی مسلم لیگ کے اتحادی بن گئے،مجاہد ملت کے اِس فیصلے نے جمعیت علماءپاکستان کی سیاسی طاقت کو شدید نقصان پہنچایا،تاہم ملتان کے معروف عالم دین غزالی دوراں حضرت علامہ مولاناسید احمد سعید کاظمی کی حمایت ہمیشہ مولانا نورانی کے ساتھ رہی ۔

یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان ہو یا تحریک ختم نبوت،تحریک نظام مصطفی ہو یا تحریک بحالی جمہوریت یا آئینی و پارلیمانی بالادستی کی تحریک، علامہ شاہ احمد نورانی جدو جہد کے کسی مرحلے میں کبھی پیچھے نہیں رہے،جب بھی ملک و قوم کو اُن کی ضرورت محسوس ہوئی،مولانا نورانی کو صف اوّل میں پایا،آپ نے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا،کئی بار اصولوں کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا،اپنے دیرینہ رفیقوں کی قربانی دی مگر پیچھے ہٹنا گوراہ نہیں کیا،علامہ شاہ احمد نورانی کے پیش نظر ہمیشہ عالم اسلام کا مجموعی مفاد،ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ،مقام مصطفی کا تحفظ اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی و استحکام رہا،اِس مقصد کے حصول کیلئے آپ نے مختلف مکاتب فکر کے علماءکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا،لیکن کبھی بھی اپنے عقائد و نظریات کا سودا نہیں کیا،مذہبی جماعتوں کے اندر موجود ہزار ہا اختلافات کے باوجود ملی یکجہتی کونسل کے ایک پلیٹ فارم پر متحد رکھنا مولانا نورانی کا ہی کارنامہ تھا،آپ ہی کی قیادت میں ایم ایم اے نے 2002ء کے عام انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں حیران کن کامیابی حاصل کی،یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کی سیاسی جماعتیں جب بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہتیں تو قیادت کےلئے صرف ایک ہی شخص سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور وہ تھے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ۔

درحقیقت علامہ شاہ احمد نورانی ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح العقیدہ مسلمان تھے،آپ کی ذات، عظمت و کردار،سیر چشمی وحق گوئی،سیاسی بصیرت اور عہدہ واقتدار سے بے نیازی کا اعتراف آپ کے سیاسی و مذہبی مخالفین بھی کرتے نظر آتے ہیں،مولانا نورانی اُن معدودے چند علماو سیاستدانوں میں سے تھے جن کے دامن پر نہ تو سول و فوجی آمروں سے سمجھوتے کا کوئی داغ تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی مراعات اور ایجنسیوں کی نوازشات کی کوئی چھینٹ تھی، اُن کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان اور بالخصوص دنیا بھر میں احیائے اسلام اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد میں گزرا،وہ مسلم قومیت اور اتحاد بین المسلمین کے علمبردار اور ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے داعی تھے،آج اُن کی سادگی،متانت،خوش مزاجی،خوش گفتاری اور اصول پرستی یاد رہ جانے والی باتیں بن گئیں ہیں،اُن کی وفات پاکستانی سیاست کو ایک تجربہ کارمنجھے ہوئے پارلیمینٹیرین اور قد آور بین الاقوامی مذہبی و سیاسی شخصیت سے ہی نہیں بلکہ مجلس عمل کو ”مجلس بے عمل“ اور جمعیت علماءپاکستان کو بے داغ،اصولی اور کبھی نہ جھکنے اور بکنے والی بے مثال قیادت سے بھی محروم کرگئی ۔

٭٭٭٭٭