URDUSKY || NETWORK

فو ج چیف جسٹس صاحب کے پیچھے کھڑی ہوجائے توانقلاب آسکتا ہے۔

100


فو ج چیف جسٹس صاحب کے پیچھے کھڑی ہوجائے توانقلاب آسکتا ہے۔

بیان دینے سے پہلے اگر الفاظ کا انتخاب کرلیا جائے تو آئندہ کی پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔الطاف حسین صاحب جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ کہہ چکے اور اُن کے فرمودات پر تبصرہ بھی اب غالباً ختم ہونے والا ہے ۔پیر پگارا صاحب ایک عرصہ دراز سے جی ایچ کیو کے ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں اور عجیب عجیب باتیں کرتے رہتے ہیں۔اُن کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ وہ جس کی نمائندگی کی بات کرتے ہیں اُس کا فیصلہ سنانے کے بجائے اپنی خواہش لے کر پبلک میں آجاتے ہیں اور اپنے باس سے اُس پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کرڈالتے ہیں۔جناب پیرپگارا نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ فوج تین سال کے لیے مارشل لا نافذ کردے۔انتہائی ادب کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ یہ دونوں معزّز حضرات بیان دینے سے قبل اگر مجھ ناچیز سے رائے لیتے تو مَیں اُن سے یہ کہتا کہ وہ مارشل لا کے نفّاذ کا مطالبہ کرنے کے بجائے یہ کہیں کہ فوج چیف جسٹس کی پشت پر کھڑی ہوجائے تواُن کی یہ بات انصاف کی عین حمایت ہوتی اور انقلاب کی راہ بھی ہموار ہوجاتی۔خیر! اب اسی انداز میں بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں۔
فوج کے عدالت کی پشت پر کھڑی ہونے کے مطالبے کے حوالے سے میرے پاس بہت ڈھیر سارے دلائل ہیں۔جعلی ڈگری کے حامل پارلیمٹیرین کو کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے لیے کوئی آئینی اور قانونی دستاویز تیار کریں۔اٹھارویں ترمیم ایسے ہی بے ضمیر اراکین پارلیمنٹ کی تدوین ہے جسے عدالت کی طرف سے مسترد کیے جانے کی صورت میں بغاوت کی فضا ابھرسکتی ہے۔خود غرض وزرا اور مشیران اپنی کھیت اور کھلیان بچانے کے لیے بھری پری آبادی کو سیلاب کی نذر کرچکے ہیں اور راز فاش ہوجانے کے بعد مُنہ چھپائے پھر رہے ہیں۔وہ کبھی نہیں چاہینگے کہ عدالتیں اُن لوگوں کی گرفت کریں۔اشد ضرورت تھی کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے آنے والی رقوم اور ضروریات زندگی کی دیگر اَشیاءکو سنبھالنے اوراُن کا حساب کتاب رکھنے کے لیے نیک اور شفاف لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی‘ اِس تجویز کو ایوان صدر کے مشیروں نے ردّی کی ٹوکری میں جھونک دی ہے اور کہتے پھر رہے ہیں کہ غیر حکومتی اداروں کے ہاتھوں میں پہنچنے والی رقوم خردبرد ہوجائے گی۔کمال یہ ہے کہ ایسے بیانات داغنے والوں میں وزیرآعظم صاحب سرخیل نظر آتے ہیں ۔جی ہاں ! یہ وہی وزیرآعظم صاحب ہیں جنہیں اُن کی پارٹی کے اداکاروں اور اُن کی حکومت کے اہلکاروںنے سیلاب زدگان کے لیے بنائے ہُوے جعلی خیموں اور بناوٹی ہسپتالوں کے دَورے کروائے ہیں اور خود ہی وزیرآعظم صاحب کو بے وقوف بنائے جانے کی خبریں بھی جاری کروائی ہیں۔ورنہ کیمرہ مینوں کو کیسے خبر ہُوئی کہ یہ رہائشی خیمہ اور ہسپتال نقلی ہیں۔
یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ بلکہ عدالتی ایوانوں سے بھی آواز اٹھنے لگی ہے کہ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے۔عدالتی فیصلوں کو ٹشو پیپرز کی حیثیت دے دی گئی ہے اور ججوں کے بیانات کو مجذوب کی بڑ سمجھا جانے لگا ہے بلکہ آئین میں ترمیمات کے ذریعے‘ حکومت عدالت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔حکومتی سطح پر این آر او کا مسئلہ ہو یا عوامی مسائل ہوں کسی جگہ بھی انصاف کی حمایت نہیں کی جارہی ہے۔اِس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے اور فیصلہ کیجیے کہ میرا موقف درست ہے یا غلط۔غریب آباد کے علاقے میں ایک صاحب کی ایک بڑی قطعہ زمین پر چند زورآور لوگوں نے قبضہ کرکے دُکانیں بنا رکھی ہیں ۔زمین کے مالک کا کہنا ہے کہ اُس نے قابضین سے لڑائی بھڑائی کرنے کے بجائے عدالتی چارہ جوئی کرنے کی راہ اپنائی اور زمین پر اپنے مالکانہ دعوے سے متعلق تمام اور مکمل دستاویز ات فراہم کرکے معزز عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے رکھا ہے ۔زمین کے دعوے دار نے مزید کہا کہ عدالتوں کی منزلیں طے کرنے اور اِس مہم کو سر کرنے میں اُس نے ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرڈالی ہے لیکن وہ تاحال اپنی زمین سے محروم ہے۔ قابضین بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا کاروبار جمائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ زمین کے اصل مالک کو اُن کی لاشوں پر سے گزرکے ہی زمین کا قبضہ مل سکتا ہے۔کیا یہ تعجب خیز بات نہیں ہے کہ عوام کے پیسوں پر پَلنے والی پولِس کی بھاری نفری کی موجودگی میں زمین کا مالک اپنے اثاثے سے محروم ہے۔ کیا وہ قابضین توپ اور ٹینک بردار ہیں اور ہماری پولِس بے چاری پھس پھسی اور پرانی دھرانی بندوق رکھنے کی وجہ سے حق داروں کو اُن کے حقوق دلوانے سے مجبور اور بے بس ہے۔بڑی صاف بات ہے کہ نہ تو ہماری پولِس کی ہتھیاریں کند ہیں اور نہ بدمعاش اپنے سروں پر ٹینک اور توپ لیے ہُوے دِکھائی دیتے ہیں ۔معلوم ہُوا ہے کہ قابضین کے وکیل نے عدالت میں مقدمہ ہارجانے کے بعد ایک نئی راہ ڈھونڈ نکالی ہے اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ ’ہم نہ جانے بھیّا سب سے بڑا روپیّا ‘ کے مصداق عملدرآمد کرنے کا مشورہ دے رکھا ہے۔جب زمین کا اصل مالک اپنے گھر والوں یا اپنے حباب کے ساتھ وہاں جاتا ہے تب سارے دُکاندار یکجا ہوکر جلوس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یک زبان ہوکر کہتے ہیں :” ہماری لاش پر سے گزرکے ہی تم زمین پر قبضہ کرسکتے ہو“ پولِس افسروں اور اہلکاروں کو یہ تو بتلایا جاچکا ہے کہ ’ پولِس کا فرض ہے مدد آپ کی‘ لیکن یہ طے نہیں کیا گیا ہے کہ پولِس والے ظالم کی مدد کرینگے یا مظوم کی اعانت کو آئینگے۔وہ موقع کی مناسبت سے کام کرتے ہیں اور مٹّھی کا جائزہ لے کرفیصلہ کرڈالتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمدچودھری صاحب کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے تحفّظ اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں یہ مطالبہ رکھیں کہ جدید اسلحوں سے مرصح و مسلّح ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے جس کا زمام کار عدالتوں کے ہاتھ میں ہو۔اِس طرح وہ اپنے دیے ہوے فیصلوں پر باآسانی عملدرآمد کرسکینگے اور قوم کو فی الواقعئی انصاف ہوتا ہُوابھی نظر آئے گا۔میرے خیال میں اُس فورس کا نام Judicial Executor Force (JEF)رکھا جائے ۔
چیف جسٹس محترم چودھری افتخار صاحب آپ یہ فرماچکے ہیں کہ آپ ہرحال میں انصاف کرینگے خواہ آسمان گر پڑے۔بہت اچھا ہو‘ اگر آسمان کے گرپڑنے سے پہلے آپ اِنصاف کردیں۔نشتر اُٹھائیں اور این آر او اور اٹھارویں ترمیم سمیت پاکستانی آئین میں موجود تمام سقم کو بدگوشت کی طرح باہرنکال پھینکیں۔