URDUSKY || NETWORK

تاریخ سے سبق

117

حضرت محمد ﷺ اس دنیا کی وا حد ہستی ہیں جو مذ ہبی اور دنیا وی دونوں محا ذوں پر سو فیصد کا میا ب رہے ہیں ا ٓپ ﷺ نے نہ صرف دین اسلا م کو پھیلا یا بلکہ اس کے ساتھ پو ری دنیا کو ایک مو ثر سیا سی رہنما بن کر بھی دکھایا آج صدیاں گزر جا نے کے بعد بھی اس کے اثرات سمجھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں خا ص طور پر مسلما نوں کے لیے ان کے بتا ئے ہو ئے اصو ل و ضوابط اتنے مر بو ط اورمکمل ہیں کہ مسلما ن حکمرانوں کو کسی اور جگہ صرف نظر کر نے کی ضرورت ہی نہیں پڑ سکتی اس کے لیے لا زم شرط یہ ہے کہ وہ اسے سمجھنے کی کو شش کر یں ۔ دین اسلا م نے حقیقتاً ایک متحد کر دینے والے عنصر کا کر دار ادا کیا ہے کہ ایک مختصر سے عر صے میں فتوحات کا حیران کن سلسلہ قا ئم کیا کہنے کو تو چنگیز خان اور اسکے ہم عصروں نے بھی فتو حات کا سلسلہ قا ئم کیا مگر یہ فتوحا ت عربو ں سے کہیں زیا دہ وسیع عریض ہو نے کے باوجودپا ئیدار ثا بت نہ ہو سکیں آج منگو لوں کے قبضے میں صرف وہی علا قے ہیں جو چنگیز خان کے دورمیں تھے جب کہ عرب فتو حات کا سلسلہ عراق و مرا کش تک عرب اقوام کو ایک زنجیر کی مانند جوڑے ہو ئے ہے ۔ یہ سب اپنے مشترک عقیدے ہی کے سبب با ہم متحد نہیں بلکہ ان فتو حات کے پس پشت مو جود اصل طاقت انسانی تاریخ میں سب سے زیا دہ متا ثر کن سیا سی قائد آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس ہے جنھوں نے اپنے افکار وکردار اور سیرت سے شاہ و گدا کو ایک ہی میزان سے پر کھا ، جنھوں نے ذات پا ت ،حسب نسب کی دلیل کو یکسر مسترد کیا ۔ مسلما نوں نے جب تک ان کی تعلیما ت پر عمل کیا وہ کا میا ب رہے لیکن جب ان مسلما ن حکمرا نوں کے دما غو ں میں فرعونیت کا خناس سما نا شروع ہوا ۔من اور صرف من شدم کا خود غرضانہ فلسفہ زندگی میں اپنا یا اور اقتدار پر قا بض ہوکر عوام کی فلا ح و بہبود پر تو جہ دینے کے بجا ئے اپنی عیا شیوںمیں گم ہو گئے توان ملکوں میں بتد ریج عوام میں غم و غصے کی لہر بڑھتی گئی عوام النا س اپنے اور حکمراں طبقے کے درمیان حائل خلیج اور فرق کو کسی طور قبول کر نے کو تیار نہیں ۔
مسلما ن حکمران اور بلخصو ص عرب ممالک میں جمہوری ملکوں نے با دشاہت کا روپ دھار کر جو جو گل افشا نیا ں کی اس نے انسانیت کو بھی شرمسار کردیا ۔آج پو ری دنیا کی نگاہیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جانب لگی ہو ئی ہیں جہا ں تیو نس کے آنے والے انقلا ب نے عوام کی سوچوں کے کئی در وا کر دیے ہیں تیو نس سے نکلنے والا لا وا ان کی سر حدوں کو بھی پا ر کر سکتا ہے دنیا کی ۶۵ مسلم ممالک کی اشرافیہ کو اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔تیو نس میں تیئس سال سے برسر اقتدار رہنے والے مطلعق العنا ن صدر ذین العابدین نے اپنی عوام کو سوائے غربت ،بے روز گا ری ، نا انصافی ، اور عدم تحفظ کے کچھ نہ دیا اپنے مغربی آقاﺅں کو خوش کر نے کے لیے لبرل ازم کی ساری حد یں پھلا نگ چکے تھے تیو نس میں شراب عام تھی ، پردے اور اسکا رف پر پا بندی تھی، دا ڑھی رکھنے والے مشکو ک سمجھے جا تے تھے اور روزے پر پا بندی عائد کرنے کے قانونی مسودے کی تیاری مراحل میں تھی غر ض تیو نس میں آمریت نما با دشاہت نے اپنی ریا ستی قوت سے کسی کو اپنے خلاف آواز اٹھانے نہیں دیا ظلم وجبر سے اقتدار قائم رکھا ۔جوں جوں تیونس میں احتجا ج بڑ ھتا گیا مشرقی وسطیٰ کے دیگر ممالک جن میں یمن، الجزائر ، اردن اور مصر میں بھی لو گ سڑکو ں پر نکل رہے ہیں لیبیا کے معمر قذافی بھی طویل عرصے سے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں لیبیا ئی عوام میں بھی بے چینی پا ئی جا تی ہے ۔ آج مصر میں صدر حسنی مبا رک کے خلاف ہزاروں مظا ہرین کر فیو کی پروا نہ کر تے ہو ئے سڑکو ں پر جمع ہیں وزارت خارجہ سمیت کئی اہم عما رتوں کا گھیراو کیا ہو اہے ۔ ٹی وی پر یہ منا ظر دیکھ کر فیض احمد فیض صا حب کی نظم لا زم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ۔ جو لوح ازل پہ لکھا ہے ۔ ذہن کے دریچوں میں گشت کر رہی ہے اس انقلا بی شاعر کی نظم کے صداقت پر یقین اور بھی پختہ ہو تا محسوس ہو رہاہے ۔
مصر کے بیا سی سالہ صدر حسنی مبا رک ۴۱ اکتو بر ۱۸۹۱ءسے اقتدار کے مزے لو ٹ رہے ہیں اپنے تما م مخالفین کو گذشتہ تیس سالوں سے پا بند سلاسل کیا ہوا ہے تما م صحا فتی ذرائع پر سخت پا بندی ہے ۔عرب کا پہلا ملک جس نے اسرا ئیل کو تسلیم بھی کیا اور اس کی خوشنودی کے لیے اس کی پا لیسی پر عمل پیرا بھی ہے عوام سخت معا شی مسا ئل کا شکا رہے مصر کر شہر قاہرہ میں انیس جنوری کو ہنگا موں کو سلسلہ اس وقت سے شروع ہو ا جب ایک شخص نے سما جی ومعاشی نا انصافی کے با عث اپنے آپ کو آگ لگا لی الواحقین کو مردہ خانے سے لاش واپس دینے سے حکام کے انکا رپر مشتعل لوگوں نے مظاہرہ کیا کئی عمارتوں کو آگ لگا دی کئی پولیس والوں نے بھی یو رنیفارم سے دست بردار ہو کر عوام کا ساتھ دینے کو ترجیح دی ۔ مصر کے اسلا م پسند حکومت وقت کے مظا لم اور اسلا م مخالف پا لیسی سے تنگ آچکے تھے تیونس کے انقلا ب نے مصری عوام کے لیے سوچ کی نئی راہیں کھو ل دی ہیں ۔ تیونس کے صدر اپنی بیگم لیلیٰ کے ہمراہ سعودی عرب میں سیاسی پنا ہ حا صل کر چکے ہیں ،جب کہ مصر کے صدر حسنی مبا رک کے ۵۴سالہ بیٹے اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ اپنے خصوصی طیا رے میں قیمتی سامان اور ۰۰۱ سوٹ کیس سمیت لند ن فرار ہو چکے ہیں یقینا ٰ تیو نس اور مصر کی مثا لیں ان ملکوں کے لیے ایک عبرت ہیںجو اپنے عوام کی زندگیوں میں ترقی و خوش حالی کو تشدد سے مسخ کر تے ہیں عورتیں ، بچے اور بڑے مسلسل عدم تحفظ کے احساس میں زندگی بسر کر تے ہیں جہاںحکمراںعوام سے آپس میں کو ئی رابطہ نہیں کرتے۔
آج پا کستا ن میں بھی انقلا ب کی با زگشت زوروں پر ہے خلق خدا روز روز بم دھما کوں اورڈرون حملوں ، بے روز گا ری ، مہنگا ئی اور عدم تحفظ سے تنگ آچکی ہے وزراءاپنی تجوریا ںبھر نے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے لے کر عوام پر بجلی گیس پٹرول کی قیمتوںمیں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں حکومت کے شاہا نہ اخرجا ت اور کر پشن کسی سے پو شیدہ نہیں عوام میں ان کے خلاف ایک لا وا جنم لے رہا ہے جو کسی وقت بھی آتش فشاں کا روپ اختیا ر کر سکتا ہے ان انقلاب زدہ عر ب ممالک نے اسلامی تاریخ سے کو ئی سبق حاصل نہیں کیا مگر ہما رے حکمراں تو اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں ۔