URDUSKY || NETWORK

۔۔۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔۔۔

166

۔۔۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔۔۔

:تحریر
(طار ق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم
پارلیمنٹ کا کام آئین بنا نا قانون سازی کرنا اصول و ضوابط کو مدون کرنا اور اس چیز کا یقین کرنا کہ انتظامیہ ان قوا نین پر من و عن عمل کرتی ہے۔ پارلیمنٹ چونکہ عوامی رائے سے تشکیل پاتی ہے لہذا اسکی رائے حرفِ آخر قرار پا تی ہے۔ پارلیمنٹ ایک ایسا آزاد اور خود مختار ادارہ ہو تا ہے جو حق حکمرا نی کے ساتھ ساتھ سارے اداروں کےلئے حدودو قیود کا تعین بھی کرتاہے لہذا کسی کو پار لیمنٹ کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہو تی۔یہ ایک ایسا ادراہ ہے جسے کو ئی بھی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ۔پارلیمنٹ انتہا ئی دا نشمندی ، احتیاط اور غورو عوض کے بعد قا نون سازی کر تی ہے کیونکہ معاشرے پر اسکے بڑے گہرے اثرات مرتب ہونے ہو تے ہیں۔پاکستان میں آجکل ایک نئی بحث چھڑی ہو ئی ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کو نساادا رہ بالادست ہے جس پر مختلف آرا پا ئی جاتی ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ قانون سازی کا کلی اختیار پارلیمنٹ کو حا صل ہے جبکہ عدلیہ کو آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے اور اپنے اسی حق کے استعمال سے وہ آئین کی کسی بھی شق کو آ ئین سے متصادم قرار دے سکتی ہے جسکی پابندی پارلیمنٹ کےلئے بھی لازمی قرار پاتی ہے
جنرل پریز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد عدلیہ کے اندر ایک تفا خر اور برتری کا جذبہ پروان چڑھا ہے جس نے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تصادم کی خوفناک فضا کو جنم دیا ہے۔ اس تصادم کے مظا ہرے قوم پچھلے کئی مہینوں سے دیکھ رہی ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہستصادم میں جیت کس کا مقدر بنے گی لیکن اتنا بہر حال طے ہے کہ پی پی پی کی حکومت کے خلاف عدلیہ کا رویہ مخا صمانہ ہے مو جودہ عدلیہ کی تصادمی روش سے پی پی پی کی حکو مت بے تحاشہ دبا ﺅ میں ہے اور بڑے فیصلے کرنے سے عاری ہے۔ پی پی پی نے جمہو ریت اور عدلیہ کی بحا لی میں اپنا لہو دیا ہے لہذا ضروری ہے کہ پی پی پی کے ساتھ احترام کا رویہ قائم کیا جائے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ عدلیہ نے خود کو حق بجانب ٹھہرانے کےلئے این آر او کا سہارا لیا ہوا ہے اور یہی وہ موقف ہے جسنے عدلیہ کو بےبا ک کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے حالانکہ این آر او پاکستانی سیاست میں کو ئی نیا قانون نہیں ہے ہر دور میں این آر او نافذ ا لعمل رہا ہے اور یہ این آر او ہی تو تھا جسکے تحت میاں محمد نواز شریف زندا نوں کی سلاخوں سے سیدھے سعودی عرب پہنچ گئے تھے لیکن بد قسمتی سے عدلیہ اسے این آر او تسلیم نہیں کرتی میڈیا چونکہ میاں صاحب کے زیرِ اثر ہے لہذا جب بات میاں محمد نواز شریف کی ذات کے حوالے سے ہو تی ہے تو اسوقت میڈیا کا رویہ بالکل بدل جاتا ہے لیکن جب بات پی پی پی کی ہو تو میڈیا اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس سے ملکی سیاست میں نفرت، انتشار اور عد مِ استحکام کا رنگ غالب ہوتا جا رہا ے جو ملکی استحکام یکجہتی اور ترقی پر بڑے مہلک اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پی پی پی کو دباﺅ میں ر کھنے کےلئے میڈیا نے ۵۱ ا کتوبر کی شب ایک بہت بڑی خبر بریک کر دی کہ وزیرِ اعظم گیلانی ججز کی بحا لی کا اپنا ایگز یکٹو آررڈر واپس لے رہے ہیںجسکی وجہ سے سارے ججز اپنے عہدوں سے فارغ ہو جائینگے۔ جب یہ خبر عدالت کے علم میں آئی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کر لیا گیااور ااسے حکم دیا گیا کہ وہ وزیرِ اعظم پاکستان کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنا ئیں لیکن وزیرِ ا عظم پاکستان اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ تو عدالت میں پیش ہو ئے اور نہ ہی انھوں نے کو ئی تحریری حلف نامہ داخل کیا جس سے افواہوں کی تردید ہو جاتی ۔عدالت سارا دن کاروائی کرنے کئے بعد اس حکم کے ساتھ برخاست ہو گئی کہ اس اہم مسئلے پر اگلی شنوائی ۸۱ اکتوبر کو ہو گی اور ۸۱ اکتوبر کو اٹارنی جنرل کے رسمی بیان کے بعد کاروا ئی غیر معینہ مدت تک کےلئے ملتوی کر دی گئی ہے ۔
عدالتی دنیا میں شائد اپنی نو عیت کا یہ پہلا وا قعہ ہے کہ کسی افواہ پر عدلیہ نے فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہواس فل کورٹ اجلاس سے پاکستان کی جو جگ ہنسا ئی ہو ئی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ فل کورٹ بلا کر اندھیرے میں تیر چلا نے اور شکار کرنے کی کوشش کی گئی جس نے عدلیہ کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔عدلیہ کے اس اقدام سے پو ری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گئی ہر سو غیر یقینی کے بادل چھا گئے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آر ہا تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ عدالت کو حکومت سے اتنے شکوک کیوں ہیں انھیں کس چیز نے خوف زدہ کیا ہوا ہے وہ کو نسی بات ہے جس سے عدلیہ نے تحفظات کا شکار ہو کر نصف شب کو فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ میڈیا کے کچھ ا ینکرز پی پی پی دشمنی میں ساری حدیں عبور کر چکے ہیں انکا سب سے بڑا ہدف پی پی پی کے خلاف الزام تراشی کرنا ہے اور پچھلے دوسالوں میں میڈیانے اتنی الزام تراشیاں کی ہیں جسنے سیاست کو داغدار کر کے رکھ دیا ہے۔ عدلیہ کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اینکرز حضرات کی خبروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی انھوں نے ایک من گھڑت خبر پر فل کورٹ اجلاس بلا لیا جس سے انکی سبکی بھی ہو ئی اور انکی جانبداری پر بھی حرف آیا ۔اب سپریم کورٹ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مخبر کے رخ سے نقاب اٹھا کر اسے عوام کے حوالے کر ے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سپریم کورٹ کو ایسے فتنہ پرداز لو گوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میںحکومت کا بھر پور ساتھ دینا چائیے۔کسی کی دوستی، محبت اور تعلقات کو انصاف کی راہ میں مزاحم نہیں ہو نا چائیے کیونکہ یہ پاکستان کے وقار اور اسکی عزت و آبرو کا معا ملہ ہے اور ہم سب کو پاکستان کے وقار کو ہر شہ سے عزیز اور مقدم رکھنا ہو گا۔سیا سی اداکاروں اور وچو لوں کو بے نقاب کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ وہ اپنی حدود سے تجا وز کرتے جا رہے ہیں۔۔
پاکستان پیپلز پار ٹی کے بارے میں کچھ لوگ ابھی تک غلط فہمی کا شکار ہیںوہ پی پی پی کے کلچر اور اسکی تاریخ سے واقف نہیں ہیں پی پی پی اب سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فیملی میں بدل چکی ہے جسمیں کا ر کنوں کا مرنا جینا ایک ساتھ ہے، کارکنوں کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں لہذا جیالے پارٹی قیادت کے ایک اشارے پر ڈ ٹ جا تے ہیں اور جب وہ ڈٹ جا تے ہیں تو پھر انکے سامنے ٹھہرنا کسی کے بس میں نہیں ہو تا۔جمہو ر یت کے عظیم سفر میں جیا لوں نے جمہو ریت کے پودے کی آبیاری اپنے لہو سے کی انکے قائدیں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا انھوں نے بے رحم آمریتوں کا سا منا کیالہذا اس جما عت کی قیادت کا موازنہ جنرل پرویز مشرف سے نہیں کیا جا سکتا ۔پی پی پی کی جڑیں عوام میں ہیں قوم نے انھیں اپنے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے جسکا احترام اور تقدس سب پر لازمی ہے کیونکہ یہی جمہوری روح کا تقاضہ ہے۔
جب قانوں کے رکھوالے حرمتِ قلم کا سودا کر رہے تھے جب عدا لتیں ڈ کٹیٹر کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے تھیں جب سیا سی اداکار آمریت کی لے پر محوِ رقص تھے جب مفاد پرست اقتدار کےلئے سودے بازی میں مشغول تھے پی پی پی کے جیا لے جمہو ریت کےلئے تن کر کھڑے تھے انھیں زندانوں کی تنگ و تاریک کو ٹھریوں میں لرزہ خیز صعوبنوں سے گزارا گیا ا نکے سر تن سے جدا کئے گئے انھیں سرِ دار کھینچا گیا لیکن وہ بھر بھی جمہو ریت کے نعرے لگا تے رہے جمہو ریت سے انکی وفا ﺅ ں کی داستان پاکستانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے لیکن افسوس کہ میڈیا اس پارٹی کی پاکستان، جمہو ریت اور آئین سے محبت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
نئے افق پہ ابھرتی صداقتیں دیکھوں۔۔۔زمین کو چوم رہی ہیں امارتیں دیکھوں
گلوں کو اوڑھ کے نکلے ہیں ابرِ سنگ میں لوگ۔۔گلی گلی میں مہکتی شجا عتیں دیکھوں  (سبطِ علی صبا)
پاکستان میں عدالتیں مارشل لاﺅں کو جائز قرار د یتی رہیں عوامی قا ئد ین کا قتل کرتی ر ہیںکرپشن کے تحت ھکومت کی رخصتی پر مہرِ تصدیق ثبت کر تی رہیں ملک کو غیر مستحکم کرتی ر ہیںا سکی عزت خاک میں ملا تی ر ہیں صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کی تذلیل کرتی ر ہیں پارلیمنٹ کا مذاق اڑا تی رہیں احتساب کے نام پر ملک کو عدمِ استحکام کی نذر کرتی ر ہیں کھلے عام جانبداری کا مظا ہرہ کرتی رہیں عدل و انصاف کا خون کر کے اسے انصاف سے تعبیر کرتی رہیں لیکن عوام نے پھر بھی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا لہذا عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ اس احترام پر جانبداری کی پر چھا ئیں نہ پڑنے دیں بلکہ ایسا انصاف کریں جسپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

۔۔۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔۔۔طار ق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)پارلیمنٹ کا کام آئین بنا نا قانون سازی کرنا اصول و ضوابط کو مدون کرنا اور اس چیز کا یقین کرنا کہ انتظامیہ ان قوا نین پر من و عن عمل کرتی ہے۔ پارلیمنٹ چونکہ عوامی رائے سے تشکیل پاتی ہے لہذا اسکی رائے حرفِ آخر قرار پا تی ہے۔ پارلیمنٹ ایک ایسا آزاد اور خود مختار ادارہ ہو تا ہے جو حق حکمرا نی کے ساتھ ساتھ سارے اداروں کےلئے حدودو قیود کا تعین بھی کرتاہے لہذا کسی کو پار لیمنٹ کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہو تی۔یہ ایک ایسا ادراہ ہے جسے کو ئی بھی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ۔پارلیمنٹ انتہا ئی دا نشمندی ، احتیاط اور غورو عوض کے بعد قا نون سازی کر تی ہے کیونکہ معاشرے پر اسکے بڑے گہرے اثرات مرتب ہونے ہو تے ہیں۔پاکستان میں آجکل ایک نئی بحث چھڑی ہو ئی ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کو نساادا رہ بالادست ہے جس پر مختلف آرا پا ئی جاتی ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ قانون سازی کا کلی اختیار پارلیمنٹ کو حا صل ہے جبکہ عدلیہ کو آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے اور اپنے اسی حق کے استعمال سے وہ آئین کی کسی بھی شق کو آ ئین سے متصادم قرار دے سکتی ہے جسکی پابندی پارلیمنٹ کےلئے بھی لازمی قرار پاتی ہے جنرل پریز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد عدلیہ کے اندر ایک تفا خر اور برتری کا جذبہ پروان چڑھا ہے جس نے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تصادم کی خوفناک فضا کو جنم دیا ہے۔ اس تصادم کے مظا ہرے قوم پچھلے کئی مہینوں سے دیکھ رہی ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہستصادم میں جیت کس کا مقدر بنے گی لیکن اتنا بہر حال طے ہے کہ پی پی پی کی حکومت کے خلاف عدلیہ کا رویہ مخا صمانہ ہے مو جودہ عدلیہ کی تصادمی روش سے پی پی پی کی حکو مت بے تحاشہ دبا ﺅ میں ہے اور بڑے فیصلے کرنے سے عاری ہے۔ پی پی پی نے جمہو ریت اور عدلیہ کی بحا لی میں اپنا لہو دیا ہے لہذا ضروری ہے کہ پی پی پی کے ساتھ احترام کا رویہ قائم کیا جائے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ عدلیہ نے خود کو حق بجانب ٹھہرانے کےلئے این آر او کا سہارا لیا ہوا ہے اور یہی وہ موقف ہے جسنے عدلیہ کو بےبا ک کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے حالانکہ این آر او پاکستانی سیاست میں کو ئی نیا قانون نہیں ہے ہر دور میں این آر او نافذ ا لعمل رہا ہے اور یہ این آر او ہی تو تھا جسکے تحت میاں محمد نواز شریف زندا نوں کی سلاخوں سے سیدھے سعودی عرب پہنچ گئے تھے لیکن بد قسمتی سے عدلیہ اسے این آر او تسلیم نہیں کرتی میڈیا چونکہ میاں صاحب کے زیرِ اثر ہے لہذا جب بات میاں محمد نواز شریف کی ذات کے حوالے سے ہو تی ہے تو اسوقت میڈیا کا رویہ بالکل بدل جاتا ہے لیکن جب بات پی پی پی کی ہو تو میڈیا اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس سے ملکی سیاست میں نفرت، انتشار اور عد مِ استحکام کا رنگ غالب ہوتا جا رہا ے جو ملکی استحکام یکجہتی اور ترقی پر بڑے مہلک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پی پی پی کو دباﺅ میں ر کھنے کےلئے میڈیا نے ۵۱ ا کتوبر کی شب ایک بہت بڑی خبر بریک کر دی کہ وزیرِ اعظم گیلانی ججز کی بحا لی کا اپنا ایگز یکٹو آررڈر واپس لے رہے ہیںجسکی وجہ سے سارے ججز اپنے عہدوں سے فارغ ہو جائینگے۔ جب یہ خبر عدالت کے علم میں آئی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کر لیا گیااور ااسے حکم دیا گیا کہ وہ وزیرِ اعظم پاکستان کی عدالت میں حاضری کو یقینی بنا ئیں لیکن وزیرِ ا عظم پاکستان اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ تو عدالت میں پیش ہو ئے اور نہ ہی انھوں نے کو ئی تحریری حلف نامہ داخل کیا جس سے افواہوں کی تردید ہو جاتی ۔عدالت سارا دن کاروائی کرنے کئے بعد اس حکم کے ساتھ برخاست ہو گئی کہ اس اہم مسئلے پر اگلی شنوائی ۸۱ اکتوبر کو ہو گی اور ۸۱ اکتوبر کو اٹارنی جنرل کے رسمی بیان کے بعد کاروا ئی غیر معینہ مدت تک کےلئے ملتوی کر دی گئی ہے ۔عدالتی دنیا میں شائد اپنی نو عیت کا یہ پہلا وا قعہ ہے کہ کسی افواہ پر عدلیہ نے فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہواس فل کورٹ اجلاس سے پاکستان کی جو جگ ہنسا ئی ہو ئی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ فل کورٹ بلا کر اندھیرے میں تیر چلا نے اور شکار کرنے کی کوشش کی گئی جس نے عدلیہ کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔عدلیہ کے اس اقدام سے پو ری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گئی ہر سو غیر یقینی کے بادل چھا گئے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آر ہا تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ عدالت کو حکومت سے اتنے شکوک کیوں ہیں انھیں کس چیز نے خوف زدہ کیا ہوا ہے وہ کو نسی بات ہے جس سے عدلیہ نے تحفظات کا شکار ہو کر نصف شب کو فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔یہ بات سب کے علم میں ہے کہ میڈیا کے کچھ ا ینکرز پی پی پی دشمنی میں ساری حدیں عبور کر چکے ہیں انکا سب سے بڑا ہدف پی پی پی کے خلاف الزام تراشی کرنا ہے اور پچھلے دوسالوں میں میڈیانے اتنی الزام تراشیاں کی ہیں جسنے سیاست کو داغدار کر کے رکھ دیا ہے۔ عدلیہ کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اینکرز حضرات کی خبروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی انھوں نے ایک من گھڑت خبر پر فل کورٹ اجلاس بلا لیا جس سے انکی سبکی بھی ہو ئی اور انکی جانبداری پر بھی حرف آیا ۔اب سپریم کورٹ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مخبر کے رخ سے نقاب اٹھا کر اسے عوام کے حوالے کر ے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سپریم کورٹ کو ایسے فتنہ پرداز لو گوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میںحکومت کا بھر پور ساتھ دینا چائیے۔کسی کی دوستی، محبت اور تعلقات کو انصاف کی راہ میں مزاحم نہیں ہو نا چائیے کیونکہ یہ پاکستان کے وقار اور اسکی عزت و آبرو کا معا ملہ ہے اور ہم سب کو پاکستان کے وقار کو ہر شہ سے عزیز اور مقدم رکھنا ہو گا۔سیا سی اداکاروں اور وچو لوں کو بے نقاب کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ وہ اپنی حدود سے تجا وز کرتے جا رہے ہیں۔۔پاکستان پیپلز پار ٹی کے بارے میں کچھ لوگ ابھی تک غلط فہمی کا شکار ہیںوہ پی پی پی کے کلچر اور اسکی تاریخ سے واقف نہیں ہیں پی پی پی اب سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فیملی میں بدل چکی ہے جسمیں کا ر کنوں کا مرنا جینا ایک ساتھ ہے، کارکنوں کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں لہذا جیالے پارٹی قیادت کے ایک اشارے پر ڈ ٹ جا تے ہیں اور جب وہ ڈٹ جا تے ہیں تو پھر انکے سامنے ٹھہرنا کسی کے بس میں نہیں ہو تا۔جمہو ر یت کے عظیم سفر میں جیا لوں نے جمہو ریت کے پودے کی آبیاری اپنے لہو سے کی انکے قائدیں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا انھوں نے بے رحم آمریتوں کا سا منا کیالہذا اس جما عت کی قیادت کا موازنہ جنرل پرویز مشرف سے نہیں کیا جا سکتا ۔پی پی پی کی جڑیں عوام میں ہیں قوم نے انھیں اپنے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے جسکا احترام اور تقدس سب پر لازمی ہے کیونکہ یہی جمہوری روح کا تقاضہ ہے۔ جب قانوں کے رکھوالے حرمتِ قلم کا سودا کر رہے تھے جب عدا لتیں ڈ کٹیٹر کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے تھیں جب سیا سی اداکار آمریت کی لے پر محوِ رقص تھے جب مفاد پرست اقتدار کےلئے سودے بازی میں مشغول تھے پی پی پی کے جیا لے جمہو ریت کےلئے تن کر کھڑے تھے انھیں زندانوں کی تنگ و تاریک کو ٹھریوں میں لرزہ خیز صعوبنوں سے گزارا گیا ا نکے سر تن سے جدا کئے گئے انھیں سرِ دار کھینچا گیا لیکن وہ بھر بھی جمہو ریت کے نعرے لگا تے رہے جمہو ریت سے انکی وفا ﺅ ں کی داستان پاکستانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے لیکن افسوس کہ میڈیا اس پارٹی کی پاکستان، جمہو ریت اور آئین سے محبت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔نئے افق پہ ابھرتی صداقتیں دیکھوں۔۔۔زمین کو چوم رہی ہیں امارتیں دیکھوں     گلوں کو اوڑھ کے نکلے ہیں ابرِ سنگ میں لوگ۔۔گلی گلی میں مہکتی شجا عتیں دیکھوں  (سبطِ علی صبا)پاکستان میں عدالتیں مارشل لاﺅں کو جائز قرار د یتی رہیں عوامی قا ئد ین کا قتل کرتی ر ہیںکرپشن کے تحت ھکومت کی رخصتی پر مہرِ تصدیق ثبت کر تی رہیں ملک کو غیر مستحکم کرتی ر ہیںا سکی عزت خاک میں ملا تی ر ہیں صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کی تذلیل کرتی ر ہیں پارلیمنٹ کا مذاق اڑا تی رہیں احتساب کے نام پر ملک کو عدمِ استحکام کی نذر کرتی ر ہیں کھلے عام جانبداری کا مظا ہرہ کرتی رہیں عدل و انصاف کا خون کر کے اسے انصاف سے تعبیر کرتی رہیں لیکن عوام نے پھر بھی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا لہذا عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ اس احترام پر جانبداری کی پر چھا ئیں نہ پڑنے دیں بلکہ ایسا انصاف کریں جسپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔