URDUSKY || NETWORK

بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے ماحول پر مضر اثرات۔

110

تحریر و تحقیق:۔ ساجد حسین۔

ہمارے ارد گرد کا ماحول ہماری بود و باش اور اصول معاشرت قدرتی وسائل کے صحیح و غلط استعمال پر منحصر ہے۔ کائنات کے خالق و مالک الللہ پاک نے تو یہ دنیا اورزمین پر قدرتی وسائل مناسب توازن کے ساتھ خلق کئیے ہیں،یہ ہم اور آپ ہی ہیں جو خود ہی اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہتر یا بدتر بنا سکتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوس ماحول کی تباہی میں ایک بڑا عنصر بڑھتی ہوئی شہری آبادی یا آربنائزیشن ہے،حتی کہ جنوبی ایشاءکے ممالک میںاس حوالے سے پاکستان سرفہرست ہے۔ دیہاتوں سے شہری علاقوں میں جانا کوئی جرم نہیی لیکن اگر حکومت و متعلقہ شہری حکام شہروں میں موجود وسائل اور بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے مطابق مہیا کریں۔لیکن افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے فقدان ہے ،یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں جیلوں اورسرکاری ہسپتالوں میں گنجائش سے ذیادہ لوگ رکھے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ماحول کی بہتری کے لئیے جتنی بہتریں قانون سازی موجود ہے وہ ترقی یافتہ ممالک میں موجود قانون سازی سے کسی طور پر کم نہیں،لیکن افسوس کے یہ قوانین صرف کاغذوں اور آئین و قانون کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں،جب کہ ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان تحفظ ماحولیات آرڈینینس1983ئ( Pakistan Environmental Protection Ordinance,1983 ) کے سیکشن ۸ کے مطابق کوئی بھی نیا پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے اس پراجیکٹ کے ماحول پر ہونے والے ممکنہ مضر اثرات کا جائزہ یا ای آئی اے رپورٹ (Environmental Impact Assessment) لازمی پیش کرنا ہوتی ہے،اور ای آئی اے رپورٹ کی منظوری کے بغیر کوئی بھی پراجیکٹ شروع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے ہاں بدقسمتی کی انتہا دیکھیئیے کہ اول تو ای آئی اے رپورٹ کا کوئی پوچھتا تک نہیں، لیکن بعد میں جب پراجیکٹ تکمیل کے ٰٰآخری مراحل میں ہو یا اکثر تکمیل کے بعد صر ف خانہ پری اور کاغذی کاروائی کے لئیے ای آئی اے رپورٹ جمع کی جاتی ہے ۔جب کہ صحیح اور قانونی طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی بھی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے باقاعدہ قومی و مقامی اخبارات میں اشتہار شائع کرکے اور پراجیکٹ سے متعلقہ تمام فریق بشمول عوام کو بلا کر پراجیکٹ کے ماحول پر ممکنہ مضر اثرات کا جائزہ دیکھ کر اس موقع پر ہی پراجیکٹ شروع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیاجاتاہے۔پہلے تو اس طر ح ہوتا نہیں اگر کہیں خانہ پری کے لئیے ہو بھی جاتاہے تو عوامی آراءکو نظر انداز کرکے ترقیاتی کام یا پراجیکٹ شروع کرنے والے برسر اقتدار حکمرانوں و سیاستدانوں کے مفادات کا خیال رکھ کر عوام اور ماحول پر ممکنہ مضر اثرات کو یکسر نظر انداز کیا جاتاہے۔جس کی واضح مثال پشاور اسلام آباد موٹروے کی صورت میں ترقی و تعمیر کے نام پر تخریب و تباہی کا منصوبہ بنانا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سڑکیں یا موٹروے نہیں بننے چاہیئے ،لیکن سب سے اہم سڑک یا موٹروے بنانے کے لئیے مناسب جگہ یا زمین کا تعین ہے۔پشاور اسلام آباد موٹروے بنانے کے لئیے جس زمین کا انتخاب کیا گیا ہے اس کا اکثر حصہ قابل کاشت زرعی زمین پر مشتمل ہے۔یوں تو پہلے ہی پاکستان میں قابل کاشت زرعی زمین کا تناسب بنجر یا غیر قابل کاشت زرعی زمین سے بہت کم ہے،اس لئیے پشاور اسلام آباد موٹروے آسانی سے بنجر یا غیر قابل کاشت زرعی زمین پر بنائی جاسکتی تھی ،لیکن صرف جلد از جلد سیاسی مفادات و پوائنٹ سکورنگ کے لئیے پشاور اسلام آباد موٹروے قابل کاشت زرعی زمین پر تعمیر کرکے اس علاقے کے زراعت و قدرتی ماحول کو تباہ کرنے کی بنیاد رکھی گئیی۔ پشاور اسلام آباد موٹروے کے ارد گرد اسی قابل کاشت زرعی زمین سے پشاور،نوشہرہ،چارسدہ،مردان اور صوابی وغیرہ کے کسان و کاشتکار نہ صرف اپنی ضرورتوں کا اناج،سبزیاں و پھل حاصل کرتے تھے بلکہ انہی قابل کاشت زرعی زمین سے پشاور،روالپنڈی و اسلام آباد کے شہروں تک سبزیاں و پھل مہیا کئیے جاتے تھے۔  پشاور اسلام آباد موٹروے بننے کے بعد اگر کسی نے غور سے دیکھا ہو یا اگر نہیں دیکھا تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں چھپنے والے رہائشی منصوبوں جیسے اشتہارات، جنت موٹروے ٹاون، یہ ٹاون،وہ ٹاون وغیرہ کی طرف دیکھ لیں تو آسانی سے اندازہ ہوجائے گا۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں جہاں خودکش حملہ آوروں کو دنیا میں جنت کی چابیاں دی جاتی ہیں ،وہی پر دنیا میں بھی جنت میں رہنے کے لئیے موٹروے کے سنگم پر جنت موٹروے ٹاون جیسی سہولیات موجود ہیں۔موٹروے بننے سے پہلے ان تمام قابل کاشت زرعی زمینوں پر کسان محنت و مذدوری کرکے ہر سال ایک مناسب کمائی کے علاوہ اپنی ضرورت کا اناج و سبزیاں بھی پیدا کرتے تھے۔لیکن موٹروے بننے کے بعد مختلف رہائشی منصوبوںکے مالکان اور پراپرٹی ڈیلرز کے ساتھ ساتھ اپنی زمین بیچ کر یکمشت کمائی حاصل کرنے کی لالچ اور کاشت کاری سے جان چھڑا کر بڑے شہروں میں کوئی کاروبار شروع کرنے جیسے شیخ چلی کی خواہشوں نے قدرتی ماحول اور زراعت کی تباہی و بربادی کا ٰآغاز کردیا ہے۔اس عمل سے اگر ایک طرف قدرتی ماحول اور زرعی شعبے کی ترقی تباہی کا شکار ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی شہری آبادی یا آربنائزیشن کے مسائل جنم لے رہی ہیں۔جنکا دیرپا اور مستقل حل شاید ہمارے بس کی بات نہیں۔پھر بھی ہمارے ملک کے ارباب اختیار اور سیاستدان ایک دوسرے پر سیاسی کیچڑ اچھالنے کے لئیے اپنی تقاریر میں کہتے ہیں۔کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم زرعی خود کفالت کیوں حاصل نہیں کرتے ،حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ انہی ارباب اختیار اور سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا کہ ہمارے ارباب اختیار ڈیموں میں پانی کے لیول بڑھانے اور لوڈشیڈنگ میں کمی کے نام پر شمالی علاقوں کی بلند و بالا پہاڑی سلسلوں میں واقع برف کے پہاڑوں گلیشرزکو وقت سے پہلے پگھلانے کے لئیے کیمکلز کا سہارا لیں گے۔۔۔۔جنگلات کو بے دردی سے کاٹ کر بنجر زمین کی بجائے قابل کاشت زرعی زمین پر جلد از جلد سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئیے موٹروے بنائیں گے۔۔۔۔تو پھر عطا آباد جھیل جیسے سانحے اور بے وقت سیلاب جیسی آفات تو آتے ہی رہیں گے۔۔اس لئیے ہم سب کو مذید تباہی سے پہلے سوچنا ہوگا۔ کہ کیا ہم خود ہی تو اپنی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کرکے اپنی ذندگی اور ماحول کو جہنم بنانے میں مصروف عمل تو نہیں۔۔اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔