URDUSKY || NETWORK

عورت ! مثالِ بحر بے پایاں

136

عورت کیا ہے؟ شاید وہ خود آج تک یہ نہیں جان پائی۔ عیسائیت ،یہودیت، ہندومت میں تو عورت کی تخلیق ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے تاکہ وہ آدم کے بہلاوے کا ذریعہ بن سکے۔یعنی عورت صرف مرد کا تقاضا پورا کرنے کا ذریعہ ہے اور اسے مرد کے لیے کھلونے کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔قرآنَ کریم نے اسی باطل تصوّر کو مٹایا اور کہا کہ نہ تو مرد عورت کے کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اور نہ عورت مرد کے کسی مقصد کو پورا کرنے کا ذریعہ۔ دونوں کی تخلیق مقصود بالذات ہے اور یہ دونوں اﷲ کے دستور کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کے یکساں ذرائع ہیں۔ اسی لیے قرآنِ کریم میں ہے ” ہم نے تمام انسانوں کو یکساں واجب اتکریم پیدا کیا ہے“17/70 ۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے اعتبار سے کسی انسانی بچے میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جا سکتی کیونکہ اﷲ نے انسان کوجس تعظیم و تکریم کا حامل ٹھہرایا ہے اسی میں تمام انسان یعنی مرداور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ نہ تو کوئی لڑکا اپنے اختیار و ارادہ سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اورنہ کوئی لڑکی اپنے انتخاب و ارادے سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے لڑکی کو کسی اعتبار سے بھی لڑکے سے کم تر سمجھنا قرآن کے اصل اصولوں کے خلاف ہے اور ان عقائد کی طرف واپس لوٹنے کے مترادف ہے جنھیں قرآن مٹانے آیا تھا۔قرآن کی رو سے کوئی بھی انسان اپنے کردار اور اعمال کی وجہ سے افضل گردانا جاتا ہے نہ کہ اپنی جنس اور مال و دولت کی زیادتی کی بدولت۔
قرآن میں کئی جگہ ارشاد ہوا ہے کہ زندگی کے کسی بھی میں کام کے حوالے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں یکساں استعداد اور صلاحیتوں کے مالک ہیں مثلاًسورة احزاب کی آیت نمبر 35 میں ہے ”مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں ، بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اﷲ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ۔رکھی ہے اﷲ نے انکے لیے معافی اور اجر عظیم“۔ یعنی عورت ہر وہ کام بآسانی کرسکتی جو مرد کر سکتا ہے لیکن ہمارے معاشروں میں آج بھی مرد کی اجارہ داری ہے اور خود عورت نے بھی اپنے ذہن میں ایک چیز بٹھا لی ہے کہ وہ مرد کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ تبھی تو اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ نمائشِ زینت سے مرد حضرات کی نگاہ میں پُر کشش بنے اور آج یہ صورتحال ہمارے معاشرے میں عام نظر آتی ہے۔گلی محلّے سے لے کر تمام چھوٹی بڑی تقریبات میں یہی چیز عام ہے ۔دراصل عورت کو اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ وہ کوئی شو پیس نہیں ہے جسے خریداروں کے لیے پُر کشش بنا دیا جائے تو اس کی قیمت بڑھ جائے۔ اس کی قدرو قیمت جتنی اﷲ نے بتائی ہے اس کا تو اسے خود اندازہ نہیں ہے۔ یقین مانیے عورت کو جتنا مقام اور تحفظ دین اسلام نے دیا دنیا کے کسی مذہب سے اسے نہیں مل سکا۔مغربی عورت سے اس کا اصل مقام چھین لیا گیا ہے۔محض آزادی کے نام پر اسکا تحفظ اس کی عصمت چھین لی گئی ہے اور بدلے میں صرف یہ کہا گیا کہ وہ مرد کا مقابلہ کرے یا مرد بن کر دکھائے۔جبکہ اﷲ نے تو پہلے ہی عورت کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ مگر مغربی عورت کو اس کی سمجھ کہاں۔ وہ تو یہ سمجھتی ہے کہ اپنی عصمت گنوا کر اس نے اس دنیا کو پا لیا، مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مقابلے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ نظامِ دنیا کو چلانے کے لیے دونوں کا الگ الگ اور برابر کردار ہے۔ دونوں کے الگ الگ فرائض اور حقوق ہیں۔ مرد سے اﷲ نے اسے نہایت خوبصورت رشتوں میں پرو دیا ہے ۔ وہ اس کا باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے اور یہ رشتہ محبت ،احترام، عزت،شرافت،وقار اور رفاقت کا ہے۔وہ اسی پر نہایت پُر سکون ہے کیونکہ اسے مرد بن کے نہیں دکھانا بلکہ ان رشتوں کو نبھانا ہے۔ مرد کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہے۔لہٰذا قرآن نے خود عورت کا مقام واضح کیا، اسے ماں ، بیٹی، بہن، بہو، بیوی غرض ہر روپ میں واجب الاحترام ٹھہرایا اور اس کے تمام حقوق سے آگاہ کیا ہے۔ سورة البقرہ کی آیت نمبر 238 میں ہے”جس قدر عورتوں کی ذمہ داریاں ہیں اسی قدر ان کے حقوق ہیں“۔ اگر عورت اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے بخوبی نبھائے تو پورے معاشرے کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ضرورت صرف اسے سمجھنے کی ہے۔ جن خواتین نے بھی اپنے فرائض و کردار کو بھرپور طریقے سے ادا کیا انھوں نے اعلٰی مقام پایا۔ امہات المومنین خصوصاًحضرت خدیجہؓ ، پھر حضرت فاطمہؓ، رضیہ سلطانہ، حضرت فاطمہ جناحؓ وغیرہ کی مثالیں قابلِ ذکر ہیں۔
نپولین بونا پارٹ نے بھی کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔غرض ہر میدان میں عورت کا بہترین حصّہ اور کردار رہا ہے اور قیامت تک رہے گا مگر ضرورت تو اس بات کی ہے کہ خود عورت اپنے اصل مقام کو سمجھے اور وہ کردار ادا کرے جس کا اﷲ نے اسے حکم دیا ہے۔ہمت نہ ہارے بلکہ حوصلے سے آگے بڑھتی چلی جائے۔ اپنی ذات کی تکمیل کرے اور نئی نسلوں کی بھرپور پرورش کرے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ” ہم تو چاہتے تھے کہ تمہیں (قرآن کے ذریعے) آسمان کی بلندیوں پر لے جائیں لیکن تم ہو کہ اپنے پست جذبات کے پیچھے لگ کر زمین کی پستیوں کے ساتھ چپکے رہنا چاہتی ہو“7/176

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ ، اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو!
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
تو ہے ناداں چند کلیوں پر قناعت” کر گئی!“
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے