URDUSKY || NETWORK

روا ئت شکن دن

140

وطنِ عزیز میں سرما یہ داری، جاگیر داری اور مذہبی پیشوا ئیت کی خون آشام زنجیریں شجرِ انسا نیت کے پتے پتے سے نمِ حیات چوس رہی تھیں۔ طبقاتی اور نسلی امتیاز اپنی انتہا ﺅں کو چھو رہا تھا۔تکریمِ انسا نیت قریب المرگ تھی۔ دولت کی غیر منصفا نہ تقسیم کی بدولت امتیازو تفا خر کی دیواریں مضبوط سے مضبوط تر اور بلند سے بلند تر TARIQ BUTTہو رہی تھیں۔ محروموں بے کسوں اور کمزوروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ وہ محکومانہ اور غلامانہ طرزِ زیست کے خو گر ہو چکے تھے۔ سیاست پر جاگیر داروں ، سرما یہ داروں اور وڈیروں کا راج تھا۔ عوام کی را ئے اور اس رائے کے احترام کا دور دور تک کو ئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں کے مصداق غریب اور نادار لوگ شہ زوروں اور صاحبِ ثروت لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی کے دن پو رے کر رہے تھے ، ان کے جبر کا شکار تھے اور ان کے بے رحمانہ فیصلوں کے اسیر تھے لیکن اس سے راہِ نجات کی کو ئی صورت انھیں نظر نہیں آرہی تھی۔ یہ جبر کی ایسی سیاہ رات تھی جس نے روشنی امید اور خوشی کی ہر کرن کو کو بڑی بے رحمی سے اپنے بے رحم پنجوں میں دبوچ رکھا تھا۔ اسی بے رحم اور سنگدل ما حول میں ذو لفقار علی بھٹو نے ۰۳ نومبر ۷۶۹۱ کو نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیا د رکھی تا کہ جنھیں معاشرے میں کمزور بنا دیا گیا ہے انھیں قوت عطا کر کے اقتدار کے ایوانوں تک ان کی رسا ئی کو ممکن بنا یا جا ئے۔
انسانی زندگی میں کبھی کبھی ایسے الہا می لمحات بھی آتے ہیں جن میں اٹھا یا ہوا ہر قدم کامیا بی و کامرا نی سے ہمکنار ہو تا ہے اور کچھ ایسا ہی پی پی پی کے یومِ تا سیس پر بھی ہوا تھا جب ذو لفقار علی بھٹو کی آواز فضا میں گو نجی تھی۔ایک ایسی آواز جو عوام کو مزدہ جا نفزا سنا تی اور آہنی زنجیروں کو توڑنے کا آہنی عزم عطا کرتی ہے۔ اس کی آواز میں ایسا سحر تھا،ایسا فخر تھا،ایسا اثر تھا،ایسی رعنا ئی تھی ، ایسی سچا ئی تھی، ایسی گہرا ئی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ آواز ہر دردر مند دل کے اندر پیوست ہو کر اسے اپنا محرم اور ہمنوا بنا لیتی ہے۔ ذو لفقار علی بھٹو بے کسوں کو نئی امنگیں عطا کر کے اپنے گرد جمع کر کے آہن گداز بنا لیتا ہے اور ایک جدید معا شرے کی تشکیل کی بنیا دیں رکھنے کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کی اس انقلابی آواز کو ایسی بے مثل پذیرائی ملی جس کی مثال تا ریخِ پاکستان پیش کرنے سے قا صر ہے۔۔
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آن پہنچا ہے۔۔ جب تخت گرا ئے جا ئینگے جب تاج اچھا لے جا ئینگے
ٹوٹ گری ہیں زنجیریں زندا نوں کی اب خیر نہیں۔۔۔ جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹا لے جا ئینگے (فیض احمد فیض)
ذو لفقار علی بھٹو نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ ظلم و زیا دتی کی سیا ہ رات کو ختم کر کے ایک نئی اور حسین صبح کا آغاز کیا جا ئےگا ۔ ایک ایسی صبح جس میں کو ئی نانِ شبینہ کو نہ ترسے، کو ئی غربت و افلاس کی چکی میں نہ پسے،کو ئی محرو میت کی تصویر نہ بنے، کو ئی ظلم و جور کا شکار نہ ہو۔ ریا ست ہر شہری کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کی ذمہ داریاں قبول کرےگی اور موجودہ بوسیدہ نظا م کی جگہ ایسا نظام قائم کرےگی جس میں کو ئی کسی کا دستِ نگر نہیں ہو گا۔ پی پی پی کی تشکیل کا یہی بنیا دی فلسفہ تھا اور اسکے قیام کی حقیقی روح جس نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا نے میں اسکی معاونت کی تھی۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یہ پی پی پی کے نعرے کی قوت تھی اور اس نعرے نے معاشرے کے مفلوک الحال اور پسماندہ عوام میں زندگی کی برقی رو دوڑا دی تھی اور وہ سارے ذو لفقار علی بھٹو کے گرد جمع ہو کر ایک جدید معا شرے کی تشکیل کے خدو خال کے تعین میں جٹ گئے تھے۔ وہ ذو لفقار علی بھٹو کو ایسے نجات دہندہ کی شکل میں دیکھ رہے تھے جو بوسیدہ معاشرے کی نئی صورت گری سے انکے شب و روز کو بدل کر رکھ دےگا۔ عوام صدیوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتارنے کےلئے میدانِ کارزار میں کو د چکے ہی تھے اور حریت فکر کے حصول کی خا طر اپنی متاعِ عزیز کو قربان کرنے کےلئے بے چین تھے کیونکہ ایسی آوازیں عطیہ خدا وندی ہو تی ہیں اور تاریخ میں شاذو نادر سنا ئی دیتی ہیں۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔۔۔کاخِ امراءکے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی۔اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ( ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال)
ذو لفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد تکریمِ انسا نیت کے اعلی و ارفع ا صولوں پر رکھی تھی۔ رنگ نسل زبان اور قبیلے کے امتیا زات سے با لا تر ہو کر سب کو برا بر ی کا پیغام دیا تھا۔ اس کا واضع اعلان تھا کہ کو ئی اس لئے قابلِ احترام نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علا قے کا جا گیر دار ہے اور کو ئی اس لئے کم تر نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علاقے کا کمی اور کمزور فرد ہے۔ کو ئی اس لئے حقیر نہیں کہ وہ نچلی ذات برادر ی کا فرد ہے۔ کوئی اس لئے عزت و وقار کا حقدار نہیں کہ وہ اعلے خاندان اور خانوا دے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمیں ذ ات پات اور رنگ و نسل کے سارے امتیا زات کو ملیا میٹ کر کے ایک ایسے معا شرے کی بنیا دیں رکھنی ہو نگی جس میں تمام طبقات با ہم یکجا ہو کر با ہمی محبت اور احترام کی نئی تاریخ رقم کریں۔ہر شخص کو آزادا نہ بات کرنے کا مکمل اختیار ہو گا اور ہر ایک کی تکریم اس کی ذاتی خو بیوں کی بدو لت ہوا کرے گی۔
پی پی پی کی تاسیس میں خطبہ¾ِ حجتہ الوداع کی حقیقی روح جلوہ فرما تھی سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کا لے پر اور کسی کا لے کو گورے پر ، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کو ئی فضیلت نہیں فضیلت کا معیار تقوی ہے لہذا جو جتنا صاحبِ تقوی ہو گا اسکا مقام اتنا ہی بلند ہو گا لہذا مجھے کہنے دیجئے کہ پی پی پی کی تاسیس میں خطبہ¾ِ حجتہ الوداع کے اسی تاریخ ساز اعلان کی جھلک جلوہ فرما تھی جسنے نحو وتکبر کے سارے بتوں کو پاش پاش کر کے رکھ دیا تھا۔ پی پی پی کی تا سیس میں مساوات اور برابری کے سنہری اصولوں کو بنیاد بنایا گیا تھا اور تکریمِ انسا نیت کو اعلی و ارفع مقام عطا کر کے ہر قسم کی عصبیت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا ذولفقار علی بھٹو دادو تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بند ہ و آقا کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر کے انھیں ہم نوالہ و ہم پیا لہ بنا کر شا ہرا ہِ حیات پر دونوں کی باہمی یگانگت سے نئی قدروں کو روشناس کروایا تھا۔معاشی بد حالی انسانی روح کے آئینے کو زنگ آلود کر دیتی ہے لہذا وہ چپکے چپکے کراہنے والوں کی دلخراش صدا ﺅں اورافلاس کے دل ہلا دینے والے منظر کو صفہِ ہستی سے مٹا دینا چاہتا تھا۔
تو قادرو عادل ہے مگر تیرے جہان میں۔ہیں تلخ بہت بندہِ مز د ور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ۔۔ دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مقافات
سوشلزم جس سرعت سے دنیا میں پھیل رہا تھا وہ ذولفقار علی بھٹو کی نگاہ میں تھا ۔ سوشلزم اور سرما یہ داری میں جو باہمی آویزش اور مخا صمت کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی وہ اس سے بھی با خبر تھا،اسلامی روایات اوت اس کی قدروں سے بھی کما حقہ آگاہی رکھتا تھا اسی لئے اس نے ایک نئے نظریے کو متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلامی سوشلزم کے نعرے کے ساتھ میدان میں اتر کر اس نے میرو سلطان سے بیزاری کا اعلان کر دیا ۔ اسے بخوبی علم تھا ک جس انقلاب کا علم سوشلزم کے داعی ل کر اٹھے ہیں وہ پہلے ہی سے اسلام کے دامن میں ہے لیکن چونکہ سوشلزم اپنی مقبو لیت کشش اور جاذبیت سے قلب و نگاہ کو مسحور کر رہا تھا لہذا اس کی اثر انگیزی سے اس نے سیا ست میں معجزاتی رنگ بھرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انقلابِ روس اور انقلابِ چین نے اسکی فکری جلا میں بڑا اہم رول ادا کیا اور اسے سوشلزم میں پوشیدہ محاسن کو رو نہ عمل لانے کا حوصلہ دیا۔
قوموں کی روش سے مجھے ہو تا ہے یہ معلوم۔۔۔بے سود نہیں روس کی یہ گرمی¾ِ ا فکار
جو حرف ِ َ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک۔اس دور میں شائد وہ حقیقت ہو نمو دار (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
ذولفقار علی بھٹو نے پی پی پی کے تا سیسی اجلاس میںایک جد ید اور ترقی پسند اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کا نعرہ لگایا۔ مذ ہبی پیشوا ئیت اور شدت پسندی سے معاشرے کو پاک کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے مذ ہبی پیشوا ئیت نے ذولفقار علی بھٹو پر کفر کا فتو ی صادر کر دیا اور اس کے پیرو کاروں کو ملحد، بے دین اور گمراہ قرار دے دیا۔ مذ ہبی پیشوا ئیت رجعت پسندی کا پرچم تھا مے ہو ئی تھی جبکہ پی پی پی ماڈرن اور لبرل معاشرے کا علم بلند کئے ہو ئے تھی۔ مذہبی قیادت غربت ،افلاس اور بد حالی کو تقدیرِ الہی سمجھ کر قبول کرنے کا پرچار کر رہی تھی جب کہ پی پی پی انسانی محنت، جدو جہد اور عزمِ مصمم سے مقدر کو بنا نے کا حوصلہ اور عزم عطا کر رہی تھی اور رجعت پسند فکر ، قدامت پرست سوچ اور پیری مریدی کے کھیل سے عوام کو بچا نا چا ہتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ پی پی پی اور مذ ہبی پیشوا ئیت کے درمیان جو اختلافات ۷۶۹۱ سے شروع ہو ئے تھے انکی شدت میں آج تک کو ئی کمی واقع نہیں ہو ئی۔
پی پی پی کی تشکیل نے ذولفقار علی بھٹو کو پلک جھپکنے میں عوام کا محبوب قائد بنا دیا۔ وہ ایک ذہین اور با جرات راہنما کی حیثیت سے عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے لہذا عوامی پذیرائی کی اسی طاقت کی وجہ سے ذولفقار علی بھٹونے مذ ہبی پیشوا ئیت کے فتووں کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی اور اپنے پروگرام کی حقانیت کو اپنا اوڑھنا بچھو نا بنا کر نئی تاریخ رقم کرنے کا عزمِ صمیم کر لیا۔ وہ عظیم ہستیاں جنھیں تاریخ کے دھارے کو بدلنا ہو، معاشرے کو بدلنا ہو، نظام کو بدلنا ہو اور روایات کو بد لنا ہو وہ نہ تو فتووں سے ڈرتے ہیں اور نہ دھمکیوں سے مرعوب ہو تے ہیں اور نہ الزامات سے بھا گتے ہیں بلکہ اپنے خیا لات کی ترویج میں جٹ جا تے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کےلئے ہر قوت کو تہہ و با لا کر کے ر کھ دیتے ہیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال اور سر سید احمد خان پر بھی فتووں کی تلوار چلا ئی گئی تھی لیکن انھوں ان تمام اوچھے گھٹیا اور بے کار فتووں کے ہر وار کو نا کام بنایا اور اپنے عزمِ مصمم اور اور فہم و فراست سے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ ذولفقار علی بھٹو نے اپنے پیشرﺅں کی اسی روشن کردہ قندیل سے پھو ٹنے والی روشنی سے پی پی پی کی بنیا دیں رکھیں اور وطنِ عزیز کی تقدیر کو بدلنے کےلئے میدانِ عمل میں کود پڑے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اسی انقلاب میں تحت بھی گرائے گئے تاج بھی اچھا لے گئے اور خاک نشینوں کو مالکِ تاج و تخت بھی بنا یا گیا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،