جناب وزیر اعظم صاحب تبدیلی بیانات اور تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے آتی ۔ ۔ ۔ ۔
جناب وزیر اعظم صاحب تبدیلی بیانات اور تقریروں سے نہیں عملی اقدامات سے آتی ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر :۔محمد احمد ترازی[email protected] کہتے ہیں کہ طوطے کا ایک جوڑا دن بھر کی مسافت کے بعد رات گزارنے کیلئے ایک ویران گاؤں میں رکا،گاؤں کی ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا ”کس قدر ویران گاؤں ہے، ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہے، تمہارے خیال میں یہ گاؤں کس وجہ سے اجڑ ا ہوگا….؟ “طوطے نے کچھ دیر سوچا اور طوطی کی طرف دیکھ کر بولا ”میرا خیال ہے اُلوؤں کی وجہ سے “جس وقت طوطا طوطی کو گاؤں اجڑنے کی وجہ بتا رہا تھا، عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا، تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو،لمبے سفر کی وجہ سے تھکے ہوئے بھی ہو،میرا گھر قریب ہے ،اس ویران گاؤں میں رات گزارنے سے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ ڈنر کرو،آرام سے رات بسر کرو اور صبح اپنی اگلی منزل پر روانہ ہوجانا ،تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔ اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،دونوں اُلو کے ساتھ اس کے گھر پہنچے ،اُلو نے دونوں کی بہت شاندار اور پر تکلف دعوت کی،تینوں نے اکھٹے کھانا کھایا اور آرام دہ بستر پر رات گزاری ، صبح جب انہوں نے اپنے میزبان اُلو کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرکے رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اُلو نے مسکراکر طوطے کی طرف دیکھا اور بولا”میری طرف سے اجازت ہے آپ جاسکتے ہیں،لیکن طوطی نہیں جائے گی“طوطے نے حیرت سے پوچھا ”کیوں“اُلو بولا ”اسلیئے کہ یہ طوطی میری بیوی ہے “طوطا چلا یا ”یہ کیسے ہوسکتا ہے”تم اُلو ہو اور ہم طوطے ہیں ،ایک طوطی اُلو کی بیوی کیسے ہوسکتی ہے؟“اُلو نے اطمینان سے جواب دیا ”تم مانو یا نہ مانو لیکن یہ طوطی میری بیوی ہے اور میں اپنی بیوی کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔ دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں کورٹ چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،طوطے نے قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کیااور طوطی کو اپنی بیوی قرار دیا ،قاضی نے اُلو کی طرف دیکھا ،اُلو بیان دینے کیلئے آگے بڑھا ،اس نے حلف اٹھایا”میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا ،سچ کے سوا اورکچھ نہیں کہوں گا“اس کے بعد اس نے قاضی کے روبرو طوطی کو اپنی بیوی قرار دینے کیلئے دلائل دینے شروع کئے،اُلو کے جواب میں طوطے نے اپنے جوابی دلائل دیئے لیکن بدقسمتی سے اُلو کے دلائل طوطے کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور قوی تھے،چنانچہ قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا رہا، چلاتا رہا،انصاف کی دہائی دیتا رہا ،مگر اس کی بات سننے والا کوئی نہ تھا۔ ناکام و نامراد جب طوطا اکیلا جانے لگا تو اُلو نے اسے آواز دی ،”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“ اُلو نے طوطے کی بات سن کر زور دار قہقہہ لگایا اور بولا،میرے بھائی یہ سب ڈرامہ تھا، میں تمہیں عدالت اس لیئے لایا تھا کہ میں تمہیں اُس گاؤں کے اجڑنے کی اصل وجہ بتاسکوں،جس ملک میں انصاف نہیں ہوگا اور جس ملک کے قاضی بے ایمان اور عدالتیں بے انصاف ہونگی ،وہ ملک ویران ہوجائے گا،اگر تم اپنے معاشرے،اپنے گاؤں اور اپنے ملک کو اجڑنے اور برباد ہونے سے بچانا چاہتا ہے تو ملک میں کبھی بے انصافی نہ ہونے دینا ہے،یاد رکھو میرے بھائی معاشرے ،گاؤں اورملک اُلوؤں کی نحوست کی وجہ سے نہیں اجڑتے ،بلکہ بے انصافی کی وجہ سے اجڑجاتے ہیں، نحوست اُلوؤں میں نہیں ہوتی،نحوست ظلم اوربے انصافی میں ہوتی ہے۔“ ایک معروف ٹی وی اینکر کی بیان کی ہوئی اس حکایت میں اُلو کی بات کتنی درست ہے کتنی غلط ، اس سے قطع نظر ،یہ حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں عدلیہ آزاد ہو اور قانون کی حکمرانی ہو ، جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی اور انصاف عوام کی پہنچ سے دور ہوتا ہے ،وہ معاشرے یقین اور اعتماد کی دولت سے محروم ہوجاتے ہیں اور ہر آن یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت، کوئی بھی ہاتھ کسی کی دستار یا گریبان تک پہنچ سکتا ہے ،جس ملک میں انصاف نہیں ہوتا ،وہاں ایسا جنگل کا قانون ہوتا ہے جس میں جرائم پیشہ افراد اور لاقانونیت کا راج ہوتا ہے،درندوں کی حکمرانی ہوتی ہے اور معاشرہ خونخوار بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے،یہ انصاف ہی ہوتا ہے جو ایک عام اور کمزور شہری کو بااثر، مضبوط اور طاقتور لوگوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں یقین،اعتماد اور تحفظ کی دولت فراہم کرتا ہے۔ آج وطن عزیز پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزررہا ہے ،ہرطرف ظلم و زیادتی اور لاقانونیت کو دور دورہ ہے ، آٹے ،گھی ، چینی ،بجلی اور پانی کا بحران ہے،ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے بحران کا عفریت سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے ،لوگ بھوک غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں، جبکہ ارباب اقتدار دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں،اب تو حکومتی ارکان ،وزرا اور حکمرانوں کی لوٹ مار کی کہانیاں تواتر کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، حال یہ ہے کہ لوٹ مار اور کرپشن نے پاکستان کو دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں سر فہرست کردیا ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر فرد بے یقینی کی صلیب پر لٹک رہا ہے،حالات کی کوکھ سے جنم لینے والی مایوسی کی وجہ سے قومی زندگی سے سکون،ٹھہراؤ اور اطمینان کے عناصر ختم ہوتے جارہے ہیں،سماجی اور معاشرتی نا انصافیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی و آئینی حوالے بھی قومی اعتماد کو پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف لے جارہے ہیں،ہماری قومی اقدار وروایات،قناعت پسندی،سادگی، قربانی، ایکدوسرے کی مدد ،دلجوئی،حلال روزی کی طلب، حرام روزی سے اجتناب،صبرواستقلال ،بے غرضی، اخوت و محبت،انسانوں کی عزت و احترام،وعدے کی پاسداری،امانت میں دیانت،اور دوسروں کیلئے راستہ چھوڑ دینے کا جذبہ معاشرے سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا معاشرے جو کبھی انسانی تہذیب وتمدن ،اخلاقی اقدار،دکھ سکھ کی ساجے داری،اور محبتوں کے پھیلاؤ کا امین اور مرکز ہوا کرتا تھا ، آج بدلتے ہوئے سماجی رویئے اِسے تیزی سے اُس اخلاقی پستی اورمعاشرتی انحطاط کی جانب لئے جارہے ہیں،صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ تمام تہذیبی، قومی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی سنگ میلوں کو بے دردی سے روندتا ہوا ذہنی بغاوت کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے اور غصہ،نفرت،جرم و بغاوت کی آکاس بیل اُسے تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے،جس کا انجام سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں ،یار رکھیئے جب معاشروں میں عدل و انصاف عنقا ہوجائے تو درندوں کی افزائش ہوتی ہے اور مجرم اور جرائم پیشہ افراد سڑکوں پر دندنا تے پھرتے ہیں۔ ایسی صورت میں خوف و وہشت اور وحشتوں کا دروبام تک آ پہنچنا ایک معمولی بات بن جاتی ہے،چنانچہ ان حالات میں میاں نواز شریف صاحب کے رشوت ، منافقت اور بے انصافی سے پاک اور شفاف پاکستان کی بنیاد رکھنے والے بیانات اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کرپشن سے پاک معاشرے کی خواہش ایک بے معنی اور لایعنی بات کے سوا اور کچھ نہیں،کیونکہ تبدیلی بیانات اور خواہشات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے آتی ہے،اس وقت نا انصافیوں کے گھنے دلدلی جنگل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے،ظلم و زیادتی کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ”معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے ،ظلم و زیادتی کے ساتھ نہیں“ قارئین محترم ….. اُلو نے واقعی سچ کہا تھا ، نحوست اُلوؤں میں نہیں،نحوست ظلم،زیادتی اوربے انصافی میں ہوتی ہے ،جو معاشرے،قوم اورملکوں کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔