URDUSKY || NETWORK

اٹل فیصلہ اور وقتی لہر

91

ڈاکٹر دانیال فخر
[email protected]

جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل ا الرحمٰن نے 14 دسمبر کو حکومت سے علیحدگی کا جو اعلان کیا تھا گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی اجلاس میں جے یو آئی ف نے اس فیصلہ کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ اٹل ہے،مڈٹرم الیکشن نہیں البتہ ایوان میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ کے قا ئد میاں محمد نواز شریف نے حالیہ تبدیلی پر کہا کہ وہ کسی وقتی لہر کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پاکستان کی سیاست میں اٹل فیصلے بہت کم ہوئے اور سیاست دانوں نے وقتی لہر سے بھی ہمیشہ فائدہ اٹھایا لہذا ہمارے ان دونوں سیاست دانوں کی بات کی وزنیت ماضی کے واقعات کے حوالے سے دیکھیں تو عقل اسے مانے کو تیار نہیں ،جے یو آئی ف کی سیاست نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جو گل کھلائے ہیں اس سے تو ہم سب واقف ہیں کہ کس طرح مولانا اپنی کم نشستوں کے باوجود ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کو دباﺅ میں رکھنے کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن حج سکینڈل میں کرپشن کے حوالے سے سابق وزیر برائے مذہبی امور مولانا حامد سعید کاظمی اور آئی ٹی کے سابق وزیر اعظم سواتی کے مابین جس طرح کا بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا اس نے پاکستان اور پاکستان سے باہر ملک کو بدنام کرنے کی ان دونوں وزیروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دونوں وزراءیوسف رضا گیلانی کی ہدایت کے باوجود معاملہ کو طول دیتے رہے،نتیجے کے طور پر دونوں کو ان کی وزارتوں سے برطرف کر دیا گیا اور اسی دن مولانا نے حکمران اتحاد سے علحیدگی کا بھی اعلان کر دیا اور یوں مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاءالرحمن اور ر حمت کاکڑ بھی وزارت سے مستعفی ہو گئے جبکہ جے یو آئی نے بلوچستان اور گلگت اسمبلی میں حکومتی اتحاد سے الگ ہونے سے انکار کر دیا اسی طرح حال ہی میں مولانا شیرانی کو ملنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی چیرمین شپ سے بھی علحیدہ ہونے سے انکار کر دیا یہی صورت حال مولاناکی کشمیر کمیٹی کی سربراہی اور پالیمانی کمیٹیوں میں ان کی جماعت کی نما ئندگی کے حوالے سے بھی ہے جبکہ جے یو آئی ف نے حزب اختلاف کی نشستوںپر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے گویا مولانا کی جماعت اب ن لیگ کی طرح فرینڈلی اپوزیشن کا کام کرے گی شاید انہی عزائم کو دیکھتے ہوئے خود حکومتی ارکان اور وزیر اعلیٰ بلو چستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ جے یو آئی واپس حکومت کا حصہ بن جائے گی جبکہ نواز لیگ بھی اسے وقتی عمل قرار دے رہی ہے ادھر حکومت کی ایک اور اتحادی ایم کیو ایم نے بھی جارح وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیان کی وضاحت کے حوالے سے حکومت کو 10 دن کا الٹی میٹم دیدیا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب قدرے پچھلے قدموں پر آ گئی ہے جبکہ ق لیگ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں کے رابطوں نے اس جماعت میں بھی قدرے جان پڑ گئی ہے اور وہ اقتدار کی خواہش مند نظر آ رہی ہے اگرچہ اس کے پاس پارلیمنٹ میں واضح تعداد تو نہیں لیکن اتحادی حکومت میں وہ حصہ دار بن سکتی ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن اپنے موقف پر خلاف معمول ڈٹے رہے تو پاکستان کی سیاست میں90 کی دہائی والی لوٹا کریسی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے ۔فلحال کو ئی جماعت وسط مدتی انتخابات کے حق میں نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ایوان میں تبدیلی کی بات کر سکتے ہیں لیکن یہ ہوتا نظر نہیں آ رہا کہ پی پی حکومت ا پنی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کی خواہیش مند ہے اس سلسلے میں وہ کافی حد تک ’بیک فٹ‘ پر بھی جا سکتی ہے اور غیر مقبول فیصلے بھی کر سکتی ہے جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے تو وہ اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے اور حکومت کو غلطیوں پر غلطیاں کرنے کا موقع دے رہی ہے البتہ اس کی پنجاب کی حکومت بھی اتنی قابل رشک نہیں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی میںپیش کئے جانے والے مالیاتی بل آر جی ایس ٹی پر کون صحیح معنوں میں حمائت،کون مخالفت اور کون منافقت کی آڑ میں اپنی رائے کو محفوظ رکھتا ہے اس حوالے سے جے یو آئی ف ،مسلم لیگ ہم خیال اور ق لیگ زرداری کی پیپلز پارٹی کو خفت سے بچا سکتی ہے۔