URDUSKY || NETWORK

فیس بک پر ماہانہ 5 لاکھ فحش ویڈیوز و تصاویر اپ لوڈ

38

ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک اور اس کی ذیلی سوشل شیئرنگ ایپلی کیشنز پر ماہانہ 5 لاکھ فحش ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

فیس بک سمیت ان کی ذیلی سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام، میسینجر اور واٹس ایپ پر دنیا بھر میں یومیہ 16 ہزار سے زائد نامناسب و فحش ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’نیشنل براڈ کاسٹنگ کمپنی‘ (این بی سی) نے اپنی رپورٹ میں فیس بک پر فحش ویڈیوز و تصاویر کو ہٹانے والی ٹیم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں اپ لوڈ کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر ’روینج پورن‘ کا حصہ ہوتی ہیں اور انہیں متاثرہ شخص کا مخالف اپ لوڈ کرتا ہے۔

خواتین سب سے زیادہ روینج پورن کا نشانہ بنتی ہیں—فوٹو: نیشنل سویلنگ
خواتین سب سے زیادہ روینج پورن کا نشانہ بنتی ہیں—فوٹو: نیشنل سویلنگ

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عام طور پر فیس بک سمیت اس کی ذیلی شیئرنگ ایپلی کیشنز پر انتہائی نامناسب ویڈیوز اور تصاویر 25 سے 30 منٹ تک موجود رہتی ہیں، جس کے بعد مذکورہ پوسٹ کے خلاف لاتعداد شکایتیں ہونے کے بعد اسے ہٹایا جاتا ہے۔

فیس بک سے فحش ویڈیوز اور تصاویر ہٹانے کا کام کرنے والی ٹیم کے ارکان نے تسلیم کیا کہ فحش ویڈیوز اور تصاویر کی لاتعداد شکایات کے بعد انہیں ہٹایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا سے فحش ویڈیوز اور تصاویر ہٹانے کے کام کے لیے محض 25 افراد پر مشتمل عملہ دن رات کام کرتا ہے جو دنیا بھر سے 2 ارب سے زائد صارفین کا ڈیٹا دیکھتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ 25 افراد کے علاوہ فیس بک سمیت اس کی ذیلی شیئرنگ ایپلی کیشنز پر آرٹیفشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے تحت بھی فحش ویڈیوز اور تصاویر ہٹائی جاتی ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی عندیہ دیا گیا کہ بعض اوقات مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی فحش ویڈیوز اور تصاویر کو پہچاننے میں مشکل کا شکار نظر آتی ہے اور نامناسب ویڈیوز اور تصاویر ایک سے دوسری جگہ وائرل ہوتی رہتی ہیں اور انہیں اس وقت ہٹایا جاتا ہے جب وہ ہر کسی کے پاس پہنچ چکی ہوتی ہیں اور لوگ انہیں محفوظ کر چکے ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر کس خطے سے فحش ویڈیوز و تصاویر فیس بک یا اس کی ذیلی ایپلی کیشنز پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں، تاہم بتایا گیا کہ انتظامیہ کو یومیہ 16 ہزار جب کہ ماہانہ 5 لاکھ شکایتیں موصول ہوتی ہیں۔

رپورٹ پر تاحال فیس بک انتظامیہ نے کوئی رد عمل نہیں دیا—فوٹو: آئی اسٹاک
رپورٹ پر تاحال فیس بک انتظامیہ نے کوئی رد عمل نہیں دیا—فوٹو: آئی اسٹاک