لاہور بم دھماکوں کی زد میں لرز رہا ہے!!!!
کبھی کبھی حالات و واقعات بھی انسان کو اتنا بے بس کر دیتے ہیں کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا اور جب کبھی بے سرو سامانی کا یہ عالم دیکھنے کو ملتا ہے تو رگِ جان تک سنسنی دوڑ جاتی ہے ۔ہربا شعور انسان کبھی بھی بے یقینی اورجمود کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری نہیں رہنے دیتا مگر توقعات صرف دوسروں پہ لگا کر معاملات سے پہلو تہی کی جائے تو کبھی نہ کبھی حالات آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے تک لے آتے ہیں اور حالات کا ریلہ بہا کر لیجائے تو پھرباشعوری کیسی ؟ آج 12 مارچ کا دن اہل لاہور کے لیئے قیامت خیز حالات لیکر آیا ، آج دوپہر کینٹ کے علاقے آر اے بازار میں یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے ، اے پی پی کے مطابق خودکش حملوں میں 39 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کی دوپہر12 بج کر 48 منٹ پر لاہور کے آر اے بازار میں خودکش حملہ آور نے سیکورٹی فورسز کی گاڑی سے خود کو ٹکرا کر دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں گاری میں سوار10 سیکورٹی اہلکار موقع پر جاں بحق اور متعدد شدید زخمی ہوگئے۔ جبکہ رات کو لاہور کے ایک اور علاقے اقبال ٹاؤ ن میں چھ دھماکے ہوئے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق پہلا دھماکا علامہ اقبال ٹاؤن کے کشمیر بلاک میں تھانے کے عقب میں واقع مسجد کے سامنے واقع خالی گراؤنڈ میں ہوا ،ذرائع کے مطابق گراؤنڈ میں دبائے گئے دھماکا خیز مواد پھٹنے سے ہوا۔ دھماکا انتہائی شدید تھا ، جس کی آواز دور دور تک سنی گئی، قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے،دھماکے سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا، دکانیں بند ہوگئیں،بعض اطلاعات کے مطابق پہلے دھماکے تین افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، کچھ ہی دیر بعداسی علاقے میں پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن انعام الحق کے گھر کے باہر کھڑی کار میں دوسرا دھماکا ہوا، پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کاعملہ اس کا معائنہ کرہی رہا تھاکہ تھوڑی دور واقع ایدھی سینٹر کے قریب تیسرادھماکا ہوگیا ۔چوتھا دھماکا ہما بلاک میں اسپتال سے ملحق ایک پولیس اہلکار کے گھرکے گیراج میں ہوا ہے، اور اس دھماکے میں بھی بعض افراد زخمی ہوئے ہیں۔پولیس کے مطابق یہ کریکر کے دھماکے ہیں اور ان میں کسی قسم کے نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ پانچواں دھماکا اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک میں ہوا ہے ، پولیس نے اقبال ٹاؤن سے ایک مشکوک شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے ۔دھماکوں کے بعد لاہور کی تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ۔ اسی طرح ایک دھماکہ سمن آباد اور ایک شادمان کے علاقے میں ہوا ہے اور نہ معلوم یہ سلسلہ کب تک چلے گا——؟؟؟ پولیس کے مطابق یہ دھماکے شہر میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے کیے گئے ۔ اس موت کے منظر کو دیکھنے کے لیے واقعی جگرہ چاہیے ، جو کہ اب ہر فرد کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ اب مزید کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جان نہیں چھڑائی جاسکتی ۔ ہماری حکومت نے ہمارے لیے کونسے عملی اقدامات کیے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے آ پکو محفوظ سمجھیں؟ شدید مذمت کے بیان جاری ہوتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر خوف وہراس کے بادل چھٹتے دکھائی نہیں دیتے ۔ اس پریشانی کے عالم میں عوامی حلقے خوف کا شکار ہیں ، انکی خاموش نگاہیں سوالیہ نشان بنی ہوئیں ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے ؟ ہمیں کونسا مستقبل دے رہے ہو ؟ہمارا ملک ہمارے لیے کونسے نئے تحفے لیے ہوئے ہے ۔ان دہشتناک مناظرنے ماحول کوالمناک بنا دیا ہے ۔ کیا ہم اسے ایک گنا ہ اور سہی سمجھ کر بھول جائیں ؟دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی اپنے عروج پہ ہے جبکہ عام آدمی عدم تحفظ اور بے اعتمادی کا شکا ر ہے۔ کیا ہم اپنی جنگ لڑ رہے ہیں یا پھر پرائی آگ میں کود پڑے ہیں؟لگتا تو یہی ہے کہ اگر معاملات یونہی رہے تو پھر گھروں میں بیٹھے ہوئے یا پھر بستروں میں پڑے ہوئے عدم سدھار جائیں گے ۔اپنی تقدیر تو اپنے ہاتھوں میں ہے اور کس کا انتظار کر رہے ہیں کہ تحفظ دے ؟ اب سماجی روابط (Social contacts)کی ضرورت ہے جوکہ ایک مکمل اور مستحکم معاشرے کی تکمیل کر سکتا ہے ۔اب بنیادی سطحوں پر عوامی حلقوں میں بیداری کی کیفیت پیدا ہو جانی چاہیے ۔اپنی مدد آپ کے تحت گلی محلوں میں نوجوانوں کو بزرگوں کی زیرِنگرانی اتحاد بنانا پڑے گا جو کہ کسی بھی وقت برے حالات سے نپٹنے کے لیے تیار ہو۔بیرونی سازشوں نے اس ملک عزیز کے ایک بڑے حصے کو عدم استحکام کی آگ میں دھکیل دیا ہے جبکہ اغیار ہمیشہ سے یہی چاہتے آئے ہیں کہ یہ متزلزل اور بے یقینی کے حالا ت کا شکار رہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمرانوں نے جو پالیساں اپنائی ہوئی ہیں آیا انہوں نے اس کے رد عمل کے لیے بھی کچھ کیا ہے یا پھرسب کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔یہ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں آیا ہم خود بے حس ہیں اور بیدا ر نہیں ہونا چاہتے یا پھر اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پہ چھوڑنے کو تیار ہیں ۔اب اس قوم کے نوجوان جب تک اپنی مدد آپ کے تحت ہاتھ سے ہاتھ ملائے معاملات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اٹھ کھڑے نہیں ہو نگے تب تک حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ۔ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں۔ بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو کہاں تک چلو گے کنارے کنارے