ڈھلتی عمر کے ساتھ کھانے کی عادات میں تبدیلی ضروری
جدید ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ عمر رسیدگی کے ساتھ اگر کھانے پینے کی پرانی عادات کو تبدیل نہ کیا جائے تو یہ عمل پیچیدگیوں کا باعث بننے کے علاوہ موٹاپے کا سبب بھی بنتا ہے۔
کھانے پینے کی عادات میں خلل کئی امراض کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جواں عمری میں خواتین میں دبلا رہنے کی شعوری کوشش کی وجہ سے معدے کی کمزوری انجام کار anorexia کا باعث بنتی ہے۔ کئی خواتین میں یہ عارضہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ معالجین نے ڈھلتی عمر کے ساتھ کھانےپینے کی عادات سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریاں خاص طور پر مردوں میں کم اور عورتوں میں زیادہ دیکھی ہیں۔ بڑھاپے میں خوراک سے پیدا ہونے والی بعض جسمانی پیچیدگیوں کا کوئی شافی علاج موجود نہیں ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی مرد یا خاتون اپنی مناسب اور متوازن خوراک کا مناسب خیال نہیں رکھتا تو اس کے بدن میں موٹاپے کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر، شوگر، جگر اور دل کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔
جرمنی کے ماہر اور پیشہ ور نفسیات دانوں کی تنظیم Association of German Professional Psychologists کی ایک سینئر رکن اور ماہر نفسیات باربرا نائے (Barbara Ney) کا خیال ہے کہ عورتوں میں موٹاپے کا وہم بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ باربرا نائے کے مطابق خواتین وزن کم کرنے کی گولیاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں لیکن خوراک کی عادات تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے یہ گولیاں مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم بیماریوں سے بچاؤ اور تدارک کے قومی ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے تازے سروے کے مطابق جرمنی میں 65 سال سے زائد عمر کے 44 فیصد مرد اور خواتین زائد وزن کے حامل ہیں۔ ایسے بزرگ شہریوں میں سے صرف ایک فیصد وہ لوگ ہیں جو نارمل سے کم وزن رکھتے ہیں۔ اس مناسبت سے نفسیات دان باربرا نائے کا کہنا ہے کہ فربہ افراد میں وزن کم کرنے والی غیر صحت مندانہ خوراک ہی اصل میں غذائی عادات میں بے قاعدگیوں یا ایٹنگ Eating Disorders کا سبب بنتی ہے۔ نائے کا یہ بھی خیال ہے کہ بوڑھے افراد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ صحت مندانہ خوراک کی جانب وہ کم ہی راغب ہوتے ہیں۔
ماہر نفسیات باربرا نائے کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے عمر رسیدگی سے پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین کے سوسائٹی (German Society of Gerontopsychiatry and Gerontopsychotherapy) کے نائب صدر مارٹن ہاؤپٹ (Martin Haupt) کا کہنا ہے کہ بڑھاپے میں حس ذائقہ میں کمی پیدا ہونے کے علاوہ پانی کی طلب کم ہو جاتی ہے۔ مارٹن ہاؤپٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بوڑھوں کے اس نفسیاتی عارضے کو وقتاً فوقتاً لاحق ہونے والی بیماریاں دوچند کر دیتی ہیں اور اس سے جسم کمزور ہو جاتا ہے اور یہ بات غیر صحت مندانہ خوراک کی راہ ہموار کرتی ہے۔
مارٹن ہاؤپٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اشتہاری کمپنیوں کواب ایک نیا ٹارگٹ گروپ مل گیا ہے اور وہ ایسے صارفین کے لیے وزن کم کرنے میں معاون یا دوسری اعصاب کو قوت بخشنے والی گولیوں اور مشروبات وغیرہ کی تشہیر کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی ادویات اور غذائی مصنوعات بنانے والی بڑی کمپنیوں کو ایسے کمرشل بھی بنانے چاہییں جو ڈھلتی عمر کے افراد یا بوڑھے لوگوں کو متوازن خوراک کی جانب راغب کر سکیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت مفید عمل ہو گا۔
مارٹن ہاؤپٹ نے ایک مثبت پہلو روشناس کرواتے ہوئے بتایا کہ جرمنی میں بھی بوڑھے لوگوں کی غذائی عادات میں نقائص پائے جاتے ہیں لیکن یہ عمل بہت بڑے پیمانے پر نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ جرمنی میں بزرگ شہریوں میں متوازن خوراک سے متعلق کافی زیادہ شعور ہے۔ ہاؤپٹ کے مطابق جرمنی میں ریٹائرمنٹ کے بعد وزن کا بڑھنا عام طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی بڑی وجہ سینئر شہریوں کے روزمرہ کے معمولات ہوتے ہیں۔ اس جرمن ماہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مردوں میں دور شباب کے مختلف کھانوں کی لذت کے احساس کا دوبارہ پیدا ہونا بھی ان کے وزن میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ یہ رویہ عورتوں میں خاصا کم دیکھا گیا ہے لیکن وہ بھی غیر دانستہ طور پر معمول سے زیادہ کھانے کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہو جاتی ہیں۔
DWD