آبادی اور ترقی میں نوجوانوں کا کردار
تحریر: قاسم علی دیپال پور
نوجوان کسی بھی قوم کا سرما یہ افتخار ہوتے ہیں ان کے مضبوط اور توانا بازو جہاں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں وہاں ان کی عقابی نظر اور انقلابی سوچ قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود میں بھی مرکزی کردار ادا کرتی ہے دنیا کی تحریک پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہمیں تمام تر انقلابات زمانے کے پیچھے یہی یو تھ فورس کا فرما نظر آتی ہے چین اور جاپان اس کی دو بڑی واضح مثالیں ہیں جن کا عرصہ آزادی تقریباً پاکستان جتنا ہی ہے لیکن اس کے نوجوان کے لا زوال عزم و ولولے کے باعث دونوں مما لک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے خصوصاً جب دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شما اور ناگا سا قی پر ایٹم بم گرا کر جاپان کی کمر توڑ دی گئی تو جاپانیوں نے عزم کیا کہ جاپان میں اس وقت تک وزیراعظم ہاؤس نہیں بنے گا جب تک ہر جاپانی کے پاس اپنا گھر نہیں ہو گا اسی جواں عزم نے آج جاپان کو ایک قابل رشک مقام تک پہنچا دیا ہے دوسری طرف چین جسے پچاس کی دہائی میں ایک جاہل اور اجڈ ملک سمجھا جاتا تھا آج نہ صرف دنیا کی مضبوط ترین معاشی قوت بن کر سامنے آیا ہے بلکہ اسے اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار بھی حاصل ہے ۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری مملکت خدا داد ہے جس کے پاس وافر مقدار میں یوتھ فورس موجود ہے جو نہ صرف جذبہ ایمانی سے سرشار ہے بلکہ متعدد بار دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا چکی ہے اور چونکہ یہ ازلی و ابدی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور آبادی نوجوانوں کی ہی مرہون منت ہوا کرتی ہے لہذا امت مسلمہ اور خصوصاً عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور پاکستان کے نوجوان سے خائف دشمنان اسلام ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیبل ،انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے ہمارے نوجوان کے کردار کو گندا کرنے میں مصروف عمل ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے قیمتی اثاثہ نوجوان کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور بڑھتی ہوئی آ بادی کے مسائل کے حل اور پاکستان کو حقیقی معاونوں میں ایک ترقی یا فتہ بنانے کیلئے چند ہنگامی اور انقلابی کا فوری آغاز کرے جو کہ موجود صورت حال میں درج ذیل ہو سکتے ہیں ۔
مضبوط خاندانی نظام : بارہا تجربات سے یہ بات ثا بت شدہ ہے کہ ایک مضبوط خاندان ہی ایک مضبوط قوم کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے ہمیں مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی نکالی اور عریانی و فحاشی کے سیلاب کو روکنے کیلئے اپنی شاندار خاندانی روایات کو زندہ کرنا ہو گا کیونکہ یہ کسی بھی ملک کی فلاح و ترقی کا پہلا زینہ ہوتا ہے ۔
سائنس اور ٹیکنا لوجی میں مہارت :دور جدید میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے صرف نظر کر کے کوئی قوم ترقی کے بام عروج تک نہیں پہنچ سکتی ۔لہذا ہمیں فوری طور پر اپنے تعلیمی بجٹ جو کہ صرف 2%ہے میں خا طر خواہ اضافہ کرنا ہو گا ہمارے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ ہمارے ازلی دشمن اسرائیل کی شرح خواندگی تقریباً 100%ہے دوسری جانب ہمارے تعلیمی انحطاط کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی دنیا میں کل پانچ سو یو یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں ان کی تعداد 5758ہے اور دنیا کی 200بڑی یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہ ہے جو کہ اسلام کے قلعہ پاکستان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
3: سرما یہ دارانہ نظام سے بغاوت :پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا دیو اپنی موت آپ مر رہا ہے اس کے باعث نام نہاد سپر پاورز زوال پذیر ہیں ۔لہذا ہمیں فوری طور پر پوری قوم کو اسلام کی عادلانہ معاشی نظام کی طرف راغب کرنا ہو گا ۔جو کہ موجود نیا کیلئے تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے حریصانہ چکر سے نکل کر انتہائی کم منافع اور قناعت سے بھر پور زندگی نہ صرف یہ کہ ہمیں سکون مہیا کرے گی بلکہ فلاح بہبود و ترقی میں بھی معین و مدد گار ثابت ہو گی جسکی ایک مثال چین بھی ہے جو کہ 100ڈالر کی چیز صرف ایک ڈالر میں تیار کر کے پوری دنیا میں سپلائی کر رہا ہے دنیا حیران ہے کہ یہ کیسی قوم ہے جو منافع خوری اور حرص و ہوس سے کو سوں دور ہے اور اسی خوبی کے باعث ماہرین یہ کہ رہے ہیں کہ چین 2025ءمیں امریکہ کی جگہ لے لے گا ہماری تو بنیاد ہی سادگی اور قناعت پر رکھی گئی ہے ۔
حضور ﷺ نے فرما یا کہ مال کی حرص ہر برائی کی جڑ ہے ۔آ ج جس کا عملی نمونہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی کیا ہم اس سرمایہ داریت کے بتے کو نہیں توڑیں گے ؟ یقیناً تو ڑیں گے اور ہمارا یہی اقدام ہماری ترقی اور بہبود کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہمیں با عزت اور با وقار مقام دلائے گا ۔