URDUSKY || NETWORK

کراچی میں ابر رحمت کا نیا سلسلہ

88

خلیج بنگال سے اؔنے والے ہوا کے کم دباؤ کے باعث کراچی، حیدرآباد، میر پورخاص، بدین، سکھر، لاڑکانہ اور ٹھٹھہ سمیت سندھ بھی میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گرج چمک کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں موسلا دھار بارش کا یہ سلسلہ جمعے کی دوپہر تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

نشیبی علاقے زیر آب آنے سے مکینوں کو سخت مشکلات کا سامنا—تصویر ڈان نیوز
نشیبی علاقے زیر آب آنے سے مکینوں کو سخت مشکلات کا سامنا—تصویر ڈان نیوز

شہر میں گزشتہ روز سب سے زیادہ بارش نارتھ کراچی میں 55 ملی میٹر، صدر اور جناح ٹرمینل میں 42 ملی میٹر، ماڈل آبزرویٹری میں 38 ملی میٹر، لانڈھی، کیماڑی، سرجانی میں 32 ملی میٹر، اولڈ سٹی ایریا 29 ملی میٹر پی ایف بیس پر 27 ملی میٹر، ناظم آباد میں 26 جبکہ مسرور بیس پر 2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بارش کے باعث شہر کے متعدد علاقوں میں بجلی کا منقطع ہونے والا سلسلہ اگلے روز تک پوری طرح بحال نہ ہوسکا جبکہ کراچی میں بجلی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ بن قاسم، بلدیہ، کورنگی اور جوہر کے کچھ مقامات پر حفاظتی طور پر بجلی بند کی گئی۔

تاہم کمپنی نے دعویٰ کیا کہ شہر میں بجلی کی فراہمی معمول کے مطابق جاری ہے اور بارش کے باعث بجلی کی بندش سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بھی فراہمی بحال کردی گئی اور اس دوران چند مقامات پر پانی جمع ہونے کے باعث بحالی کے کام میں تاخیر پیش آئی۔

تاہم کچھ علاقوں میں صورتحال اس کے برعکس رہی اور ملیر کے علاقے کھوکھراپار، غازی ٹاؤن، ملت ٹاؤن، گلش معمار، شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی، سرجانی ٹاؤن اور کورنگی ڈیفنس میں مکمل طور پر بجلی بحال نہیں ہوسکی جبکہ کچھ علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اس کے علاوہ گزشتہ بارشوں کے اثرات سے پوری طرح نہ نکلنے والے علاقوں میں ساون کے نئے سلسلے نے مشکلات مزید بڑھا دیں، جس میں سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا جبکہ گٹر ابل پڑے۔

گزشتہ بارشوں کے اثرات

خیال رہے کہ ایک ماہ کے دوران کراچی میں مون سون بارشوں کے 2 اسپیل آچکے ہیں جبکہ تیسرے اسپیل کا آغاز (28 اگست) سے ہوا ۔

شہر قائد میں عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل ہونے والی طوفانی بارش کے بعد شہر کا نظام تہہ و بالا ہوگیا تھا، جس میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل، سیوریج کا نظام ناکارہ ہوگیا تھا۔

شہر میں وفاقی، صوبائی حکومت کی جانب سے نالوں کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا دعویٰ بھی کیا جاتا رہا لیکن اس کچرے کو پھینکنے کے حوالے سے بھی یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ کچرا ڈمپنگ سائٹس کے بجائے شہر میں ہی مختلف مقامات پر ڈال دیا گیا۔

گزشتہ بارشوں کے بعد کی شہر میں جا بجا مقامات پر موجود موجود کچرے کے ڈھیروں اور کھڑے گندے پانی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا تھا جبکہ عیدالاضحی میں قربانی کے بعد بھی مکمل طور پر صفائی نہ ہوسکی تھی۔

جس کے نتیجے میں وبائی امراض پھوٹ پڑے اور 26 اگست تک سندھ حکومت نے صرف کانگو وائرس سے شہر میں 14 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

اس کے علاوہ بارشوں کے بعد مچھروں کی بہتات کے باعث شہر میں ڈینگی بخار میں بھی بڑی تعداد مبتلا پوچکی جبکہ نگلیریا کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔

علاوہ ازیں شہر میں مکھیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد پیٹ کے امراض میں مبتلا تھی۔

احتیاطی تدایر

ماہرین صحت کے مطابق شہری بارشوں کے موسم میں وبائی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے باہر سے کھانے پینے کی کھلی اشیا خرید کر استعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھروں میں پانی ابال کر پینے اور مکھیوں اور مچھروں کو دور رکھنے کے طریقے اختیار کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔