URDUSKY || NETWORK

فریال تالپور اڈیالہ جیل

47

قومی احتساب بیورو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور اتوار اور پیر کی درمیانی شب پولی کلینک ہسپتال سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا جس پر انہوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔

جعلی اکاؤنٹس کیس میں قومی احتساب بیورو(نیب) نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور کو 14جون کو گرفتار کیا تھا اور وہ اس وقت سے حراست میں ہیں۔

فریال تالپور خرابی صحت کے سبب اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں زیر علاج تھیں اور ان کے وارڈ کو سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

گرفتاری سے قبل ہسپتال انتظامیہ نے ان کی طبیعت کو غیرتسلی بخش قرار دیا تھا اور ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تھا کہ دل کے عارضے میں مبتلا فریال تالپور کو مزید دیکھ بھال کی ضرورت ہے البتہ نیب اہل کاروں نے ڈاکٹروں کے مشورے کو ماننے سے انکار کردیا۔

ذرائع کے مطابق جیل منتقلی سے قبل اسپتال میں ہونے کے باوجود نیب اہل کاروں نے خونی رشتوں کو میڈم فریال تالپور کی تیمارداری سے بھی روک دیا تھا۔

بعدازاں انہیں اتوار اور پیر کی درمیانی شب اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا جس پر فریال تالپور نے شدید احتجاج کیا۔

فریال تالپور نے رات گئے گرفتاری پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ ڈاکٹرز نے مجھے ہسپتال بھیجنے کا مشورہ دیا اور یہ مجھے اڈیالہ لے جا رہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ اسلام ہے، ان بیوی بچے والوں کو شرم آنی چاہیے کہ وہ رات کے 12بجے ایک عورت کو یہاں سے نکال رہے ہیں۔

فریال تالپور نے کہا کہ نیب کا یہ اقدام مکمل طور پر غیرقانونی ہے اور خدا ان کو پوچھے گا، کیا یہ ان کا انصاف ہے؟ کیا ایک بیمار مریض کے ساتھ اس طرح کا رویہ روا رکھا جاتا ہے؟۔

‘فریال تالپور کی جیل منتقلی انتقامی سیاست کا حصہ ہے’

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فریال تالپور کو جیل منتقل کیے جانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے سوال کیا کہ کون سا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز کے برخلاف ایک قیدی خاتون کو رات 12بجے جیل منتقل کردیا جائے؟۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ عید کے موقع پر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فریال تالپور کو جیل منتقل کیا جانا انتقامی سیاست کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان میں قوانین کے ساتھ ہماری تہذیب اور روایات کی بھی دھجیاں اڑادی گئیں ہیں اور مسلسل عدالتوں کا سامنا کرنے والی بیمار قیدی خاتون کی یوں تذلیل قابل افسوس ہے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ یہ وقت کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کشمیر کی حساس صورت حال کے موقع پر انتقامی سیاست میں مصروف ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی فریال تالپور کو ڈاکٹروں کی تجویز کے برعکس آدھی رات کو جیل منتقل کرنے کے عمل کو قابل مذمت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ فریال تالپور ہر پیشی پرعدالت میں حاضر ہوتی رہیں لیکن اس کے باوجود آدھی رات کو انہیں ہسپتال سے جیل میں ڈالنا ظلم ہے۔

واضح رہے کہ فریال تالپور کی گرفتاری سے چند دن قبل 10جون کو ان کے بھائی اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی نیب نے گرفتار کر لیا تھا۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

بعدازاں نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن، شبیر بمباٹ، حسن میمن اور جبار میمن کو گرفتار کر کے 14 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا، ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ان ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔

احتساب عدالت کے رجسڑار نے بینکنگ کورٹ سے منتقل کئے جانے والے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اسے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کیا تھا۔