الحمد للّہ والصلاۃ والسلام عَلی أشرف الأنبیاء والمُرسلین نبینا محمد و علی آلہ وسلم ،
پچھلے چند سالوں سے ہماری امت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک "”” دن منانے””” کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اسے بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، جبکہ اس رسم اور اس طرح کی دوسری غیر اسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دین سے جہالت اور دین کے مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،
جی میں یہاں اس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے "”” ویلنٹائن ڈے "”” اور "”” عید محبت "”” کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کررنے کے لیے ایک خاص دن "”” چودہ فروری "”” مقرر ہے ، جس دن میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے ہیں ،
جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، آغاز بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم ،
ٹھہریے ، "”” بنیاد پرستی "”” ، "”” دقیانوسیت "”” ، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق "”” دہشت گردی "”” کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ، میں نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین میں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس "”” ویلنٹائن ڈے "”” یا "”” عید محبت "”” کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ، اور یہ تاریخ میری نہیں ان کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ،
علم و حق کی کیسی مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں اس کی اصلیت و تاریخ بھی ایک نہیں جانتے ، یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس "”” بل نتبع ما الفینا علیہ آباونا ::: بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے بڑوں کو پایا "”” کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ,
جی تو بات تھی "”” ویلنٹائن ڈے "”” یا "”” عید محبت "”” کی اصلیت اور تاریخ کی ، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، ان کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،
::::: (1) ::::: کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سے معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، کفر و شرک کا ایک لامتناہی سللسہ تھا ، ایسے میں رومیوں کے ایک مذہبی راہنما "”” ویلنٹائن "”” نے عیسائت قبول کر لی ، پس حکومت روم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ اس کو قتل کر دیا جاتا تا کہ ان کے آباو ا جداد کا اور حکومتی دین محفوظ رہے ، پس "”” ویلنٹائن””” کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں "”” ویلنٹائن””” کے قتل کا دن "”” منانا "”” شروع کیا ، تا کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا جائے ، ( وہ اظہار کیسے کیا جاتا تھا اس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا )
::::: ( 2) ::::: کہا گیا ، 14 فروری رومیوں کی ایک مقدس معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) "”” یونو یا جونو "”” کا دن تھا ، اس معبودہ کے بارے میں رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کے سب معبودوں کی ملکہ ہے اور اس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اس معبودہ کا دن منانا عورتوں ، محبت اور شادی یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص جان کر "””منایا "”” جانے لگا ،
::::: (3) ::::: رومیوں کی ایک اور معبودہ "”” لیسیوس "”” نامی بھی تھی ، جو ایک مونث بھڑیا تھی ، رومیوں کا عقیدہ تھا کہ اس "”” لیسیوس "”” نے روم کے دونوں بانیوں Rumulusاور Remusکو ان کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ، پس اس 14 فروری کو انہوں نے "”” محبت "”” نامی عبادت گاہ میں اس بھیڑیا معبودہ کا دن "”” منانا””” شروع کیا ، اس عبادت گاہ کو "”” محبت "”” نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے کفریہ عقیدے کے مطابق ان کی یہ بھڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی
::::: ( 4) ::::: قدیم رومی بادشاہ کلاڈیس 2 نے رومی مردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، کلاڈیس نے جب اس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے یہ شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اسوقت کے روم کے ایک بڑے پادری "”” ویلنٹائن "”” نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی ویلنٹائن کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ ویلنٹائن محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ،
::::: ( 5) ::::: قتل کیے جانے سے پہلے ویلنٹائن اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران ویلنٹائن ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو ویلنٹائن نے اسے ایک محبت نامہ دیا ،
:::: ( 6 ) ::::: قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک میلے یا عید کے موقع پر جسے””” Lupercalia لیوپیرکالیا””” کہا جاتا تھا ،
یہ عید بھی ایک جھوٹے باطل معبود "”” Lupercus لیوپرکاس "”” کی تعظیم کے لیے منائی جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی عید Lupercalia تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی جیسے تعلق کے ساتھ رہتا ،
اس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ سے فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اسی کیفیت تک محدود نہیں جس کی تعلیم اس عید اور اس کی کہانی اور اس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
1969 عیسوئی تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اُس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے "”” منایا "”” جاتا رہا ، اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تک اسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا
::::: (7 ) ::::: پندرھویں صدی کے آغاز میں "”” اگن کورٹ Agincourt "””کی جنگ میں ایک فرانسی ریاست اورلینز کا نواب "”” Duke of Orleans "”” انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اس کی شاعری کو جدید دور کے "”” ویلنٹائنز "”” کا آغاز سمجھا جاتا ہے ،
::::: ( 8 ) ::::: اس کے تقریبا دو سو سال بعد "”” ویلنٹائن کے دن "”” پر پھول وغیرہ دینے کی رسم کا یوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم Henry IV کی ایک بیٹی نے "”” پادری ویلنٹائن کا دن "”” مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ،
::::: ( 9 ) ::::: انیسویں صدی کے درمیان میں اس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے ان کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور ان کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،
مسلمانو، اس دن کی نسبت ، اور اس کی اصلییت ، ان مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، بہر صورت اس کی اصلییت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اس دن کو غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان ایک "”” عید "”” کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل معاشرہ بھی اس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ،
اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دن میں کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام تو بہت بلند و برتر ہے ، عیسائی کنیسا نے بھی اس ویلنٹائن دن میں ہونے والی حرافات کو کسی دین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمھتے ہوئے اس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ، لیکن افسوس ، مسلمانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اس غیر اسلامی حرام دن منانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ اتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ،
اس عید یا دن کو منانے میں اب ہمارے مسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
اس کفر و شرک اور بے حیائی اور بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن اور اس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلییت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ ایمان والوں کے لیے اس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے وہ اپنے ایمان کی خبر لے ،
::::::: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے((((( لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ::: ایمان والے ، ایمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست ( راہبر ، راہنما ، پیشوا ) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے ) کوئی بچاو کرنا چاہو تو (صرف اس صورت میں اسیا کیا جا سکتا ہے ) ، اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب ) سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے ( پس اسکے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے ))))) سورت آل عمران / آیت 28
::::::: اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا ((((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ ::: اے ایمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست ( راہبر ، راہنما ،پیشوا ) نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں ) اور تم لوگوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا ))))) سورت المائدہ / آیت 51
یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے ، اور اللہ توتعالیٰ کا فرمان ہے ((((( وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ ::: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کچھ اور کو دین چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں ہو گا ))))) سورت آل عمران / آیت 85
::::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ((((( مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ))))) سُنن أبو داؤد /حدیث 4025 /کتاب اللباس / باب 4 لبس الشھرۃ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
جی یہ سمجھ میری نہیں ، انبیاء کے بعد سب سے پاک ہستیوں کی ہے ، جنہیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہا جاتا ہے ، ملاحظہ فرمایے ،
::::::: دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((((( أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم ::: اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں (کے دنوں ) میں دور رہو ))))) سنن البیہقی الکبُریٰ ، کتاب الجزیۃ ، باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر ان کی عیدوں کے دنوں میں ان سے دور رہا کرو ،
::::::: چوتھے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو ایک دن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما ہذہ ؟ ::: یہ کیا ہے ؟ ))))) بتایا گیا "” اے امیر المؤمنین یہ نیروز (تہوار )کا دن ہے (اور یہ اس تہوار کا تحفہ ہے ) "”” فرمایا ((((( فاصنعوا کل یوم نیروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اسامہ اس روایت کے ایک راوی فرماتے ہیں کہ "”” کرہ أن یقول نیروز ::: (امیر المؤمنین )علی رضی اللہ عنہ نے اس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے "”” سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح
غور فرمایے ، کہ علی رضی اللہ عنہ نے کسی دن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دیا ہوا تھا ، اور یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
آج ہم انہی شخصیات سے محبت اور ان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، ایمان و عمل ان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، انا للہ و انا الیہ راجعون،
::::::: عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ((((( مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبھ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ،
ایسی روایات کو حُکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کوئی خبر اس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ،
اس ویلنٹائن کے دن ، یا عیدء ِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اس دن ، اس نسبت سے اور اس کو منانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ((((( اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے ))))) سورت الا سراء َ ، ( بنی اسرائیل )/آیت ،27 ،
کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
جو لوگ اس عیدء ِ محبت کو گوارہ کرتے ہیںاور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں یہ شعر سناتا چلوں
::: إن الزنا دین فإن أقرضتہ ::: کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم
زنا قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا تو یاد رکھو ::: اس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی
من یَزنی یُزنی ولَو بجدارہ ::: إن کنت یا ہذا لبیباً فافہم
جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے ::: اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ ( اور ایسے کاموں سے باز رہو )
اللہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دین دنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے، ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد ، تعصب اور منطق و فلسفے کا شکار نہ ہوں اور حق پہچانیں ، قبول کریں اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور اسی پر یوم قیامت ہمارا حشر ہو ، و السلام علیکم۔
پچھلے چند سالوں سے ہماری امت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک "”” دن منانے””” کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اسے بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، جبکہ اس رسم اور اس طرح کی دوسری غیر اسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دین سے جہالت اور دین کے مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،
جی میں یہاں اس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے "”” ویلنٹائن ڈے "”” اور "”” عید محبت "”” کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کررنے کے لیے ایک خاص دن "”” چودہ فروری "”” مقرر ہے ، جس دن میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے ہیں ،
جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، آغاز بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم ،
ٹھہریے ، "”” بنیاد پرستی "”” ، "”” دقیانوسیت "”” ، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق "”” دہشت گردی "”” کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ، میں نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین میں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس "”” ویلنٹائن ڈے "”” یا "”” عید محبت "”” کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ، اور یہ تاریخ میری نہیں ان کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ،
علم و حق کی کیسی مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں اس کی اصلیت و تاریخ بھی ایک نہیں جانتے ، یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس "”” بل نتبع ما الفینا علیہ آباونا ::: بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے بڑوں کو پایا "”” کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ,
جی تو بات تھی "”” ویلنٹائن ڈے "”” یا "”” عید محبت "”” کی اصلیت اور تاریخ کی ، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، ان کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،
::::: (1) ::::: کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سے معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، کفر و شرک کا ایک لامتناہی سللسہ تھا ، ایسے میں رومیوں کے ایک مذہبی راہنما "”” ویلنٹائن "”” نے عیسائت قبول کر لی ، پس حکومت روم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ اس کو قتل کر دیا جاتا تا کہ ان کے آباو ا جداد کا اور حکومتی دین محفوظ رہے ، پس "”” ویلنٹائن””” کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں "”” ویلنٹائن””” کے قتل کا دن "”” منانا "”” شروع کیا ، تا کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا جائے ، ( وہ اظہار کیسے کیا جاتا تھا اس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا )
::::: ( 2) ::::: کہا گیا ، 14 فروری رومیوں کی ایک مقدس معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) "”” یونو یا جونو "”” کا دن تھا ، اس معبودہ کے بارے میں رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کے سب معبودوں کی ملکہ ہے اور اس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اس معبودہ کا دن منانا عورتوں ، محبت اور شادی یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص جان کر "””منایا "”” جانے لگا ،
::::: (3) ::::: رومیوں کی ایک اور معبودہ "”” لیسیوس "”” نامی بھی تھی ، جو ایک مونث بھڑیا تھی ، رومیوں کا عقیدہ تھا کہ اس "”” لیسیوس "”” نے روم کے دونوں بانیوں Rumulusاور Remusکو ان کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ، پس اس 14 فروری کو انہوں نے "”” محبت "”” نامی عبادت گاہ میں اس بھیڑیا معبودہ کا دن "”” منانا””” شروع کیا ، اس عبادت گاہ کو "”” محبت "”” نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے کفریہ عقیدے کے مطابق ان کی یہ بھڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی
::::: ( 4) ::::: قدیم رومی بادشاہ کلاڈیس 2 نے رومی مردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، کلاڈیس نے جب اس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے یہ شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اسوقت کے روم کے ایک بڑے پادری "”” ویلنٹائن "”” نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی ویلنٹائن کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ ویلنٹائن محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ،
::::: ( 5) ::::: قتل کیے جانے سے پہلے ویلنٹائن اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران ویلنٹائن ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو ویلنٹائن نے اسے ایک محبت نامہ دیا ،
:::: ( 6 ) ::::: قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک میلے یا عید کے موقع پر جسے””” Lupercalia لیوپیرکالیا””” کہا جاتا تھا ،
یہ عید بھی ایک جھوٹے باطل معبود "”” Lupercus لیوپرکاس "”” کی تعظیم کے لیے منائی جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی عید Lupercalia تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی جیسے تعلق کے ساتھ رہتا ،
اس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ سے فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اسی کیفیت تک محدود نہیں جس کی تعلیم اس عید اور اس کی کہانی اور اس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
1969 عیسوئی تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اُس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے "”” منایا "”” جاتا رہا ، اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تک اسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا
::::: (7 ) ::::: پندرھویں صدی کے آغاز میں "”” اگن کورٹ Agincourt "””کی جنگ میں ایک فرانسی ریاست اورلینز کا نواب "”” Duke of Orleans "”” انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اس کی شاعری کو جدید دور کے "”” ویلنٹائنز "”” کا آغاز سمجھا جاتا ہے ،
::::: ( 8 ) ::::: اس کے تقریبا دو سو سال بعد "”” ویلنٹائن کے دن "”” پر پھول وغیرہ دینے کی رسم کا یوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم Henry IV کی ایک بیٹی نے "”” پادری ویلنٹائن کا دن "”” مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ،
::::: ( 9 ) ::::: انیسویں صدی کے درمیان میں اس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے ان کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور ان کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،
مسلمانو، اس دن کی نسبت ، اور اس کی اصلییت ، ان مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، بہر صورت اس کی اصلییت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اس دن کو غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان ایک "”” عید "”” کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل معاشرہ بھی اس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ،
اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دن میں کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام تو بہت بلند و برتر ہے ، عیسائی کنیسا نے بھی اس ویلنٹائن دن میں ہونے والی حرافات کو کسی دین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمھتے ہوئے اس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ، لیکن افسوس ، مسلمانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اس غیر اسلامی حرام دن منانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ اتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ،
اس عید یا دن کو منانے میں اب ہمارے مسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
اس کفر و شرک اور بے حیائی اور بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن اور اس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلییت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ ایمان والوں کے لیے اس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے وہ اپنے ایمان کی خبر لے ،
::::::: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے((((( لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ::: ایمان والے ، ایمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست ( راہبر ، راہنما ، پیشوا ) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے ) کوئی بچاو کرنا چاہو تو (صرف اس صورت میں اسیا کیا جا سکتا ہے ) ، اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب ) سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے ( پس اسکے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے ))))) سورت آل عمران / آیت 28
::::::: اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا ((((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ ::: اے ایمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست ( راہبر ، راہنما ،پیشوا ) نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں ) اور تم لوگوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا ))))) سورت المائدہ / آیت 51
یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے ، اور اللہ توتعالیٰ کا فرمان ہے ((((( وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ ::: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کچھ اور کو دین چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں ہو گا ))))) سورت آل عمران / آیت 85
::::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ((((( مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ))))) سُنن أبو داؤد /حدیث 4025 /کتاب اللباس / باب 4 لبس الشھرۃ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
جی یہ سمجھ میری نہیں ، انبیاء کے بعد سب سے پاک ہستیوں کی ہے ، جنہیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہا جاتا ہے ، ملاحظہ فرمایے ،
::::::: دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((((( أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم ::: اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں (کے دنوں ) میں دور رہو ))))) سنن البیہقی الکبُریٰ ، کتاب الجزیۃ ، باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر ان کی عیدوں کے دنوں میں ان سے دور رہا کرو ،
::::::: چوتھے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو ایک دن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما ہذہ ؟ ::: یہ کیا ہے ؟ ))))) بتایا گیا "” اے امیر المؤمنین یہ نیروز (تہوار )کا دن ہے (اور یہ اس تہوار کا تحفہ ہے ) "”” فرمایا ((((( فاصنعوا کل یوم نیروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اسامہ اس روایت کے ایک راوی فرماتے ہیں کہ "”” کرہ أن یقول نیروز ::: (امیر المؤمنین )علی رضی اللہ عنہ نے اس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے "”” سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح
غور فرمایے ، کہ علی رضی اللہ عنہ نے کسی دن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دیا ہوا تھا ، اور یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
آج ہم انہی شخصیات سے محبت اور ان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، ایمان و عمل ان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، انا للہ و انا الیہ راجعون،
::::::: عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ((((( مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبھ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ،
ایسی روایات کو حُکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کوئی خبر اس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ،
اس ویلنٹائن کے دن ، یا عیدء ِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اس دن ، اس نسبت سے اور اس کو منانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ((((( اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے ))))) سورت الا سراء َ ، ( بنی اسرائیل )/آیت ،27 ،
کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
جو لوگ اس عیدء ِ محبت کو گوارہ کرتے ہیںاور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں یہ شعر سناتا چلوں
::: إن الزنا دین فإن أقرضتہ ::: کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم
زنا قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا تو یاد رکھو ::: اس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی
من یَزنی یُزنی ولَو بجدارہ ::: إن کنت یا ہذا لبیباً فافہم
جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے ::: اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ ( اور ایسے کاموں سے باز رہو )
اللہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دین دنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے، ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد ، تعصب اور منطق و فلسفے کا شکار نہ ہوں اور حق پہچانیں ، قبول کریں اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور اسی پر یوم قیامت ہمارا حشر ہو ، و السلام علیکم۔
Related Posts
بشکریہ پاک نیٹ