URDUSKY || NETWORK

محبت رسول اللہﷺ اور اسکے تقاضے

120
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبت رسول اللہﷺ اور اسکے تقاضے
تحریر: محمد افضل قادری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری کی کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، صفہ نمبر 9 پر حدیث نبوی ہے کہ: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
ایمان کالغوی معنی ہے: تصدیق کرنا، کسی کو بے خوف کرنا۔ اور ایمان کا شرعی معنیٰ ہے: رسول اللہﷺ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے، اُس کی دل سے تصدیق کرنا اور اگر اکراہ اور اضطرار کی حالت نہ ہو تو زبان سے اظہار کرنا۔ کفر ایمان کی ضد ہے۔ کفر کا لغوی معنی ہے: چھپانا، انکار کرنا، ناشکری کرنا وغیرہ۔ اور کفر کا شرعی معنیٰ ہے: ضروریا ت دین (یعنی وہ دینی اُمور جنہیں خاص وعام جانتے ہوں کہ یہ دین میں سے ہیں۔) میں سے کسی ایک چیز کا انکار کر دینا۔
تو درج بالا حدیث نبوی میں محبت نبوی کو ایمان کیلئے اسا س یعنی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جیسے وضو نماز کے لئے شرط ہے۔ یعنی اگر کوئی وضو پر قادر ہونے کے باوجود بغیر وضو کیے نماز پڑھے تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی، ایسے ہی محبت نبوی ایمان کے لئے بمنزلہ وضو کے ہے بلکہ وضو سے بھی زیادہ اہم ہے۔ بعض حالات میں وضو کی بجائے تیمم سے نمازادا ہو جاتی ہے، لیکن محبت رسول کے بغیر ایمان کے قبول ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حدیث مبارکہ میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ صرف محبت نبوی کافی نہیں بلکہ مسلمان کیلئے لازم ہے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمدﷺ کی محبت دنیا کی ہر پیاری چیز حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہو۔ جیسا کہ قرآن مجید پارہ نمبر 21، سورہ احزاب آیت نمبر 6 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’نبی (ﷺ) مسلمانوں کے، اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہیں۔‘‘
نیز قرآن مجید پارہ نمبر 10، سورہ توبہ، آیت نمبر 24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’فرما دو! (اے نبی اکرمﷺ) اگر تمہیں تمہارے باپ دادے، تمہارے بیٹے پوتے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے مال جو تم نے محنت کر کے کمائے، تمہاری تجارتیں جن میں خسارے کی تمہیں فکر رہتی ہے اور تمہارے پسندیدہ گھر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ پیارے ہیں، تو انتظار کرو حتی کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب کا) لے آئے اور اللہ (اس حکم کے) نافرمانوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔‘‘
اور بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں۔ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں! قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے جان سے Madina11پیارا نہ ہو جاؤں۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: قسم بخدا! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’عمر اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا۔‘‘
حوالہ کیلئے صحیح بخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبیﷺ، حدیث نمبر 6142۔
شارح مشکوٰۃ حضرت ملا علی قاری مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یکدم محبت نبوی کا کامل ہوجانا نبی اکرم (ﷺ) کی باطنی توجہ کی برکت سے تھا۔
محبت کی کتنی قسمیں ہیں اور حدیث میں کونسی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہیں:
1. محبت طبعی۔ یعنی جن محبتوں کا طبیعت تقاضہ کرتی ہے۔
2. محبت عقلی۔ یعنی جن محبتوں کا عقل تقاضہ کرتی ہے۔ جیسے مریض طبعاً کڑوی دوائی کو نا پسند کرتا ہے، لیکن عقل کے تقاضہ سے وہ دوائی کھا لیتا ہے۔
3. محبت ایمانی۔ یعنی وہ محبت جس کا ایمان تقاضہ کرتا ہے۔ جیسا کہ اگر نبی اکرمﷺ کا فر باپ یا کافر بیٹے کو جنگ میں قتل کرنے کا حکم دیں تو محبت طبعی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ باپ اور بیٹے کو قتل نہ کیا جائے لیکن محبت ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے باپ اور بیٹے کو قتل کر دے۔ جیساکہ غزوہ بدر میں حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے لڑائی اور اُسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔
ان تین قسموں میں سے حدیث بالا میں محبت عقلی اور محبت ایمانی مراد ہے۔ محبت طبعی انسان کے اختیار میں نہیں، لہذا مسلمان محبت طبعی کا مکلف نہیں ہے۔ البتہ محبت عقلی اور محبت ایمانی کا مسلمان مکلف ہے، محبت ایمانی کی بنیاد پر حضور نبی اکرمﷺ کو دنیا کی ہر چیز سے عزیز جاننا حدیث بالا اور دیگر مذکورہ بالا دلائل شرعیہ سے واضح ہے۔
لیکن محبت عقلی کی رو سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ محبت کی بنیاد کسی شے کا حسن، کمال اور حسان ہے۔ اور دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین وجمیل سب سے باکمال اور صاحب فضائل اور سب سے بڑے محسن وکریم صرف اور صرف سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لعل، محبوب خدا، سید المرسلین، رحمۃ العالمین، شفیع المذنبین، سراج منیر، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ فداہ روحی وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلم ہی ہیں۔ لہذا ایمان کے ساتھ ساتھ عقل کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ مسلمان دنیا کی ہر شے سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب جانے۔
اب ہم محبت نبوی کے تقاضے او علامات کی طرف آتے ہیں۔ قرآن وسنت کی رو سے محبت نبوی کے تقاضے اور علامات درج ذیل ہیں
شان رسالت پر ایمان کامل
جس طرح محض اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے پر ایمان کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کو ماننا لازم ہے، اسی طرح سرور دوعالم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو صرف نبی یعنی صاحب وحی ماننا کافی نہیں بلکہ آپ کے فضائل وکمالات مثلاً یہ کہ آپ اسلام کے شارع یعنی قانون ساز ہیں۔۔۔ آپ گناہوں سے معصوم ہیں۔۔۔ آپ اللہ کی عطا سے ماکان ومایکون (جو ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے) کو جاننے والے ہیں۔۔۔ آپ شاہد ہیں یعنی پوری کائنات کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔۔۔ آپ کو لاتعداد معجزات عطا کئے گئے۔۔۔ آپ اللہ کے اذن سے مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔۔۔ آپ تمام جہانوں میں شفاعت فرمانے والے ہیں۔۔۔ آپ اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اور قبر انور میں بھی خدا کے خزانے تقسیم فرما رہے ہیں۔۔۔ آپ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔۔۔ آپ کی گستاخی کفر ہے اور خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے۔۔۔ آپ آخری نبی ہیں۔۔۔ آپ اللہ تعالیٰ کی ذاتی اور صفاتی تجلیات کا مرکز ہیں۔۔۔ سید المرسلین ہیں۔۔۔ رحمۃ اللعلمین ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے خزانوں کے مالک ہیں۔۔۔ امام الانبیاء ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوقات کے درمیان وسیلہ کبریٰ اور واسطہ عظمیٰ ہیں۔۔۔ انسان کامل ہیں۔۔۔ اور آپ کی حقیقت نور ہے۔۔۔ آپ ہی کا نور اول المخلوقات ہے۔۔۔ اور دیگر لا تعداد فضائل وخصائص اور کمالات پر ایمان بھی لازم ہے۔
آپ کا ادب و احترام
محبت نبوی کا دوسرا بڑا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بعد ساری کائنات میں سب سے زیادہ حضور نبی اکرمﷺ کا ادب واحترام کرے۔
بخاری کتاب الشروط میں ہے کہ جب سفیر قریش عروہ بن مسعود ثقفی حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہﷺ سے مذاکرات کرکے مکہ مکرمہ لوٹے تو قریش مکہ سے کہا
ترجمہ: ’’اے میری قوم! میں کئی بادشاہوں کے پاس سفیر بن کر گیا ہوں، میں قیصر روم، کسریٰ ایران اور نجاشی حبشہ کے پاس بھی سفیر بن کر گیا۔ اللہ کی قسم! کسی بادشاہ کے ساتھی کسی بادشاہ کی اتنی تعظیم نہیں کرتے جیسا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اُن کی تعظیم کرتے ہیں۔ اگر وہ تھوکتے ہیں تو اُن کا تھوک کسی ہاتھ پر پڑتا ہے تو وہ اُسے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے۔ اور وضو کرتے ہیں تو وضو کااستعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے لڑائی تک نوبت پہنچتی ہے۔ اور جب کلام کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ وہ اُن کی تعظیم کی وجہ سے اُنہیں آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ یقیناً اُس شخص (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر ہدایت پیش کی ہے تم اُسے قبول کرلو!‘‘
یہ حدیث مبارک ایک نمونہ ہے، وگرنہ صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ وہ رسول للہﷺ سے منسوب اشیاء، آپ کا لباس، برتن، آپ کے قیام کی جگہیں، آپ کا منبر مبارک اوردیگر آثار وتبرکات کی بے پناہ تعظیم کرتے اور آثار نبوی سے برکت وسکون حاصل کرتے تھے اور اس پر بعد میں اُمت مسلمہ کا عمل رہا۔
شارح بخاری امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’آپ کی محبت کی علامت آپ کے آل واصحاب، آپ کے دین، آپ کے شہر (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ) سے محبت، بلکہ ہر اُس شے سے محبت ہے جو
آپ کی طرف منسوب ہو۔‘‘
آپ کی اطاعت
: آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اسلام کے شارع (قانون ساز) ہیں اور گناہوں سے معصوم ہیں، آپ کا ہر قول وفعل وحی خفی ہے۔ لہذا آپ کا ہر قول وفعل شریعت ہے، دین ہے اور جب تک ثابت نہ ہو جائے کہ آپ کا قول وفعل منسوخ ہے، یا آپ کا خاصہ ہے، آپ کے ہر قول وفعل کی پیروی واطاعت مسلمانوں پر لازم ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ عقائد اسلامیہ، عبادات، معاملات، اخلاقیات، بود وباش، آداب زندگی، تجارت، سیاست اور دیگر تمام اُمور میں حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع واطاعت اختیار کریں۔ قرآن مجید، پارہ نمبر ، سورہ آل عمرآن، آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’فرما دو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو! پھر اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی محبت سے نوازے گا۔‘‘
آپ پر ہر چیز کو فدا کر دینا
جیسا کہ آیت ’’قُلْ اِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ۔۔۔الخ‘‘ سے واضح ہے کہ محبت نبوی کا تقاضہ ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کی سنت کے مطابق نبی اکرمﷺ کے ناموس اور آپ کے دین کی حفاظت ومدافعت کیلئے اپنی عزت، جان، مال، اولاد سمیت ہر پیاری چیز کو قربان کردینا ضروری ہے۔
حضرت قاضی عیاض ’’شفا شریف‘‘ میں فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’آپکے دین کی امداد اور آپ کی شریعت مطہرہ کے دفاع کیلئے قربانیاں دینا ہی آپ کی محبت کی علامت ہے۔‘‘
کثرت درود و سلام و کثرت ثناخوانی
ارشاد نبوی ہے: ترجمہ: ’’تم میں سے قیامت کے روز میرے سب سے زیادہ قریب (اور ایک روایت میں ہے) روز قیامت (میری شفاعت کا) سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا درود وسلام زیادہ ہوگا۔‘‘ ایسے ہی حضورﷺ کے معجزات، میلاد، معراج، سیرت وصورت اور دیگر کمالات کو بیان کرنا سنت صحابہ ہے۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ ایک ثنا خوان حضرت کعب بن زہیر سلمی رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ نے اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور حضرت عباس وحضرت حسان رضی اللہ عنہما کو ثنا خوانی ونعت خوانی ومیلاد بیان کرنے پر دعاؤں سے نوازا۔ بلکہ بخاری شریف میں ہے کہ نبی علیہ السلام حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نعت سننے کے لئے مسجد نبوی میں منبر بچھواتے تھے۔!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اُمت مسلمہ کو حضور سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کی اعلیٰ وارفع نسبتوں سے سچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے