تحریر : محمد اعظم خاں
کچھ سال قبل موبائل فون اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا مگر اب دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔اس بیچا رے موبائل سے اب ہم کال سننے سے زیادہ ایف ایم ریڈیو سننے ، تصاویر اتارنے، ویڈیو بنانے ، رنگ ٹو نز سننے اور سب سے بڑھ کر میسیج کرنے کا کام لینے لگے ہیں۔
ایسا لگتا ہے موبائل فون کمپنیاں کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں موبائل کے ذریعے کسی موذی مرض میں مبتلا کر رہی ہیں۔ایک ایسا مرض جس کی وجہ سے ہم رات بھر سو نہیں پاتے۔
پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں موبائل فون کو عام آدمی کے استعمال میں آجانے کو ملکی ترقی اور خوشحالی کہا کرتے تھے ، وہ اپنے ہر خطاب اور انٹرویو میں بڑے فخریہ انداز میں اس بات کا بطورِخاص ذکر کیا کرتے تھے کہ ہم نے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ ہمارے حکومت سمبھالنے سے قبل کسی کسی کے پاس موبائل فون ہوا کرتاتھا جبکہ اب وہی موبائل فون ایک ریڑھی چلانے والے کے پاس بھی موجود ہے۔۔۔۔۔ کوئی ان سے کہے کہ ذرا آ کر دیکھیں تو سہی، جس موبائل کے عام ہوجانے کو وہ ملکی ترقی کہا کرتے تھے وہ کس طرح ہماری نوجوان نسل کی جڑوں میں بیٹھ رہا ہے۔
آج بھی اکژیت کی جیبوں میں موبائل تو ہوتا ہے مگر کال کرنے کے لئے بیلنس نہیں۔شادی بیاہ یا کسی خوشی غمی کے موقعہ پر ایسے افراد اکژدیکھنے کو ملتے ہیں جن کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں ” آپ کے موبائل میں بیلنس ہو گا۔۔۔دراصل میرے موبائل میں بیلنس نہیں ۔۔۔میں نے ایک ضروری کال کرنی تھی “۔
موبائل فون استعمال کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جنہیں موبائل کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح موبائل سیٹ تو خرید لیتے ہیں مگر انہیں کبھی کسی کو فون نہیںکرنا ہوتا ا ور نہ ہی کبھی ان کے موبائل میں اتنا بیلنس ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی کو کال کر سکیں، ہاںوہ اپنے موبائل میں اتنا بیلنس ضرور رکھتے ہیں جس سے کسی کو مس کال کی جا سکے۔
مس کال کرنے والوں کی بھی الگ ہی دنیا ہے ،وہ اسے بھی دل لگی سمجھتے ہیں اور جسے مس کال کررہے ہوں اپنی طرف سے اس پر احسانِ عظیم کر رہے ہوتے ہیں ۔بہت سے لوگوں کے لئے مس کال کرنا بھی ایک کھیل اور مشغلہ بن گیا ہے۔کسی کی مس کال آنے پراسے یہ سمجھ کر کا ل کریں کہ شائد اس کے پاس اتنا بیلنس نہ ہو کہ وہ بات کر سکے اور کوئی ضروری بات کرنی ہو، مگر فون کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ فارغ بیٹھے تھے سوچاتم بھی کیا یاد کرو گے چلو تمہیں مس کال ہی مار دیں، کم از کم تمہیں یہ تو پتہ چلے کہ ہم بھی تمہیں ےاد رکھتے ہیں ،بھولے نہیں۔
موبائل کے ذریعے ایک اور خطرناک بیماری نے جنم لیا ہے جسے میسیج کہتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میسیج کرنے والوں کو اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں،اکژ اوقات ایک ہی میسیج مختلف لوگوں سے کئی کئی بار موصول ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے یہ میسیج کی شکل میں ایساانتہائی اہم قومی فریضہ تھا جسے پورا کرنے کے لئے بہت سے محبِ وطن ایک ساتھ اس کام پرلگ گئے۔
میسیج کرنے والے دن دیکھتے ہیں نہ رات، ان کا کام تو اپنا میسیج زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے اور وہ اپنا پیغام میسیج ٹو آل کر کے فارغ ہو جاتے ہیں، خواہ رات کے دو بجے ہوں، جنہیں رات بھر جاگنے کی بیماری ہو وہ تو اس میسیج کو پڑھ لیں گے مگر جسے کبھی کبھار ہی کوئی انتہائی ضروری پیغام آتا ہو وہ اٹھے گا، لائٹ جلائے گا، عینک لگائے گا او ر پھر میسیج پڑھے گا اور پتہ چلے گا کہ کسی سردار یا پٹھان کا کوئی گھسا پٹا لطیفہ ہے جو میسیج ٹو آل کر دیا گیا اور اس میں ہمارا نام بھی آگیا۔
ےہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے کال اورمیسیج کے ریٹ کم ہونے سے بہت بہتری ہوئی ہے۔ ایسے افراد جنہیں اپنے کاروبار یا دفتری کام کے سلسلے میں دن میں کئی کئی بار فون اور میسیج کرنا پڑتے ہیں انہیں بہت بڑی سہولت مل گئی ہے مگر کسی بھی سہولت کا غلط استعمال بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
موبائل فون کمپنیاںنئے نئے پیکیج نکال کر ہمیں بیوقوف بنا رہی ہیں اور ہم بخوشی بن رہے ہیں۔ محض میسیج پیکیج کے تحت حاصل ہونے والی ایس ایم ایس بنڈلز کی تعداد پوری کرنے کے لئے رات بھر جاگتے ہیں، اپنی نیند اور صحت خراب کرتے ہیں
لمبی لمبی باتیں کرنے کے لئے آدھی رات تک انتظار کیا جاتاہے۔ ہو سکتاہے بہت سوں کا بھلا بھی ہوا ہو گالیکن زیادہ تر لوگ خود اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں مگر انہیں اس کی خبر نہیں۔فون پر جو ضروری بات کرنا ہوتی ہے وہ ایک دو منٹ میں ہو جاتی ہے پھر اس کے بعد اور۔۔۔۔اورسناﺅ۔۔۔۔اور کوئی بات ہونے لگتی ہے۔ کھانے پکانے ، کپڑوں کی سلائی اور ان کے رنگوں سے لے کر میچنگ جوتوں تک ہر بات کا تبادلہ خیال بھی کر لیا جاتا ہے، ہمسایوں سے لے کرمحلے کے دیگر گھروں میں ہونے والے واقعات بھی بیان کر دیے جاتے ہیں، اگر پھر بھی ایک گھنٹہ پورا ہونے میںکچھ منٹ باقی ہوں تو کوشش کرکے اور دماغ پر زور ڈال کر باتیں تلاش کی جاتی ہیں اور جب تک فون خود بخود بند نہ ہو جائے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
موبائل کے عام ہو جانے کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے طالبِ علموں کو ہورہا ہے مگر انہیں کوئی فکر نہیں ، وہ اپنی موج مستی میں مگن ہیں۔پچھلے چند ماہ میں بورڈ اور یونیورسٹی کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ دیکھ کر بھی ان کی آنکھ نہیں کھلی کہ وہی لڑکیاں جنہیںکچھ سال قبل تک لوگ تعلیم دلوانا مناسب نہیںسمجھتے تھے ،ساری کی ساری پوزیشنیں انہوں نے لی ہیں،کیونکہ وہ رات رات بھرموبائل فون پر باتیں اور میسیج کرتے ہوئے وقت ضائع نہیں کرتیں۔۔۔۔۔۔۔ اگر میری بات پریقین کرنے کو دل نہ مان رہا ہو تولڑکیوں کے ہاتھوں میں موبائل تھما کر یا لڑکوں سے موبائل کی سہولت واپس لے کر دیکھ لیں۔