کہیں ہم ایٹم بم نہ کھو دیں ….
محمدزاہر نورالبشر
ایک دفعہ افغانستان کے ایک گاﺅں میں چند ڈاکو نکل آئے،وہ روز کسی نہ کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے تھے،پورے گاﺅں والے ان سے تنگ آچکے تھے،اس گاﺅں میں ایک غریب کسان بھی رہتا تھا،ایک گائے،چند ٹوٹے پھوٹے برتن اور دیگر اسی قسم کی چند چیزیں اس کے گھر کا کل اثاثہ تھیں،اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کرکے گائے سمیت اپنے گھر کے تمام سازوسامان بیچ کراپنی حفاظت کے لیے ایک بندوق خرید لی،اب اس کا سب سے عزیز ،مہنگا اور قیمتی سرمایہ یہی بندوق تھا،اگلی رات اس کے گھر ڈاکو گھس آئے،بیوی نے سہمے سہمے انداز میں کسان کو جگایا ،کسان نے اٹھ کراپنی آنکھیںملتے ہوئے اپنی بیوی سے سرگوشی کی :”اصل چیز تو بندوق ہے ، چلو اسے بچاتے ہیں ، باقی خیر ہے۔“یہ کہہ کر کسان نے بندوق بستروں کے صندوق میں چھپادی اور میاں بیوی دونوں اس صندوق کے اوپر لیٹ گئے،جب ڈاکو سارے گھر کو لوٹ کر چلے گئے تو کسان نے بستروں کے صندوق سے بندوق نکالی اور اسے چومنے لگا …. اگلے دن صبح کسان اپنے کھیت کو جانے لگاتو ساتھ ساتھ گاﺅں والوں کو بڑے فخر سے اپنی بہادری کا قصہ سناتا جارہا تھا،کسان خوش تھا کہ ڈاکو ساری چیزیں تو لے گئے لیکن اس نے انہیں اصل چیز یعنی اپنی بندوق لے جانے نہیں دی،لوگوں نے اس سے پوچھا کہ بھلے مانس ! یہ بتاﺅ! تم نے اپنے گھر کی تمام اشیاءفروخت کرکے یہ بندوق کیوں خریدی تھی؟جس کے ذریعے تم اپنی حفاظت بھی نہ کرسکے بلکہ تمھیں اور تمھاری بیوی کو خود اس کی حفاظت کرنی پڑی !!لوگوں کی بات سن کر کسان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا، لوگوں نے اس پر خوب قہقہے لگائے اورفقرے کسے،وہ اپنے کھیت کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ واقعی لوگ بندوق ، اسلحہ اور ہتھیار اپنی حفاظت ، دفاع اور بچاﺅ کے لیے خریدتے ہیں؟ پھر مجھے خود کیوں اس بندوق کی حفاظت کرنی پڑی؟
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی،یہ واقعہ مجھے کچھ اپنا اپنا سا لگا،مجھے ایسا لگا کہ وہ کسان کوئی اور نہیں ،ہم ہی ہیں اور کسان کی وہ بندوق بھی مجھے اپنا ایٹم بم لگا،اگر آپ ایک لمحے کے لیے پوری قوم کو کسان اور ہمارے ایٹم بم کو کسان کی بندوق کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو آپ کو بھی ہمارا ایٹم بم کسان کی بندوق محسوس ہو گا ، لوگ بندوق ، اسلحہ اور ہتھیار اپنی حفاظت ، دفاع اور بچاﺅ کے لیے رکھتے ہیں،لیکن افغانستان کے اس کسان نے اپنا سارا مال و متاع بیچ کر بندوق صرف اس لیے خریدی تھی کہ اس کے ذریعے وہ ڈاکووں سے اپنی حفاظت کرسکے،مگر جب وہ لمحہ آپہنچا جس کے لیے اس نے یہ بندوق خریدی تھی،تب خود اس کو اپنی بندوق کی حفاظت کرنی پڑی،بالکل اسی طرح ہم نے بھی اپنی دفاعی لائن کو مستحکم بنانے کے لیے 28 مئی1998ءکو پوری دنیا کی ناراضی مول لے کر ، جان جوکھوں میں ڈال کر اور مضبوط دیواروں سے سر ٹکراکرایٹمی دھماکہ تو کردیا لیکن آج اس ایٹم بم کے بجائے ہم خود نہتے ہوکر اپنے اس قیمتی سرمائے کی اور اپنی حفاظت بھی خود کررہے ہیں،ہم بھی کسان کی طرح اس کو چھپائے پھر رہے ہیں،ہمیں خود اس کی حفاظت کرنی پڑرہی ہے۔
کسان کی یہ کہانی ہماری ایٹمی صورتحال اور ہمارے کردار سے بے حدمماثلت رکھتی ہے،یہ کہانی ہماری قومی مزاج کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے،ہم نے ایٹم بناتے وقت اپنی آنکھوں میں کتنے سہانے سپنے سجائے تھے،دل میں کتنے ارمان تھے ،کتنی ہی آرزوئیں اس سے وابستہ تھیں،ایک جوش تھا کہ ہم بھی سر اٹھا کر جی سکیں گے۔ایک ولولہ تھا کہ ہم اب سینہ تان کرچلیں گے ،ایک سوچ تھی کہ اب ہم خود مختا ری، خودکفالت اور خود انحصاری کے قابل ہو جائیں گے،اس کے لیے ہماری قوم نے کتنے جتن کیے،کتنی مشکلات کے پہاڑ سر کیے،لوگ دو سے ایک چائے پر آگئے،اقتصادی فاقے کیے،سامراج کی معاشی بدمعاشیاں برداشت کیں،یہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو،فاتح ِروس جنرل ضیا الحق،شہیدِ جمہوریت بے نظیر بھٹواور فخرِ پنجاب میاں نواز شریف جیسے با ہمت و پرُ عزم انسان ہی تھے جن کی شبانہ روز محنتوں کی وجہ سے یہ ناممکن کام ممکن ہوسکا ،محسنِ پاکستان اگرہالینڈ کی شہریت،اپنی بیٹیوں کا اعلی مستقبل اور لاکھوں ڈالرز کی تنخواہ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں اس کی سرزمین پر قدم نہ جماتے ،بھٹو صاحب جنون کی حد تک دیوانہ وار سرگرم نہ ہوتے ،جنرل ضیا امریکیوں کو ”this topic is out of discussion “کہہ کر خاموش نہ کراتے،بے نظیر بھٹو یورپی یونین کی بات مان جاتیں اور میاں صاحب کلنٹن کے دباو میں آجا تے تو آج تک ہما را اٹامک انرجی پروگرام التوا کا شکار رہتا،اب تک ہمارے ایٹمی پلانٹ کے تارو پود بکھر چکے ہوتے،ہمارا ایٹم بم بنانے کا خواب چکنا چور ہوچکا ہوتا،لیکن یہ اللہ تعالی کی بے پناہ نصرت،، قوم کی اضطراری دعائیںاور مخلص قیادت کی مہربانیاں تھیں ،جن کی وجہ سے آج ہم عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہیں،لیکن آج یہ سارے جرات مندانہ اقدامات،سارے عزائم اور ساری بے قراریاں روئی کے گالوں ،سمندرکے جھاگوںاورپانی کے بلبلوں کی مانند ہیں،اس کے لیے 1974ءسے 1998ءتک کی محنت اور 24 سالوںتک کی گئی ساری کوششیں اکارت جاتی نظر آتی ہیں۔
ایٹم بم ایک انتہائی مہلک ، ضرر رساں اور خطرناک ہتھیار ہے،اس کے مہلک اثرات کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ آج سے تقریبا 65سال پہلے 1945ءمیں جنگ عظیم دوئم کے دوران امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر یہ بم برسائے تھے،چنانچہ آج تک ان شہروں کی زمین بنجر ، فضا آلودہ اور وہاں پیدا ہونے بچے آج بھی لولے ، لنگڑے اور معذور ہوتے ہیں ، آج جو ملک بھی اس ٹیکنالوجی کا مالک ہے ، اس کودنیا عزت ، قدر اور احترام کی نظر سے دیکھتی ہے، اس سے نظریں چار کرتے ہوئے دنیا ہزار بار سوچتی ہے،ان ممالک کے خلاف کوئی بھی اپنے لبوں کو جنبش نہیں دے سکتا،ان کی پالیسی کی طرف آپ ہلکی سی گستاخانہ نظر بھی نہیںڈال سکتے،ان کے کسی ایک شہری کے خلاف اگر آپ کسی جرم کے تحت بھی ایکشن لیں تو پوری عالمی برادری سیخ پا ہوجاتی ہے،ہر ملک کے لیے اس کا ایٹم بم اس کی پہچان،اس کے مضبوط و مستحکم دفاع کا سگنل اور اس ملک کی اسٹریٹجی میں مہارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اس کا اندازہ لگانے کے لیے آپ ذرا ایک لمحے کے لیے کچھ دور ماضی کی طرف پلٹ جائیں !یہ ان دنوں کی بات ہے ، جب پاکستان نے تقریبا ایٹم بم بنا لیا تھا،پوری دنیا پاکستان پر چڑھ دوڑ رہی تھی،پاکستان کے خلاف اقوام ِمتحدہ میں اقتصادی پابندیوں کی قراردادیں منظور ہورہی تھیں،یورپی یونین کے کھوکھلے دعوے سامنے آرہے تھے کہ پاکستان کا نقشہ دنیا سے جلد ہی مٹ جانے والا ہے ،بھارت کی طرف سے پیغامات کا تسلسل جاری تھا کہ” پاکستان مقبوضہ کشمیر کا خیال چھوڑ کر آزاد کشمیر خالی کرنے کا سوچے، ہم جلد اس موضوع پر بات کریں گے“۔لیکن جب پاکستان نے ان سب باتوں کی پرواہ کیے بغیر 28 مئی1998ءکو چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کرکے اپنے آپ کو نیو کلیئر اسٹیٹ تسلیم کرالیا تو بھارت کے ایل کے ایڈوانی مینارِ پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک کر یہ بیان دے گئے کہ ”پاکستان ہمارا مِتر (دوست)ہے ، کشمیر کا مسئلہ طاقت سے نہیں ، مذاکرات سے حل ہوگا“۔
آ ج پوری دنیا حیران و ششدر ہے کہ جو قوم ایک سوئی ، ایک معیاری کیلکولیٹراور ایک اچھا سیل فون تیار نہیں کرسکی ، اس نے ایٹم بم کیسے ایجاد کرلیا،آج پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی ریاست ہے،کتنی ہی آرزﺅں ، خواہشوں اور ارمانوں کو دل میں بسائے ہم نے یہ ایٹم بم حاصل کیا تھا لیکن آج ہم پھر بھی ذلیل وخوار اور رُسوا ہیں،ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری خواہشات،ارمان اور آرزوئیںچاغی کی پہاڑی پر ایٹمی دھماکے کی دھول میں ہی کہیں کھوگئی ہیں، آج بھی ہماری جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں،کل تک ہمیں بونگے ہندو بنیے ڈراوا دیتے تھے لیکن آج تیسری دنیا کا کٹھ پُتلی چغہ پوش مسخرہ بھی ہمیں دھمکانے سے نہیں جھجکتا،یہ ہمارے لیے بڑا ہی اہم لمحہ ءفکریہ ہے،دشمن ہمارے ایٹمی پلانٹ تک پہنچنے کے لیے ہزار حیلے بہانے کررہاہے،وہ اسی کوشش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نیو کلیئر ہتھیار سے محروم کردیا جائے، ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ایٹم بم کی آڑ میں ہمارے اوپر کونسی قیامت مسلط ہونے والی ہے،آج دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت پورے عالمِ کفر کے نرغے میں ہے ،آج دشمن ہمارے اہم اہم تنصیبات، حساس مقامات اور ہمارے قلب میں خنجر گھونپ رہا ہے،آج بھی جبکہ دشمن ہماری شہ رگ کے قریب پہنچ چکا ہے،اب کی بار بھی ایسا ہی منظر دیکھنے میں آرہا ہے کہ قوم تو اس لحاظ سے گروہوںمیںنہیں بٹی ہوئی لیکن سیاست دان ، لیڈرز اور قوم کے سیاہ و سفید کے مالک ہی آپس میں دست و گریباں ہے، قوم نے ہر مصیبت کی گھڑی میں اپنا کردار ادا توکیا ہی لیکن ہمیشہ پیچھے رہ جانے والے رہنماہی تھے ،ہم بھی اس کسان کی طرح احمقوں کی جنت میں جی رہے ہیں،خدارا ! ہوش کے ناخن لیجیے ،ہماری قومی سلامتی پر انتہائی کڑا وقت آپہنچا ہے،ہماری سلامتی اور بقا ایک کچے دھاگے سے لٹک رہی ہے،ویسے بھی ہم اب تک بہت کچھ کھو چکے ہیں،اللہ نہ کرے کہیں ہم اسی جوڑ توڑ میں ایٹم بم بھی نہ کھو دیں ….!!!