URDUSKY || NETWORK

کرپٹ حکومت کی اصلاح کا فیصلہ

98

جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں چلنی والی جمہوریت کے نتیجے میں قوم کو ہمیشہ ”لوٹ مار“کرنے والے کرپٹ حکمرانوں کا تحفہ ہی ملا ہے اسی طرح پیپلزپارٹی کے اس فیصلے سے بھی قوم کو کچھ زیادہ امید نہیں لگانی چاہیے جس میں وفاقی کابینہ کے سائز میں کمی کرکے اخراجات میں کمی کا عندیہ دیا گیا ہے دراصل پیپلزپارٹی نے یہ فیصلہ بخوشی نہیں بلکہ اقتدار کے چند دن مزید مزے لینے کیلئے کاہے کیونکہ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کا مسلسل فرینڈلی دباؤ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کے علاوہ کرپٹ وزراء کو فارغ کرئے پیپلزپارٹی کے اس فیصلے کے بعد یہ دونوں جماعتیں چند دنوں کیلئے خاموشی اختیار کرے گی لیکن ان کا ایجنڈا ابھی مکمل نہیں ہوگا کیونکہ الیکشن قریب ہیں اورہرجماعت اپنے آپ کو عوام کا ہمدرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مزید مطالبات سامنے آئیں گے پیپلزپارٹی کے اس پرعزم اقدام کے بعد وہ اپنے آئینی پانچ سال پورے کرپاتی ہے بانہوں اس بارے آنے والے دنوں میں فیصلہ کیا جائے گا تاہم وفاقی کابینہ کے سائز کو کم کرنے سے یقیناً اخراجات میں توکمی ہوگی لیکن کرپشن میں کتنی کمی واقع ہوگی؟ اس بارے بھی آنے والے دنوں میں ہی پتہ چل سکے گا ۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہناہے کہ وفاقی کابینہ میں صرف ایسے وزراءکو شامل کیا جائے گا جو ایماندار ہونگے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں ؟اگر جواب ہاں میں دیا جائے تو ایسے لوگوں کو کون لائےگا ؟کیونکہ جمہورےت میں ایماندار لوگوں کا کام ہی نہیں ہے اس لئے قوی امکان ہے کہ وفاقی کابینہ میں دوبارہ انہیں لوگوں کو لایا جائے گا جنہوں نے میدان عمل میں کرپشن کے جھنڈے گھاڑیں ہونگے یا پھر پارٹی قائدین کی کرپشن کو تحفظ دینے کیلئے میڈیا کا سامنا کیا ہوگا یقیناً نئی وفاقی کابینہ میں سب سے پہلانام رحمان ملک کا ہوگا پھر بابر اعوان ،شاہ محمود قریشی ،قمرالزمان کائرہ اورراجہ پرویز اشرف اسی طرح نذرمحمد گوندل وغیرہ تو لازمی وفاقی کابینہ کا حصہ ہونگے کیا ان جے سا اےماندار وزیر کوئی اور ہے ؟اس کے علاوہ کچھ اور وزراءکو بھی دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپس لیا جاسکتاہے جن میں میاں رضاربانی،مخدوم امین فہیم ،چوہدری احمد مختار ،ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اقلیتی وزیر شہبازبھٹی شامل ہیں جبکہ ان تمام وزراء کو فارغ کردیا جائے گا جنہوں نے پارٹی کے مشکل وقت میں میڈیا اور تنقید کرنے والی سیاسی پارٹیوں کا سامنا نہیں کیا اسطرح اگر یہ کہا جائے کہ صرف ان وفاقی وزراءکو فارغ کیا جارہا ہے جنہوں نے پارٹی کے کرپشن پر پردہ ڈالنے میں کردار ادا نہیں کیا تو یہ غلط نہ ہوگا ۔
دوسری طرف پنجاب حکومت میں شامل پیپلزپارٹی کے وزراءکا نیا ڈرامہ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنی ہی حکومت جس میں وہ خود برابر کے شریک ہا ن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کواصلاح کیلئے 19نکات کا تحفہ دے دیا پیپلزپارٹی کے صوبائی وزراء راجہ ریاض احمد، اشرف سوہنا‘ یوسف گھرکی‘ ڈاکٹر تنویر السلام نے 19نکات کا یہ تحفہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد اگلے روز مسلم لیگ (ن) کے حوالے کیا جس میں مسلم لیگ (ن) سے مطالبے کئے گئے ہیں کہ
ماضی میں جن کرپٹ وزراء کے محکمے تبدیل کئے گئے ان کو فوری طور پر برطرف اور ان کےخلاف کارروائی کی جائے۔
کابینہ اور اسمبلی کی موجودگی میں ٹاسک فورسز کو ختم کیا جائے اور ان پر استعمال ہونے والے وسائل عوام کی فلاح وبہبود کیلئے استعمال کئے جائیں۔
پنجاب میں فلور کراسنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور میثاق جمہوریت پر عمل کیا جائے ۔
بلدیاتی نظام کے فوائد عوام تک پہنچانے کیلئے فوری بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔
سستی روٹی اور فوڈ سٹیمپ سکیم کی ناکامی کی وجوہات کی نشاندہی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرکے فنڈز سرکاری خزانے میں جمع کروائے جائیں۔
پنجاب میں سیاسی بنیادوں پر خود مختار اداروں میں لگائے گئے سیاسی افراد اور ریٹائرڈ سرکاری افسران برطرف کئے جائیں۔
وزراءکو سرکاری رہائشگاہ کے طور پر دس مرلے کے گھر الاٹ کئے جائیں۔
پنجاب میں اس وقت سرکاری محکموں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے صوبائی وزراءکو اپنے محکمے میں مکمل بااختیار کیا جائے اور وزیر اعلیٰ ہر محکمے کی کارکردگی جاننے کیلئے ماہانہ میٹنگ کریں اور صوبائی کابینہ کی میٹنگ آئین اور طے شدہ فارمولے کے مطابق با قاعدگی سے بلوائی جائے۔
پنجاب کی مخلوط حکومت کے قیام کے وقت طے شدہ فارمولا برائے ترقیاتی فنڈز پر عمل کیا جائے۔
صوبہ بھر کی زکوٰۃ اور مارکیٹ کمیٹیوں میں تقرری کے عمل کو شفاف کرکے اہل اور دیانت دار لوگوں کو تعینات کیاجائے۔
صوبے میں جاری شدہ مالی بحران پر قابو پانے کیلئے ہنگامی طور پر موثر اور جامع اقدامات کئے جائیں اور ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اس بحران کے ذمہ داران اشخاص کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پنجاب میں آئندہ اور جاری ترقیاتی منصوبہ جات کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانے کیلئے کابینہ کو اعتما دمیں لیا جائے۔
پنجاب میں کرپٹ اور نااہل افسران کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور تقرریوں کے وقت میرٹ اور سنیارٹی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے جو اقدامات کئے گئے ان کی نشاندہی کرکے کارروائی کی جائے۔
پنجاب میں بڑھتے ہوئے چوری‘ ڈکیتی‘ اغواءبرائے تاوان اور تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اور مستقبل کیلئے جامع منصوبہ سازی کی جائے۔
پنجاب میں وفاق کی پیروی کرتے ہوئے خواتین اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کئے جائیں۔
اشیاءخوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیلئے سرکاری مشینری استعمال کی جائے ۔
مزدور کی کم ازکم تنخواہ سات ہزار ادا کرنے کیلئے ڈی سی او کو پابند کیا جائے ۔
ان مےں اےک مطالبہ تو وزےراعلیٰ پنجاب نے مطالبے کے روزجمعرات کوہی پورا کردیا جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تمام ٹاسک فورسز اور کوارڈیینیٹرز کو ختم کردیا تاہم ابھی 18نکات باقی ہے اوران مطالبوں کا کب نظر ثانی کی جائے گی یہ آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا ۔
پیپلزپارٹی نے یقیناً مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کیلئے 19نکات کا تحفہ دیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتاکہ جس حکومت پر وہ عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں پہلے وہ اس چھتری سے باہر نکلتی گذشتہ اڑھائی سال تک اقتدار کے مزے لینے کے بعد اگر پیپلزپارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے تو اس میں پیپلزپارٹی بھی برابر کی شریک ہے آج اگر مسلم لیگ (ن) ،جمعیت علماءاسلام (ف)اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت پیپلزپارٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں تو اس کیلئے پہلے ان تینوں پارٹیوں نے وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی پھر انہوں نے وفاقی حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن تعجب ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں خود اپنی ہی کارکردگی پر کیوں سوالےہ نشان لگارہی ہے ؟اگر پیپلزپارٹی کے وزراءکادامن صاف ہے تو وہ کرپٹ پنجاب حکومت سے باہر کیوں نہیں نکلتی ؟حالانکہ مسلم لیگ (ن) متعدد بار ان سے علیحدگی کا مطالبہ کرچکی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اقتدار کسے برالگتاہے اور ہاتھ آئی ”کرسی “کو کیسے چھوڑا جائے ۔