URDUSKY || NETWORK

شمع آزادی

108

ممتاز امیر رانجھا

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان حق و با طل کے درمیان ایک انقلاب آفرین معرکہ تھا۔ ہم تاریخ کے اوراق سے اس شب و روز کی محنت کا مطالعہ کرنے کے بعد بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ”حق“ کس طرح اپنے آپکو ظلمتِ شب میں بھی اجالا بن کے ظاہر ہوتا ہے، یہ بات بھی پسِ پشت نہیں ڈالی جا سکتی کہ غلامی کا طوق بذات خود نہیں اترتا بلکہ اس کو اتارنے کے لئے کچھ تگ و دو ضرور کرنا پڑتی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ کسی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا بشرطیکہ وہ آزادی کا شعور رکھتی ہو۔ رفتہ رفتہ شعور و آگہی کے معمولی قطروں نے غلامی کی زنجیروں کے خلاف سیلاب کی صورت اختیار کی۔ برصغیر پاک و ہند میں ایک تحریک ابھری …. یہ تحریک غلامی کے خلاف تھی….یہ تحریک غداری کے خلاف تھی….یہ تحریک اس جبر و تسلط کے خلاف تھی جو لوگوں پر صرف اس لئے مسلط کیا گیا تھا کہ ان کی آزادیوں کو سلب کیا جاسکے!یہ تحریک لادینیت کے خلاف تھی، پھر اس تحریک نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، جس کی تمنا رحمت علی خان نے کی تھی، جس کے لئے سینکڑوں مجاہدوں نے اپنی جانیں نچھاورکی تھیں۔pakistan
پھر اس تحریک نے ایک تاریخ رقم کر دی، ناقابلِ فراموش!، ناقابلِ بیان!، اور جذبہ ایمان سے مزین تاریخ! جس پر سارے جہان نے رشک کیا ، کر رہا ہے اور کرتا رہے گا انشاءاللہ، اس تحریک نے عیاں کیا کہ تمام مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ہر دو زندگیوں میں ساری ہدایت و رہنمائی صرف اپنے دین سے مل سکتی ہے، جہاں اسلام انسانوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد فراہم کرتا ہے وہیں پر ریاست ومعاشرے کو بھی منظم کرتا ہے۔ جب تمام معاملات میں معیار اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے پیارے نبیﷺ کا عمل ہو جائے تو تمام منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ مسلمان قوم نے اس نظریہ حیات کے تحت نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کا قیام اسی نظریے کے تحت عمل میں آیا اور یہ نظریہ مسلمانوں کا دینِ اسلام ہے، یہی نظریہ پاکستان کا مفہوم بھی ہے۔ دو قومی نظریے کا مقصد دراصل اس بات کی وضاحت کرنا تھا کہ بت شکن اور بت پرست قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں چونکہ ان دونوںقوموں میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں۔
علامہ اقبال جس نے قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا مسلمانوں کے اندر ملی جذبے اور قومی شعور کی راہیں ہموار کیں، انہوں نے دو قومی نظریے کی وضاحت یوں کی کہ دشمن کے دانت کھٹے ہو گئے۔ ۰۳۹۱ءکے جلسے کی صدارت میں انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”میرا ارادہ ہے کہ پنجاب شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک علیحدہ ریاست بنا دیا جائے یہی تمام مسلمانوں کے مسائل کا حل ہے، یہی مسلمانوں کی بہتری اور یہی ان کی منزل بھی۔“ ڈاکٹر اقبال نے واضح کردیا کہ مسلمانوں کی تمام مشکلات کا حل دراصل علیحدہ علیحدہ خطہ کے حصول میں پنہاں ہے ۔اس کشتی کو طوفان سے نکالنے والے مردِ قائد قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے کہا ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا ہمارا مقصود تھا، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“
الغرض اس تحریک نے زور پکڑا، اس سفر میں کئی کٹھن موڑ بھی آئے لیکن قافلہ آزادی مستقل مزاجی سے بڑھتا چلا گیا۔ مرکزی ندیاں یعنی (شمال مغربی سرحدی صوبہ بلوچستان، سندھ ،پنجاب اور مسلم اقلیتی صوبہ) انہوں نے بھی مرکزی تحریک کے عظیم دریا میں شامل ہو کر اس تحریک کو قوت و عظمت عطا کی۔ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ، جس کا اجلاسمیرٹھ میں ۹۳۹۱ءمیں ہوا۔ اس کمیٹی میں علامہ اقبال ، چوہدری رحمت علی، سید عبدالطیف ، سید ظفر الحسن، ڈاکڑ محمد افضل حسین قادری، نواب ممدوٹ، مسز عبد اللہ ہارون اور سر سکندر حیات جیسے رہنماﺅں کی شرکت مبارک ثابت ہوئی۔ قائدِ اعظم اس کمیٹی کے صدر تھے۔ کمیٹی کے مختلف آئینی تجاویز پر غور کرنے کے بعد اگلا اجلاس لاہور میںمشہور و معروف قرارداد پیش کی گئی جسے قرار دادِ لاہور یا قرار دادِ پاکستان کہا جاتا ہے۔
اس تاریخی جلسہ میں لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی۔ قائدِاعظم نے تاریخ ساز تقریر کی انہوں نے اپنی تقریر میں دو قومی نظریے کی کھل کر وضاحت کی، انہوں نے کہا۔ ”ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں ، سماجی رسوم اور مختلف مذہبی اقدار کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبی روایات سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی تاریخ، روایات، ماضی اور عقائد مختلف ہیں۔“ بعض اوقات ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال ان فتوحات اور شکستوں کا ہے، دو ایسی قوموں کو ایک ریاست میں مدغم کر دینا دائمی اضطراب ہے ۔ حالانکہ اس قرارداد میں” پاکستان“ کا لفظ استعمال نہیں ہوا تھا پھر بھی ہندو اخبارات نے اس کو خوب اچھالا اور اسے  ©”قراردادِ پاکستان“ کے نام سے مشہور کیا۔ ہندوﺅں نے مذاقاً اسے قراردادِپاکستان کہا لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ یہی قرارداد، غلامی کے تابوت کو دفن کرنے میںآخری کیل ثابت ہوگی اور آزادی کے چراغ روشن کرے گی۔
گاندھی نے دو قومی نظریے کو جھوٹ قرار دیا، راج گوپال نے اسے دو بھائیوں میں ایک گائے کی ملکیت کا جھگڑا قراردیا۔ مگر ہندوﺅں کی مکاری کچھ اثرنہ دکھا سکی بلکہ ان کی عیاریاں ”استحکامِ پاکستان“ کے لئے مددگار ثابت ہوئیں۔ برطانوی پریس نے اس کو اتنی اہمیت نہ دی، شاید انہیں احساس ہو گیا تھاکہ اس قرارداد کی مخالفت کے نتائج ان کے لئے برے ہوں گے۔ اس قرار داد کے بعد اتحاد و تنظیم کے جذبات کی فراوانی پیدا ہوئی۔ جس کے نتیجے کے طور پر یہ خواب ایک حقیقت بن کر ابھرا۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ان دونوں قوموں کو آزاد اور خود مختار ریاستوں میں بانٹ دیا جائے۔ اجلاس کے اگلے روز قرارداد ِ لاہور پیش کی گئی، یہ قرارداد اے.کے.فضل حق نے پیش کی۔ اس کی تائید چوہدری خلیق الزماں ، مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب ، سر عبد اللہ ہارون، نواب اسماعیل، قاضی محمد عیسیٰ اور بیگم محمد علی جوہر نے کی۔
ےہ تارےخ ساز قرارداد ان الفاظ مےں پےش کی گئی تھی۔
”اس ملک میں کوئی دستوری خاکہ قابل عمل نہیں ہو گا۔ جب تک وہ مندرجہ ذیل اصولوں پر مرتب نہ کیا جائے ۔ یعنی جغرافیائی اعتبار سے متعلقہ علاقے الگ خطے بنا دیئے جائیں تاکہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے اکثریت حاصل ہے وہ یکجا ہو کر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں“ ۔
قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان ہندوﺅں کے منہ پر طمانچہ اور انگریزوں کے قفل پر ہتھوڑا ثابت ہوئی…..انگریز قوم ششدر رہ گئی ، ہندو قوم کو اپنی ڈھٹائی اور عیاریوں پر ندامت ہوئی۔ مسلم قوم کے مفکروں کی کاوشوں اور ان کے ذہنی تسلسل نے دو عیار قوموں کو پچھاڑ ڈالا، یوں یہ قرار داد شمع آزادی کی صورت میں جلنے لگی جس کی کرنوں تلے اب تلک سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آرہا ہے، جس کی روشنی میں زرخیز زمین پاکستان جگمگا رہی ہے اور جس کی بدولت ہم آزادی کی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔