سیاست دان قوم کے خلاف متحد؟
عثمان حسن زئی
[email protected]
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ہفتہ رفتہ میں 18ویں ترمیم پر عمل کرتے ہوئے اپنے 12 مشیر برطرف کر دیے جس کے باعث صوبائی حکومت کے ماہانہ اخراجات میں تقریباً 50 لاکھ روپے اور سالانہ تقریباً 6 کروڑ روپے کمی ہوگی۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق صوبے میں زیادہ سے زیادہ 19 وزراءکی گنجائش ہے لیکن اس وقت سندھ کابینہ کے ارکان کی تعداد تقریباً 47 ہے جن میں 42 وزیر اور 5 افراد مشیر کے عہدوں پر براجمان ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ کے 15 معاونین خصوصی ان کے علاوہ ہیں۔
18 ویں آئینی ترمیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد 11 فیصد رکھنے کا اطلاق آئندہ عام انتخابات کے بعد بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ہوگا تاہم 18ویں ترمیم نافذ ہونے کے بعد بھی اضافی مشیر اپنے عہدوں پر کام جاری رکھے ہوئے تھے جبکہ یہ معاملہ کچھ عرصے سے سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ مشیروں کی برطرفی کے ساتھ ہی آنے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کابینہ نے 9 ارب 16 کروڑ روپے کی لاگت سے نیو سندھ سکیرٹریٹ کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے جس نے ہمارے سیاست دانوں اور نام نہاد عوامی نمائندوں کی اپنی قوم سے ”مخلص“ ہونے کی قلعی کھول دی ہے۔ ایک طرف اس ملک کا متوسط اور غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے تو دوسری جانب ہمارے عوامی نمائندے اپنے لیے مزید مراعات اور سہولیات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
ملک کی اقتصادی صورت حال اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے تناظر میں وزیراعلیٰ سندھ کے 12 مشیروں کی چھٹی ایک اچھا قدم اور مثبت سمت میں پیش رفت ضرور ہے تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ صرف اس پر اکتفا کرنے سے نہ ہمارے دن بہ دن خراب ہوتے معاملات اور الجھنیں سلجھ سکتی ہیں اور نہ ہی قوم کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں! آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف 16 وزیر ہیں اور سندھ میں 42! وزیروں اور مشیروں کی تعداد کے لحاظ سے بلوچستان سرفہرست ہے جہاں ایک دو کو چھوڑ کر تمام ارکان اسمبلی کسی نہ کسی وزارت کا قلمدان یا مشیر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی کابینہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں، جہاں 25 وزراءہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وزراءاور مشیروں کی فوج ظفر موج میں کمی 18 ویں ترمیم کی وجہ سے مجبوراً کی جارہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو خود ان وزراءاور مشیروں پر لٹائے جانے والے عوام کے خون پسینے سے حاصل شدہ کروڑوں روپے کا کبھی خیال نہیں آیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہمارے نام نہاد عوامی خادموں کا بس چلے تو وہ بلوچستان کی طرح حکومتی بینچ پر بیٹھنے والے ہر رکن کو وزیر اور مشیر کے منصب پر فائز کردیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزراءاور مشیروں کی تعداد میں کمی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر اتنے زیادہ وزراءاور مشیر نہ ہوتے یا انہیں تعینات ہی نہ کیا جاتا تو بھی حکومت کی کارکردگی پر کوئی فرق نہ پڑتا۔ گویا یہ سب کچھ قومی خزانے پر عیاشیاں کرنے اور مختلف سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے ارکان کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے حکمرانوں کو تین سال بعد وزراءاور مشیروں کی فوج پر سرکاری خزانے سے قوم کے اربوں روپے لٹانے کے بعد ہی ڈاؤن سائزنگ کا خیال کیوں آیا؟ کیا یہ سب افراد اس سے قبل قومی خزانے پر بوجھ نہیں تھے یا اچانک ہی بوجھ بن گئے؟ بعض مبصرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ فارغ کیے جانے والے وزراءاور مشیروں کو خوش کرنے کے لیے کسی آئینی پیچیدگی سے بچتے ہوئے نئی اسامیاں تخلیق کی جا سکتی ہیں تاکہ سرکاری خزانے پر عیش کرنے والے یہ ”عادی مریض“ حکومتی مراعات سے محروم نہ ہوں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ”آنکھ مچولی“ کا یہ کھیل اس قوم کے ساتھ کھیلا جارہا ہے جو حکمرانوں کی عیاشیوں اور کرتوتوں کے سبب 65 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی دولت اور اثاثہ جات میں تو مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن جن عوام کی نمائندگی کے یہ دعویدار ہیں وہ غربت کی چکی میں پستے ہی چلے جار ہے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلے نمبر آگیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے 7 ممالک میں پاکستان کے عوام کو بدترین مہنگائی کا سامنا ہے جس کے باعث عوام کے لیے زندگی کی گاڑی چلانا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 15.7 فیصد ہوگئی ہے جوکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے قوم کو لوٹنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر عوام کے خلاف مفاہمت کرلی ہے۔ ان کے آپس میں لاکھ اختلافات سہی، مگر غریبوں کی غربت کم کرنے کی بجائے غریبوں کو ہی ختم کرنے کے لیے یہ سب ملے ہوئے ہیں۔ آپ غور کریں! ہمارے ملک میں قومی وسائل کا ضیاع ہو، عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے خزانے کا ناجائز استعمال ہو، رشوت خور اور بدعنوان وزراءاور اہل کاروں کی گرفت ہو یا اعلیٰ عہدوں پر نااہل اور بدعنوان افراد کا تقرر، جب ان لوگوں کو عدلیہ سزائیں سناتی ہے تو حکومت ان ہی افراد کو نوازتی ہے، آخر ایسا کیوں؟ اگر جمہوری دور میں بھی یہ سب کچھ ہونا ہے تو پھر آمریت اور جمہوریت میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آنے والا ہر حکمران عوام کے مفاد میں کوئی بھی کام نہیں کرتا۔ جب ہر ایک قومی کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا ہو، جب اس کے پاس اپنے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے فرصت ہی نہ ہو، جب وہ خود قانون کی حکمرانی اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتاپھرتا ہو، جب وہ بلٹ پروف گاڑیوں میں درجنوں سیکورٹی اہلکاروں کے حصار میں دورے کررہا ہو، جب اس کے پاس قوم کو ریلیف پہنچانے کے لیے خالی خولی دعوﺅں کے سوا کوئی واضح ایجنڈا نہ ہو ایسے حکمرانوں سے امیدیں اور توقعات وابستہ کرنا کار عبث ہی تو ہے اور ہم ہیں کہ ان آزمائے ہوئے لوگوں کو اقتدار کا راستہ دکھاتے ہیں اور انہیں مسند اقتدار تک پہنچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور پھر ان کے تمام مظالم سہتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں بھی کوئی انقلاب کے نعرے لگائے تو تعجب تو ہوگا ناں! کہاں کا انقلاب اور کیسا انقلاب؟؟؟