URDUSKY || NETWORK

ردِعمل کا ردِعمل

92

تحریر: قاسم علی دیپالپور
27جنوری کو ایک امریکی دہشت گرد وں کی جانب سے 3پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور اب تک کی برآمدہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ریمنڈڈیوس کی رہائی تک پاکستان سے کسی بھی قسم کے تعاون اور بات چیت سے انکurdusky-writerار کر دیا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ اس کیس کا کیا فیصلہ ہو گایہاں ہم حکومت کوبہرحال خراجِ تحسین پیش کریں گے کہ اس نے اب تک عوامی خواہشات اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے جس کے باعث تاحال ریمنڈ کی رہائی ممکن نہیں ہو پائی ہے اگرچہ بعض اطلاعات کے مطابق پیر کے روزریمنڈ کی رہائی کا فیصلہ کیا جاچکا تھا لیکن اس دوران ایک مقتول فہیم کی 18سالہ جوان بیوی شمائلہ جو کہ حاملہ بھی تھی کے خودکشی کے افسوس ناک واقعے نے ”رنگ میں بھنگ”ڈال دی اور بعض مبصرین کے مطابق حکومت حال ہی میں تیونس اور مصر میں امریکی پٹھو ﺅں کے خلاف برپا ہونے والے عوامی انقلاب کو دیکھتے ہوئے بھی امریکی حکم کی تعمیل میں تذبذب کا شکار ہے لیکن وجہ جو بھی ہویہ بہرحال حقیقت ہے کہ ریمنڈاب تک پاکستان کی حراست میں ہے اور امریکہ اس دفعہ ویسے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جیسا کہ وہ اس سے قبل اپنے متعدد  ”سفارت کاروں ”کی گرفتاری پر حاصل کرتا رہا ہے جن میں سے چند واقعات کا تذکرہ میں نے اپنے گزشتہ کالم”ریمنڈس کی رہائی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی”میں کیا بھی تھا۔بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم یہاں اس گرفتاری کے بعد امریکہ اور پاکستان کی طرف سے اس ضمن میں جاری ہونے والے ان بیانات پر ڈالتے ہیں ۔

**ریمنڈ کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثناءحاصل ہے اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا،امریکی سفارتخانہ (31جنوری)                **دباﺅ کے باوجود ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔صدارتی ترجمان(2فروری)                    **ریمنڈکی گرفتاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ،امریکی سفارتخانہ(4فروری)                        **ریمنڈسفارتکار نہیں اس نے حد سے تجاوز کیا ،ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ (5فروری)                       ** ریمنڈ کے جنوبی وزیرستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں سے رابطوں کا انکشاف ہوا(6فروری)                      ** حکومت سے انصاف کی توقع نہیں ، مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ نے خودکشی کرلی(7فروری)                               ** ریمنڈ کو رہا کیا جائے،امریکی سفیر فیصلہ عدالت کرے گی،زرداری(8فروری)                       ** امریکہ نے ریمنڈ کو رہا نہ کرنے پر پاکستان سے تمام مذاکرات معطل کر دیئے(9فروری)                     **ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے وہی فیصلہ کرے گی ،کورکمانڈرز(10فروری)                    اس کے علاوہ 10فروری کو ہیلری کی طرف سے پاکستان کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی نصیحت اورپینٹاگون کی طرف سے القائدہ کی سینئر قیادت کا پاکستان میں ہونے کا بیان بھی دراصل اسی سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے کہ امریکہ پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کیلئے ایسے بیانات” بوقتِ ضرورت”جاری کرتا ہی رہتا ہے اور ”مقصد”حاصل ہو جانے کی صورت میں ”سب اچھا”ہوجاتا ہے۔اسی تناطر میں ایک اور قابلِ غوربات یہ بھی ہے کہ 27جنوری کو ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیاہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد فقط دو ہفتوں میں 44بم دھماکے ہو چکے ہیں جس سے عسکری ماہرین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے جو پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کی اکثروارداتوں میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اس لحاظ سے حالیہ دنوں میں آنیوالی بم دھماکوں کی یہ لہر بھی ریمنڈ کی رہائی کیلئے امریکی مطالبے پر پاکستان کے غیر متوقع ردِعمل کا ردِعمل دکھائی دیتی ہے۔                ان تمام حالات کے تجزیہ کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس امریکہ کیلئے اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے کہ اس نے اس کی رہائی کیلئے اس قدر دھماچوکڑی مچا رکھی ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ”دوست اور اتحادی”کے ساتھ یکدم قطع تعلقی(کاش ایسا ہو جائے)پر بھی اتر آیا ہے؟ اس کا ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہرملک اپنے شہریوں اور خصوصاََ سفارتکاروں کیلئے فکرمند ہوتا ہی ہے لیکن یہاں معاملہ اتنا سادہ دکھائی نہیں دے رہا کہ خود امریکی رپورٹوں نے ہی قاتل کے بارے میں خاصے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں اس ضمن میں بعض معتبر ذرائع ریمنڈ کو اسرائیلی خفیہ ادارے سے وابستہ ایک اہم ترین شخصیت بھی قرار دے رہے ہیں جس کے ہاتھ میں اُن پاکستان دشمن گروپوں کی کمان ہے جوپاکستان میں کاروائیاں کرتے ہیں بہر حا ل ریمنڈ جو بھی ہے اُس نے پاکستانیوں کو برسرِعام قتل کیا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کو اس کی سخت سزا دی جائے کہ”کسی امریکی کا خون پاکستانی خون سے ہرگز قیمتی نہیں ہے”