حصول پاکستان کا عظیم مقصد|نفاذ نظام مصطفےٰ ﷺ کے لئے تجاویز
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے صدقہ سے قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی قیادت میں علمائے حق ومشائخ عظام کی محنت سے ہمیں ایک اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان عطا فرمائی۔ حصول پاکستان کے مقاصد اس میں نفاذِ اسلام تھا ۔لیکن 6دہائیاں بیت جانے کے بعد بھی مقاصدِ حصول پاکستان پورے نہ ہو سکے۔ حکمرانوں سے جب بھی مطالعہ نفاذِ نظامِ مصطفےٰ ﷺ اور نفاذِ اسلام کیا گیا انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کس کا اسلام نافذ کیا جائے ۔یعنی مختلف فرقوں کا نام لے کر راہِ فرار اختیار کرتے رہے ۔اس مضمون میں نفاذِ اسلام کے لئے تجاویز رکھی گئی ہیںجو تمام مکاتب فکر و اسلامی فرقوں کے نزدیک قابل قبول ہیں ۔ نفاذِ اسلام کے مطالبہ سے حکمران بھاگ نہ پائیں گے ۔اور مقصد حصول پاکستان بھی پورا ہو سکے۔ ملک میں سب سے پہلے نفاذِ اسلام و نفاذِ نظام مصطفےٰ ﷺ کے لئے ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ اس میں حکمران بھی شامل ہیں اور عوام بھی۔
انفرادی اصلاح کا لائحہ عمل:
1۔حقیقی توبہ :اگر ہم اپنے ہاں حقیقی معنوں میں نظام مصطفےٰ ﷺ کا نفاذ چاہتے ہیں تو ہمیں خود احتسابی کے ذریعہ اپنے احوال کا ہو گا اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کر کے ،فسق و فجور کی روش چھوڑ کر اطاعت و بندگی کا رویہ اپنانا ہو گا ۔توبہ کے اس عمل سے عام شہری سے لے کر صدر و وزیر اعظم تک سب کو اپنے رب کے حضور پیش ہو کر سابقہ زندگی پر :
1۔اظہار ندامت ۔2۔آئندہ کے لئے معصیت سے اجتناب۔3۔اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنے کا پختہ عہد کرنا ہو گا۔
اگر کوئی قوم اجتماعی توبہ پر آمادہ ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ مٹا دئے جاتے ہیں۔بلکہ قوم یونس کی طرح ”فیصلہ عذاب“ بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔
2۔عدل اجتماعی کا قیام:معاشی عدل اور عدل اجتماعی نظام مصطفےٰ ﷺ کی حقیقی برکات کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔عدل اجتماعی کے قیام کے ضمن میں درج ذیل امور پر خصوصی توجہ دینا ہو گی ۔
۱۔ زکوٰة کے جمع و خرچ کا انتظام۔
۲۔ زکوٰة اور عشر کے محصولات سے غرباءاور مساکین کی بہبود کےلئے منصوبے تیار کرنا ۔
۳۔ حاجت مندوں کی بنیادی ضروریات از قسم غذا ،رہائش ،تعلیم اور علاج معالجہ کا سرکاری سطح پر بندو بست کرنا۔
۴۔ نادار ،مفلوک الحال ،معذور اور معاشی تعطل کے شکار افراد کی فہرستیں مرتب کر کے انکے وظائف مقرر کرنا ۔
۵۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زرعی نظام کی طرز پر زرعی اصلاحات نافذ کر کے ملکیت زمین کی حد مقرر کرنا ۔
۶۔ جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر کے زائدزمین کو بے زمین مزا رعوں میں تقسیم کرنا ۔
۷۔ ملکی دولت کو چند ہاتھوں میں سمٹنے کے رجحان کو روکنے کےلئے سرمایہ داری کی حد مقرر کرنا۔
۸۔ ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی ،ناجائز منافع خوری ،رشوت اور بلیک مارکیٹنگ کے قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لئے صالح اور متقی انتظامیہ کا تقرر کرنا ۔
۹۔ اراکین حکومت ،سیاسی راہنماﺅں ،انتطامیہ اور عدلیہ کے افسران کے معیار زندگی کے احتساب کےلئے ایک با اختیار محتسب کے ادارہ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔
ان اقدامات سے معاشی عدل کے قیام کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے ۔
3۔اصلاح:رائج الوقت عدالتی نظام کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق بنانا نظام مصطفےٰ ﷺ کا بنیادی تقاضا ہے :
عدالتی نظام کو نظام مصطفےٰ ﷺ سے ہم آہنگ کرنے کے لئے درج ذیل تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔
۱۔ ابتدائی سطح سے اعلیٰ سطح تک اراکین عدلیہ کے تقرر میں تقویٰ کو اعلیٰ معیار مقرر کرنا ۔
۲۔ جج صاحبان اور ان کے ماتحت عملہ کا روحانی الذہن اور پابند شریعت ہونا ۔
۳۔ جج حضرات کا فقہ اسلامی پر کامل دسترس رکھنا ۔
۴۔ رائج الوقت نظام شہادت کو اسلامی قانون شہادت میں بدلنا ۔
۵۔ عدلیہ کا سیاسی اور سماجی ہر طرح کے اثرات سے آزاد ہونا ۔
۶۔ عام شہری اور عمائدین سلطنت کا قانون کی نگاہ میں برابر ہونا اور کسی بھی عہدیدار کا عدالت کی حاضری سے مبراءنہ رکھا جانا ۔
۷۔ عدلیہ کو حدود اسلامی کے تحت آنے والے مقدمات کی تفتیش اور فیصلہ کا اختیار حاصل ہونا ۔
۸۔ اکثریتی آبادی کی رائے کے احترام میں متفقہ آئین اور فقہ کا نفاذ عمل میں لانا ۔
۹۔ ان سروس ججز کےلئے جو شرعی کورسز دئےے جاتے ہیں ان کے نصاب اور مدت تعلیم /ٹریننگ کو از سر نو مرتب کرنا ۔
انتظامیہ کی اصلاح:انتظامیہ چونکہ سربراہ حکومت کا اختیار استعمال کرتی ہے اس لئے اس کے عمال کا صاحب تقویٰ اور روحانی الذہن ہونا بیحد ضروری ہے ۔اس غرض سے :
۱۔ سول انتظامیہ ،پولیس اور دیگر محکموں کے انتظامی عہدوں پر اعلیٰ تقویٰ کے حاملین کا تقرر کیا جائے ۔
۲۔ ان میں خوف الہٰی ،خدمت خلق اور قانون کے سامنے جوابدہی کا احساس پختہ کیا جائے ۔
۳۔ معیار زندگی میں سادگی پیدا کی جائے ۔
۴۔ بوقت تقرر جائیداد کا ریکارڈ حاصل کرلیا جائے اور ہر ماہ بعد احتساب کیا جائے تاکہ رشوت لینے کا رجحان ختم ہو سکے ۔
۵۔ قانون کی عمل داری میں ہر طرح کے خوف و لالچ سے آزاد رکھا جائے ۔
۶۔ امراءحکومت ،سرکاری افسران اور دیگر شہریوں میں سے اگر کوئی سفارش کا مرتکب پایا جائے تو اس کے لئے سخت سزا مقرر کی جائے ۔
۷۔ ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر کے غرباءمیں تقسیم کر دی جائیں ۔
اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ:مختلف رائج الوقت تعلیمی نظاموں کو ختم کر کے اپنی ضروریات کے مطابق نیا نظام تشکیل دیا جائے جس کا بڑا مقصد نیک ،صالح اور متقی نوجوان تیار کرنا ہو جو بعد ازاں ایک اسلامی ریاست کے قیام میں معاونت کر سکیں اور سوسائٹی کو نظام مصطفےٰ ﷺ کی برکات سے مزین کر سکیں ۔
ارکان پارلیمنٹ اور ان کا انتخاب:دور حاضر کے سیاسی نظاموں میں پارلیمنٹ کی اہمیت بالکل واضح اور عیاں ہے ،یہی وہ ادارہ ہے جو قانون سازی ،امن و امان اور عوام کی فلاح و بہبود کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ۔نفاذِ نظام مصطفےٰ ﷺ کے حوالہ سے ا س ادارہ کی تشکیل و تنظیم کے وقت انتہائی غور و خوض اور احتیاط کی ضرورت ہو گی تاکہ ایسے لوگ آگے آئیں جو واقعتا نظامِ مصطفےٰ ﷺ کے ساتھ مخلص ہوں اور انکے سامنے سرکار دو عالم ﷺ کا وہ تاریخ ساز جملہ ہر وقت رہے جس میں آپ نے فرمایا کہ :” اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسکے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“
اب اگر اراکین پارلیمنٹ خود کو قانون سے بالا تر سمجھیں تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل اسلامی قانون اور اصول کے مطابق نہ ہو گا ۔اگر وہ اپنے خاندان یا اپنی جماعت سے منسلک لوگوں کی طرف سے قانون شکنی کی شکل میں انہیں احتساب سے بچائیں ۔قانون شکنی اپنا استحقاق سمجھیں ۔تو ہمیں نظام مصطفےٰ ﷺ کی بات کرنے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ اس صورت حال کی اصلاح کیونکہ ممکن ہو گی ۔اس ضمن میں چند تجاویز یہ ہےں۔
۱۔ ارکان پارلیمنٹ کےلئے صاحب تقویٰ ،کبائر سے پاک ،روحانی الذہن ،تعلیم یافتہ اور احکام شریعہ کا پابند ہونا لازم قرار دیا جائے ۔
۲۔اسمبلیوں کی ممبر شب کےلئے ہر علاقے کے صائب الرائے لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو موزوں اور شرائط سے زیادہ قریبی شخص کو نامزد کریں ۔
۳۔ دولت ،ثروت اور خاندان اثر و رسوخ کی بنیاد پر منتخب ہونے کی روش کو ختم کیا جائے تاکہ عام شہری بھی پارلیمنٹ میں پہنچ کر عوام کے لئے سوچ سکے ۔
۴۔ وزراءحکومت ،اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی شخصیات کے اثاثوں کا مکمل حساب رکھا جائے اور ہر 6 ماہ بعد اثاثوں کی تفصیل گزٹ آف پاکستان میں مشتہر کی جائے ۔
۵۔ارکان پارلیمنٹ کو دی جانے والی مالی مراعات (از قسم لائسنسز، قرضہ جات اور پلاٹس) ختم کی جائیں تاکہ سیاست کو کاروبار بنانے کا رجحان ختم ہو سکے ۔
۶۔ تعلیم یافتہ ،نیک سیرت ، اچھی شہرت اور جذبہ خدمت خلق رکھنے والے لوگوں کی فہرست میں سے پارلیمنٹ کا چناﺅ کیا جائے ۔
۷۔ نمائشِ دولت پر پابندی عائد کی جائے تاکہ سادگی اختیار کرنے کا جذبہ پیدا ہو ۔
امر با المعروف و نہی عن المنکر کےلئے بااختیار ادارہ کا قیام:امر بالمعروف و نہی و عن المنکر کو قرآن کریم نے پوری امت کےلئے ضروری قرار دیا،اسی طرح عوام کو بھلائی کے کاموں کی ترغیب دینے اور برائی سے روکنے کےلئے ایک ”گروپ“ تشکیل دینا ضروری ہے اور ایک ایسے ادارے کا قیام سربراہ حکومت کی ذمہ داری ہے جو اس فریضہ کو بحسن کمال سر انجام دے ۔نظام مصطفےٰ ﷺ کے نفاذ سے بڑھ کر نیکی کا اور کون سا بڑا عمل ہو گا ۔مگر نظام مصطفےٰ ﷺ کےلئے یہ ساری محنت اور کوشش اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتی ہے جب حرام ،خلاف شرع اور برائی پھیلانے والے امور پر پابندی عائد کر دی جائے ۔اس ضمن میں۔
۱۔ بے حیائی اور اس کے محرکات کا سد باب کیا جائے خواہ ان کا تعلق رسم و رواج سے ہو ،ذرائع ابلاغ سے ہو ،نظام تعلیم سے ہو یا اسے ثقافت و کلچر کے نام سے پھیلا یا جا رہا ہو۔ سب کو یکسر ممنوع قرار دے دیا جائے ۔
۲۔ ویڈیو سنٹرز کے راستے پھیلائی جانے والی بے حیائی کو بند کر دیا جائے۔
۳۔ رشوت ستانی کے تدارک کےلئے بنائے گئے قوانین کا بھر پور انداز میں نفاذ کیا جائے ۔
۴۔ اینٹی کرپشن کے محکمہ میں نیک شہرت اور خوف خدا رکھنے والے لوگوں کو مقرر کیا جائے ۔
۵۔ رشوت ،سفارش ،اقرباءپروری اور قانون شکنی کی سوچ ختم کرنے کے لئے تبلیغ و اصلاح کا راستہ اختیار کیا جائے ۔
۶۔ فضول خرچی خواہ وہ سرکاری سطح پر ہو یا پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے ،اس کا تدارک کیا جائے اور اس کی جگہ سادگی کو رواج دیا جائے ۔
۷۔ منشیات کے خلاف شروع مہم کو کامیاب بنانے کی غرض سے ان چہروں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو اس جرم کے متحرک اور ذمہ دار ہیں ۔
۸۔ معاشی استحصال کی تمام صورتیں ختم کر دی جائیں۔
۹۔ سماجی انصاف فراہم کرنے کےلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
۰۱۔ دعوة و ارشاد کا ایک ادارہ قائم کیا جائے جس میں علماء،مشائخ ،اراکین ،عدلیہ ،انتظامیہ ،مسلح افواج اور پارلیمنٹ سے نمائندگی ہو اور جس کا سربراہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا حامل اور نفاذِ نظام مصطفےٰ ﷺ کے جذبہ سے سرشار ہو ۔اس ادارے کا فیصلہ ناقابل تنسیح ہوتا کہ برائی کی بیخ کنی ممکن ہو سکے ۔
ہمارے ہاں ایک الجھا ہوا سوال یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے عمل کا آغاز کس سے کہاں سے کیا جائے ؟ اور اس کا جواب صرف ایک ہے کہ ”اولی الامر“ سے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ساری کوششیں بیکار جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے ۔ ارشاد ہے :
”تم وہ کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔“
اگر ہم واقعتااسلامی نظام کی برکات سے مستفیض ہونا چاہتے ہیں تو اجتماعی توبہ کے ذریعے آج ہی سے خود احتسابی اور اصلاح احوال کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں وطن عزیز جنت نظیر بن جائے گا۔