URDUSKY || NETWORK

ترقیاتی بجٹ سے 100ارب کی کمی

96

ترقیاتی بجٹ سے 100ارب کی کمی..!!کیوں…؟؟امریکی اخبار کا انکشاف……؟؟؟

حکمرانوں کی عیاشیاں ننگا بھوکا اور کنگلا پاکستان…….امریکی امداد لینے والا پاکستان دنیا کا دوسرا ملک بن گیاہے
پارلیمنٹرینز کے بیرونِ ملک دوروں پر عائد پابندی کا خاتمہ …حیرت ہے!!
ا ٓج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک میں برسرِ اقتدار رہنے والی ملک کی ایک بڑی عوامی پارٹی کے حکمرانوں نے قومی خزانے سے اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کے لئے استعمال میں ہونے اخراجات کو کم کرنے کے بجائے الٹاملک کے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی بجٹ میں 100ارب روپے کی کٹوتی کا اعلان کرکے ملک میں آئندہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ہونے والے اخراجات کو کم کرکے ملک میں ترقی اور خوشحالی کی راہیں بندکردی ہیں اِس ظالمانہ حکومتی منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے سترہ کروڑ عوام میں جہاں بے چینی اور غم وغصے کی لہر پیداہوگئی ہے تو وہیں اَب وہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اِنہیں اَب تک جو سہولیات زندگی میسر تھیں شائد آئندہ دنوں میں یہ اُن سے بھی محروم ہوجائیں کیونکہ جس طرح گزشتہ دنوں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کے دوران وفاقی وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی کے نام پر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پرگرام کے ترقیاتی بجٹ میں 100ارب روپے کی کٹوتی کردی ہے جس سے ملک میں جاری اور آنے والے دنوں میں ہونے والے تمام ترقیاتی منصوبے روک دیئے گئے ہیں اِس موقع پر اُنہوں نے یہ بھی برملاکہا کہ پبلک سیکٹرڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی مدمیں مختص 280ارب روپے کا بجٹ کم ہوکر اَب صرف180ارب روپے کا رہ گیا اگر اِس کے باوجود بھی ملک کی معاشی اور اقتصادی حالات بہتر نہ ہوئے تو آنے والے دنوں میں اِس میں یقینی طور پر مزید کمی متوقع ہے یہاں اس منظر اور پس منظر میں میراخیال یہ ہے کہ اِس ظالمانہ حکومتی اقدام کے بعد اَب کیا رہ جاتاہے ……؟؟کہ ملک کی مفلوک الحال عوام اِن حکمرانوں سے کسی اچھے کی اُمید باندھے رکھیں جنھوں نے اپنی عیاشیوں میں تو کوئی کمی نہ کی بلکہ اُنہوں نے اپنے اُلٹے سیدھے اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے اُلٹاعوام کی فلاح وبہبود کے لئے مختص 280ارب روپے کے بجٹ میں سے یکذمبش قلم 100ارب روپے کم کرکے اپنے ہی ملک کے سترہ کروڑلاچار اور پریشان حال عوام کو مسائل کی دلدل میں مزید دھکیلنے کا سامان پیداکردیاہے۔
اگرچہ یہ امر قرار واقع ہے کہ اِس انتہائی ظالمانہ حکومتی اقدام کا براہ راست نشانہ عوام ہی بنیں گے جو آئندہ دنوں میں توانائی سمیت خوراک ، صحت ،تعلیم ، پینے کے لئے صاف پانی اورسفر جیسی اپنی بنیادی سہولتوں سے بھی ہرصُورت میں محروم ہوکررہ جائیں گے جس سے اِن کا معیار زندگی بھی بری طرح سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گااوراِس طرح اِس انتہائی ظالمانہ حکومتی اقدام سے جہاں عوام مرنے جینے پر مجبور ہوں گے تو وہیں اِن حالات میں ملک میں عوامی اور ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی ومذہبی اور سماجی تنظیموں اور جماعتوں کی سطح پربھی حکومت مخالف کئی تحریکیں جنم لیں گی اور ملک میں ایک افراتفریح کا عالم برپاہوجائے گا جس سے پوری طرح سے نمٹنااور حالات کو کنٹرول کرناخودحکومت کے بس میں بھی نہ ہوگالہذااَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت عوامی اور سیاسی سطح پر اپنے اِس ظالمانہ اقدام کے باعث مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرنے اور خود کو ننگی تنقیدوں سے بچائے رکھنے کے لئے اپنے اِس اعلان کو فی الفور واپس لے جس کے تحت حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کتوٹی کرنے کا منصوبہ بناکریہ اعلان کیا ہے۔
جبکہ دوسری طرف ملک کی اِس ساری خراب ترین صُورتِ حال کے حوالے سے ایک امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل “ نے اپنے یہاں ایک سنسنی خیز رپورٹ میں اِس بات کاانکشاف کیا ہے کہ ”موجودہ حالات میں پاکستان امریکاسے سب سے زیادہ اقتصادی اور ترقیاتی امداد وصول کرنے والا دنیا کا دوسراملک ہے جس پر امریکیوں کو یہ شدید تشویش لاحق ہے کہ پاکستان میں موجود مقامی گروپ اِن فنڈز کو مناسب استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ کسی بھی امریکی امداد کو عوامی فلاح وبہبود کے مقاصدکے لئے اُس طرح سے استعمال کررہے ہیں جس کے وعدے پر امریکااِن کو امداد دیتاہے اِس امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں جو انکشاف کیا ہے وہ بڑی حد تک ایک طرح سے درست بھی معلوم دیتاہے کہ پاکستان امریکی امداد وصول کرنے والا دنیا کا دوسراملک ہوسکتاہے مگر اِس بات پر یقین بھی تو نہیں کیا جاسکتاکہ اِس اخبار نے جو انکشاف کیاہے وہ سو فیصد ٹھیک بھی ہوکیونکہ ہو سکتاہے کہ اِس نے یہ انکشاف پاکستان کو کسی ذہنی دباو ¿ میں لینے اور کئی دوسرے امریکی سیاسی مقاصدحاصل کرنے کے لئے بھی کیا ہومگر دوسری بات تو اِس اخبار کی بالکل درست ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اَب تک امریکا سے جتنی بھی امداد لی ہے اُسے اُس طرح عوام کی فلاح وبہبود کے خاطر قطعاَ  استعمال نہیں کیا جس کا یہ امریکا سے وعدہ کرکے وصول کیا کرتے ہیں بہرحال کچھ بھی ہے امریکی اخبار نے اپنے لحاظ سے جو رپورٹ شائع کی ہے اِس سے ہمارے حکمرانوں کو ضرور اختلاف ہوسکتاہے مگر شائدسارے پاکستانیوں کو ضروری نہیں کہ اس سے کوئی اختلاف ہو۔
اِدھربیشک روزِاول سے ہی ہر پاکستانی اِس بات کا برملااظہارکرتاآرہا ہے کہ ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان ہے اور ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اِس کی تعمیر و ترقی اور اِس کی خوشحالی اور استحکام کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اورآج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ماضی میں جس کے لئے ہر فرد نے اپنے تئیں اپنا کوئی نہ کوئی کردار ادابھی کیا ہے جس کا بین ثبوت ایک اُس کُھلی حقیقت کی طرح سے ہے کہ جس کو کسی بھی صُورت میں جھٹلایا نہیں جاسکتاہے کہ ہمارے ملک ِ پاکستان نے گزشتہ 63سالوں کے دوران جیسے تیسے اپنی جتنی بھی ترقی اور خوشحالی کی راہیں طے کیں اور اِسے اِس مقام تک پہنچنے کے لئے جہاں آج یہ کھڑاہے اِسے

کن مشکلات اور آزمائشوں سے گزرناپڑاہے آج اِس سے نہ صرف ہم بلکہ ساری دنیا بھی خُوب واقف ہے کہ ہم نے اپنے انتہائی قلیل وسائل کے باوجود جتنی بھی ترقی کی ہے اِس میں خالصتاّ  ہم پاکستانیوں کی جدوجہداور محنت شامل ہے اورساتھ ہی اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ پاکستانیوں کی اُس عظیم محنت اور لگن کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستان جیسے دنیا کے ایک انتہائی غریب اور اپنے انتہائی قلیل وسائل رکھنے والے ملک کو اِس موجودہ جدید اور سائنسی صدی میں بھی دنیا کے آٹھویں اور اسلامی ممالک میں پہلے ایٹمی ملک ہونے کا جو شرفِ عظیم حاصل ہواہے یقینااِسے اِس مقام تک پہنچانے میں ہمارے اُن اکابرین کا بھی بڑااہم کردار شاملِ حال رہا ہے جو دنیا کی اِس عظیم دھرتی کو اُوجِ ثریا تک لے جانے کا عزمِ عظیم کئے ہوئے تھے اور آج اُن کی اُن عظیم کاوشوں اور جدوجہد کی ہی بدولت ہمارے مُلکِ پاکستان کو اتنا عظیم مقام حاصل ہوگیا ہے کہ ہمارایہ عظیم ملک عظمتوں کی سرزمین کہلانے کے قابل ہے اوراِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہنے دیجئے !کہ جب سے ہماراملک ایٹمی طاقت سے ہمکنارہواہے اور اِسی طرح یہ دنیا کے عظیم ایٹمی وسائل سے مالامال ہواہے تو الحمدُللہ !تب سے اِس کے دُشمنوں کو اِس کی جانب نہ تو کبھی کسی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت ہوئی ہے اور نہ ہی اَب وہ کبھی اِس کی جانب اپنے غلط ارادوںسے دیکھ ہی سکیں گے۔
مگرآج موجودہ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں اور ملک میں رائج انتہائی ناکارہ نظام کو دیکھتے ہوئے انتہائی افسو س کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ آج اپنے اِس کہئے کی ”ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان ہے “اِس کی کوئی لاج رکھنے اور اِسے عملی طور پر مزید ترقی اور خوشحالی کی راہ سے ہمکنار کرنے اور کرانے جیسے عزمِ عظیم سے سرشار کوئی کہیں سے بھی نظرنہیں آرہاہے ۔سب اپنی اپنی گزبھر کی زبان سے لوگوں کو اپنے خالی دعووں اور وعدوں کی گُھٹی کے مزے دے رہے ہیںہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اپوزیشن رہنماو ں کا یہ بے حسی کا رویہ نہ صرف ہم پاکستانیوں کے لئے ایک المیہ ہے بلکہ دنیاکے اُن ممالک کے لئے بھی سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ جو پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے وقتاَ فوقتاَ پاکستان کو امداد اور قرضوں کی صُورت میں رقم مہیاکرتے رہتے ہیں ۔
اَب اِسے حکومتی گورَکھ دھند نہیں کہاجائے گا تو پھر آپ خود ہی یہ بتایئے کہ اِسے کیا کہاجائے….؟کہ ایک طرف توملک کی ابتر معاشی و اقتصادی حالت کے باعث ہمارے حکمران پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کتوٹی کررہے ہیں تو دوسری طرف یہی حکمرانوں نے آٹھ ماہ قبل ملک کی مخدوش معاشی صُورتحال کی وجہ سے پالیمنٹرینز سمیت وفاقی وزرا ¿کے غیر ملکی دوروں پرجو پابندی عائد کی تھی وہ بھی خاموشی سے اَب خود ہی ہمارے اِن ہی حکمرانوں نے ختم کردی ہے جس کے بعد پارلیمنٹریز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اِس پابندی کے اٹھاجانے کے بعد اِس کا سب سے پہلے جس نے پھر پور فائدہ اُٹھایا وہ اسپیکرڈاکٹر فہمیدہ مرزاہیں جن سے متعلق ایک خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزااَب اپنے لندن اور ابوظہبی کے دوروں سے واپسی کے بعد سری لنکابھی پہنچ گی جہاںاَب وہ سرکاری اوراسپانسرڈکے خرچ پر آزادی سے گھوم پھر سکیں گیں اوریوں وہ تمام مقاصدبھی پورے کر لیں گیں جس کے لئے اُنہوں نے یہ غیر ملکی دورے کئے ہیں۔
اگرچہ کچھ ذرائع پارلیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروں پر سے عائد پابندی اُٹھاجانے کے حکومتی فیصلے کے حوالے سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کی بدترمعاشی و اقتصادی صُورتِ حال کے باوجود بھی حکومت میں شامل (ماسوائے چندایک کو چھوڑکر) اکثر اتحادی جماعتیں پارلیمانی سطح پر غیر ملکی دوروں کی اجازت کے لئے اصرارکیاکرتی تھی جو اپنے اِس مو قف پر متحدبھی رہی تھیں جس کی وجہ سے حکومت کو خاموشی سے اپنایہ فیصلہ کرناپڑاہے اُدھر جس روز پالیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروںپر سے پابندی اٹھائی گئی اُسی روز صدر آصف علی زرداری سے 24گھنٹوں کے دوران وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے دوبار ملاقاتیں بھی کیں کہاجاتا ہے کہ اِن ملاقاتوں میں ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی صُورت حال کے حوالوں سے خصوصی طور پر تبادلہ خیال کیا گیاتھا وہیں یہ پابندی اٹھائے جانے کا بھی فیصلہ کیا گیااور اِس کے ساتھ ہی ایک خبر یہ بھی ہے کہ اِس دن صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی کورکمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہاتھا کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر اتفاق رائے موجودہ حکومت کی پالیسی کا اہم حصہ ہے اور ہماری حکومت سیاسی اور اقتصادی مسائل کو اتفاق رائے سے حل کرناچاہتی ہے اور پھر اِس کے بعد یہ ہواکہ حکومت نے خود ہی ملک کو معاشی مسائل کا حل پالیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروں پر عائد پابندی اٹھاکر اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے 100روپے کی کٹوٹی کا منصوبہ تیار کرکے نکال لیا ۔
اَب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پالیمنٹرینز پر غیر ملکی دوروں پر عائد پابندی اُٹھانے سے ملک میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا یا کمی یہ بات اَب کوئی ہمارے اِن صدر مملکت آصف علی زرداری کو جو غضب کی فہم وفراست رکھتے ہیں سمجھائے اور ہمارے اُن مصالحت پسند وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی علم میں بھی یہ بات لائے کہ اِن کے اِس اقدام سے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوگا…..؟؟ جو اُنہوں نے آٹھ ماہ قبل ملک کی مخدوش معاشی صُورت حال کی وجہ سے پالیمنٹرینز سمیت وفاقی وزرا  کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائدکررکھی تھی اورپھر خود ہی اِن لوگوں نے یہ پابندی اٹھابھی لی ہے اور اِس پر ظلم یہ کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کتوٹی کا حکومتی اعلان کسی بھی لحاظ سے نہ تو عوام کے حق میں ہے اور نہ ہی یہ حکومتی اقدام ملک کے بہتر مفادات میں ہے۔میرااپنے حکمرانوں کو یہ مشورہ ہے کہ اِنہیں یہ چاہئے کہ وہ آنکھ بندکرکے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اِس کے بارے میں اچھی طرح سے سوچ سمجھ لیں کہ اِن کے کسی بھی فیصلے سے عوام اِس سے نفسیاتی طور پر کتنے متاثر ہوں گے اور اِن پرکتنا معاشی بوجھ پڑے گا تو پھر کوئی فیصلہ کریں ورنہ پھر وہ اپنے اِن ہی عوام دشمن اُلٹے سیدھے اعلانات اور منصوبوں کی وجہ سے ننگی تنقیدوں کا نشانہ بنتے رہیں گے جیسے یہ اِن دنوں بُری طرح سے اِس کی زد میں ہیں۔