URDUSKY || NETWORK

کیا ہم مسلمان کہلانے کے حقدارہیں؟

9

محمد وجیہہ السمائ
آج قلم اٹھا نے سے پہلے دل کو بہت مضبوط کر نا پڑا کیو نکہ آ ج سے سات سال قبل جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا اس وقت خود سے عہد کیا تھا کہ کبھی بھی دین کے مطلق نہیں لکھوں گا کیو نکہ دین کے بارے میں انسان نقص العقل ہے۔ جس سے غلطی کا خدشہ رہتا ہے اس لئے جو جیسا ہے جہا ں ہے اس کا اپنا ایمان ہے تقوی ٰ ہے اور اس سے بڑ ھ کر ہمارے دین کو ہی کئی شکلوں میں با نٹ دیا گیا ہے اس لئے اس پر بات نہیں کر سکتا۔جیسے ایک انگریز اسلام قبول کر نے کے لئے آ یا تو اہلسنت نے اپنے عقا ئد کو صحیح کہا تو اہل تشیح نے اپنے عقا ئد کو ٹھیک کہا۔ پھر وہ کسی دوسرے کے پاس گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا ۔انگریز جھنھلا کر بولاان میں سے ”اصلی دین“ کو ن سا ہے؟یہ باتیں میرے کالم کے با رے میںہیں یا نہیں۔ اس کا فیصلہ ا ٓپ کریں۔ مگر اپنی اخلاقی پسماندگی کو دیکھتے ہو ئے اس مسئلے پر قلم اٹھا رہا ہو ں کیو نکہ ہمارے لوگوں نے اس ”دین “پر سیا ست چمکا ئی ہو ئی ہے ہر کو ئی اس کا نام استعمال کر کے فائدے حا صل کرر ہا ہے۔ اپنے معاشرے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو وہ کو ن سی اخلاقی بیماری ہے جو ہم میں نہیں ؟شراب ، زنا، کلب، منشیا ت کے بازار،چوریاں، ڈاکے قتل و غارت، ناجائز منا فع خوری، حوس کے بازار، مال میں ملاوٹ ، ڈاکٹر بھیڑیئے، سیاست دان جھوٹے ،دام اصل چیز کے اور چیز کسی اور حالت میں دیتے ہیں بے ایما نی ہمارے جسم میں خون کی طرح داخل ہو چکی ہے ہر کام میں رشوت ثواب کے طور پر لینا فر ض سمجھا جا تا ہے لوگوں کے کاموں میں روڑے اٹکا کر اپنے لیئے فا ئدے حا صل کر نا اعزاز کی بات سمجھا جا تا ہے ایک مسلمان دوسر ے مسلمان بھا ئی کو ایذا دے کر اپنے دل کو خوشی سے ہمکنار کر تا ہے چیزوں میں ملاوٹ کر کے اپنے لئے دولت کے انبار لگا ئے جا رہے ہیں مرچ ہو یا ہلدی چینی ہو یا پتی ، گھی ہو یا کو ئی اور چیز کو ئی بھی ان لوگوں کی فرعونیت سے محفوظ نہیںاور تو اور ان درندوں کے ہاتھوں تو انسان کو زندگی دینے والی ادویات بھی محفوظ نہیں رہیں وہ بھی جعلی آ رہی ہیں وزن کم ہم تولتے ہیں رشوت ہم کھا تے ہیں زمینوں ، مکانوں اور جا ئیدادوں کے لئے خون ہم کر تے ہیں ۔ غنڈہ گردی ہم کر تے ہیں اور جگا ٹیکس ہم وصول کر تے ہیں ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی میں ہم سے بڑھ کر کو ئی نہیں، گو یا تمام کی تما م اخلاقی بیماریاں اور اخلاقی پسماندگی ہمارے اندر موجو د ہے۔ مگر اس کے با وجود حکومت اور لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم سب مہذب ہو تے جا رہے ہیں لوگوں میں اخلاقی معیار دن بدن بہتر ہو تا جا رہا ہے ہمارا تعلیمی معیار روز برو ز بڑھ رہا ہے کئی سینکڑے یو نیورسٹیاں ، ہزاروں کالجز، اور لاکھوں سکول بچوں کو تعلیم جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کر رہے ہیںوہاں بیٹھے استاتذہ بھی ان urdu-writerکو ایک اچھا انسا ن بنا نے کے لئے دن رات ایک کیئے ہو ئے ہیں تو پھریہ قصور کس کا ہے کو ن ان بے انتہاءبھیا نک بیماریوں کا با عث بن رہا ہے؟ لوگوں کو گمراہی کی طرف دھکیل رہا ہے کیوں انسان گناہ کی دلدل میں گرتا جا رہا ہے؟ ۔ اس کا جواب بہت آسان اور سادہ ہے کہ دین سے دوری نے ہم سے ہماری اصل شناخت چھین لی ہے ہمارا خون سفید ہو گیا ہے کیوں کہ ہم نے ا سلامی تعلیمات کے برعکس صبر و شکر کی بجائے دولت کے حصول کو ہم اپنی زندگی بنا لیا ہے ۔دین نے بھرپور الفاظ میں رشوت دینے اور لینے والے پر عذاب کا فرما یا ہے حدیث شریف میں ارشاد ہے”رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘ ‘ملاوٹ کر نے ،ناجائز منا فع خوری ،پر بھی سخت وعید سنا ئی ہے مگر ہمیں ان باتوں سے کیا ۔ایک پٹواری رشوت نہ لے تو اس کے گاڑیاں ، بنگلے اور کو ٹھیاں کیسے بنےں؟ ایس ایچ او رشوت نہ لے تو اس کے اکا ﺅنٹ کیسے بھریں اس کے بچے کیسے مہنگے مہنگے سکولوں میں پڑھیں بڑے بڑے لوگوں کے کرتوت چھوڑیں ایک صفا ئی کر نے والا اس وقت تک گلی صا ف نہیں کر تا جب تک اس کو اوپر کی کما ئی حا صل نہ ہو۔ اس سے اوپر بزنس مین اور سیا ست دان ہیں ان کے کر توت تو ویسے ہی دنیا جا نتی ہے اور اخبارات و با قی میڈیا میں آ تے ہی رہتے ہیں ۔آج جس کو دیکھو اپنے ملک کو کوستا نظر آتا ہے کہ وہ ہمیں کچھ نہیں دے رہا جب کہ ہم سب ہی اس کے آنگن کو ریزہ ریزہ اور خون کی ندیوں میں بدل رہے ہیں۔ یہ بات یادرکھنے والی ہے کہ سب سے پہلے ا پنا احتساب کر نا ہو گا ہمیںخود کو بدلنا ہو گا۔ فر د سے گھر گھروں سے محلے اور محلوں سے شہر بنتے ہیں اور گاﺅں اور شہروں کو ملا کے ملک بنتے ہیں اس لئے اب بھی خود کو سنبھال لیں تو ملک سنور سکتاہے لوگوں کو خو شیاں مل سکتی ہیں۔ اور اسلام پر عمل پیرا ہو کر خود کو اپنے لوگوں کو اور ملک کی عوام کو خوشیاں دے سکتے ہیں۔کیو نکہ اس دین نے جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے نے ہر ایک کے لئے اچھی زندگی کا طریقہ کار بتا یا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔