آہ !..قوم کے لئے اِنصاف ،برداشت اور صَبروتحمل کی تلاش
آہ !..قوم کے لئے اِنصاف ،برداشت اور صَبروتحمل کی تلاش ہے
برداشت اور صَبروتحمل کسی کو ملیں تو قومی اسمبلی یا ایوانِ صدر میں پہنچادے
کراچی کو اِنسانی خُون سے نہلانے والے کون ہیں?
محمداعظم عظیم اعظم
آہ ! یہ کتنے اَفسوس کا مقام ہے کہ اپنی اپنی دال دلیہ چلانے کے لئے آج ہمارے حکمرانوں سے لے کر ساری پاکستانی قوم ہاتھوں میں کشکول اُٹھائے جہاں اغیار سے ڈالروں کی بھیک مانگتی پھر رہی ہے تو کیا اِ س نے کبھی یہ بھی سوچاہے …؟کہ اِس کے علاوہ بھی اِسے زندہ رہنے اور دنیا میں ترقی اور کامرانی کا لوہامنوانے کے لئے اور کن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ….؟نہیں شائد کبھی اِس کا اِس جانب خیال بھی نہ گیاہو….کیوںکہ گزشتہ 63سالوں میں ہماری قوم اور حکمرانوں کو دال دلیہ کے چکروں میں اُلجھانے اور پھنسانے والے اِن ہی اغیار نے ہمارے ذہنوں کو ایسا مفلوج اور بے حِس کر کے رکھ دیاہے کہ ہماری قوم کے حکمران اور ہم دال دلیہ کے چکرسے باہر نکل ہی نہیں پائے ہیں کہ یہ بھی سوچ سکیں کہ ہمیں زندگی گزرانے اور دنیا کے دیگر معاملات کو چلانے کے لئے اِنصاف، صُبروبرداشت اور تحمل مزاجی کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کے اور دوسری چیزوں کی اہمیت ہے مگر مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آج بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکمرانو، سیاستدانو(اوراپوزیشن کی جماعتوںسمیت) عوام تک میں اِنصاف، رواداری، صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کا عنصر کہیں سے بھی نظرنہیں آتاہے اِس کی صرف ایک وجہ یہ واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ہم سب نے اِن کے حُصول کے خاطر کبھی کوششیں ہی نہیں کیں ہیں اگر کرتے تواِن کی کیا مجال تھی… ؟کہ یہ ساری چیزیں(اِنصاف، رواداری،صبروبرداشت اور تحمل مزاجی اور بہت سی اِن جیسی اچھی خُوبیاں ) ہم میں پوری طرح سے پنہاں نہ ہوجاتیں…مگر اِس کے باوجود بھی میں اَب بھی نااُمید نہیں ہواہوں بلکہ پوری طرح سے پُر اُمید ہوں کہ ہماری قوم کو پھر بھی اپنے لئے اِنصاف، رواداری ، صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کی تلاش ہے یہاں میرااپنی قوم کے ایک ایک فرد سے یہ کہنا ہے کہ ا گر کسی کے پاس یہ تمام خُوبیاں موجود ہوں تو براہِ کرم ! وہ جلدازجلد اِنہیں قومی سمبلی یا ایوانِ صدر میں پہنچاکر ملک و قوم کو تباہ و برباد ہونے سے بچانے میں اپنا قومی فریضہ اداکرے کیوںکہ یہاںمجھے اَفسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے آج اِن خُوبیوں سے عاری ہماری قوم کا اُوپر سے نیچے تک یہ عالم ہے کہ یہ اِن کے بغیربوکھلاہٹ اور پاگل پن کا شکارہوکر رہ گئی ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے اور کسی بھی معاملے میں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے یوں تو سب بظاہر اچھے بھلے نظر آتے ہیں مگر ہماری سوچیں اور ہمارے فعل کسی آدم خُور درندے جیسی فطرت پر آکررُک گئے ہیں اوراَب ہم نہ صرف اپنے ہی لئے نہیں بلکہ کسی دوسرے کے لئے بھی اِس سے آگے کچھ اچھاکرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
ہم زیادہ دور کیوں جائیںاَب اِسی کوہی دیکھ لیں کہ گزشتہ چاردنوں کے دوران شہرکراچی میں اِنسانی جانوں کی خون کی ہولی کچھ اِس طرح سے کھیلی گئی کے اِس عرصے میں رونماہونے والے پُرتشددواقعات میں کئی معصوم اِنسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں کی سرکاری اور نجی املاک کو علیحدہ نذرِ آتش کردیاگیااِن واقعات کے پیچھے کن لوگوںکا ہاتھ تھا اور کن عناصر نے کراچی کی سڑکوں کو اِنسانی خُون سے نہلایا….؟؟اِن عناصر کو ممکن ہے کہ ہمارے حکمران جانتے ہوں مگر شائد وہ مصالحت پسندی کی وجہ سے خاموش ہوں بہرکیف! چلیں یہ بھی اِن کے نزدیک کسی کوراہِ راست پر لانے اور نیک اِنسان بنانے کا کوئی بہترہوں ۔(جبکہ اِن واقعات میں شروع کے دودن وہ بھی شامل کرلیں جن میں صدر اور وزیراعظم دونوں ہی شہرکراچی میںخود بھی موجود تھے) مگر یہاں ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملک کی اِن دونوں اہم ترین شخصیات کی شہر کراچی میںموجودگی کے دوران بھی اِنسانوں کو یوں قتل کیاجانا کیا تاثر دیتاہے ….؟؟یقینااِس کی کوئی مناسب وجہ بتانا….اور اِس کا کوئی بہتر حال تلاش کرنا اربات اختیار اور اقتدار دنوں کی جہاں ذمہ داری ہے تو وہیں اِن شخصیات کے لئے بھی اتنی بڑی تعداد میں اِنسانی جانوں کی ہلاکت ایک سوالیہ نشان ہے تو ساتھ ہی ایسے واقعات کا ہونااِن کی بدنامی کا بھی باعث ہے کہ صدراور وزیراعظم کی موجودگی کے دوران دنیا کے بارہویں انٹرنیشنل شہراور پاکستان کے سب سے بڑے مرکزی صنعتی وتجارتی حب شہرکراچی میں یوں اِنسانی جانوں کی خون کی ہولی کھیلے جانے کاکیا مطلب تھا….؟؟اوربغیر کسی وجہ کے معصوم اور بے گناہ اِنسانوں کے خُون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے عناصر پُرتشدد واقعات سے کیا بتاناچاہتے تھے ….؟کہیں یہ تو نہیں وہ یہ بتاناچاہ رہے ہوں کہ ہم میں اِنصاف، رواداری، صبروبرداشت اور تحمل مزاجی نام کی بھی نہیں رہ گئی ۔اوراِس کے ساتھ ہی شہر میں اپنی قوت اور سفاکیت کا بیدریغ استعمال کرنے اور اِس کا امن و سکون تباہ و بربادکرنے والے کہیں یہ بھی تونہیں جتاناچاہ رہے ہوں کہ کوئی ہم سے نہ ٹکرائے ہم وہ سب کچھ کرنے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں جو کوئی نہیں رکھتا …. جیساکہ بقولِ شاعر :-
یہ کہہ رہا ہے آج کراچی میں ہر لہو جلّاد کررہے ہیں یہ پیروجواں کا خُون
کچھ اِس میں اپنے راہنماو¿ں کا ہاتھ ہے سفاک کررہے ہیں کچھ امن و امان کا خون
اوراِس کے ساتھ ہی شاعر نے یہ بھی عرض کیا ہے کہ :-
اچھا نہیں ہے درد کے ماروں کو چھیڑنا کہہ دے کوئی یہ حاکمِ عالی مقام سے
آجائے اِس کی زدمیں نہ”ایوانِ خاص“ بھی طوفان اُٹھ رہاہے جو”دِیوان عام “سے
کہاجاتاہے کہ آبادیوں میں ±قومیں بستی ہیں اور قوموں میںآدمی پیداہوتے ہیںاور اِن ہی آبادیوں میں جوآدمی پیداہوتے ہیں وہی آدمی ا پنی قوموں اور آبادیوں میں انقلاب برپاکرنے کا بھی سبب بنتے ہیں اور اِن ہی آدمیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جووقت اور حالات سے گزرنے کے بعد اِنسان تہذیبی عمل سے بھی بن جاتے ہیں اِس لحاظ سے آج اگر ہم اِس بات کا موازنہ کریں کہ ہمارے ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ آدمیوں میں سے ہم نے کتنے اِنسان تہذیبی عمل سے بنائے ہیں…..؟؟ اور کتنے اِنسان اِس عمل سے گزرنے کے بعد ملک میں کسی تہذیب کو پروان چڑھانے میں اپنا کوئی نہ کوئی مثبت کردار اداکررہے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم میں اِن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے بہرحال !میں یہ سمجھتاہوں کہ کسی بھی آدمی کو تہذیبی عمل سے گزرنے میں جو نکتہ سب سے کارآمد ثابت ہوتاہے وہ عد ل اور صَبروبرداشت اور تحمل مزاجی کا ہے یعنی آدمی کو پیداہونے کے بعد اِسے کسی تہذیبی سانچے میں ڈھلنا ہے تو اِس کے لئے عدل کے ساتھ ساتھ صَبروبراشت اور تحمل مزاجی کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا اِسے زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی اور خوارک جیسی زندگی کی بنیادی اشیاءہیں یعنیٰ اِسے آپ یوں بھی سمجھ لیجئے کہ ا گر کسی بھی آبادی سے عدل کو دیدہ و دانستہ طور پر مفقود کردیاجائے تواُس آبادی میں باقی اچھائیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں اور وہاں کے اِنسان مایوس ہوجاتے ہیں اور جب کسی بھی آبادی کے اِنسان عدل سے مایوس ہوجائیں یا کردیئے جائیں تو پھر اِن آبادیوں میں آدمی تو پیداہوتے ہیں مگر کوئی اِنسان تہذیبی عمل سے نہیں بن پاتا کیونکہ اُن آبادیوں میں آدمی تو رہتے ہیں مگر وہ آبادیاں فسادات سے بھر جایاکرتی ہیں یعنی مختصراََ یہ کہ جس معاشرے میں اِنصاف نہیںہوتا اِس میں کبھی بھی اِستحکام نہیں آسکتااورلوگوں کو گمراہی سے نہیں نکالاجاسکتاہے اِس موقع پر یہاں مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت دیجئے !کہ بدقسمتی سے آج ہماراملک بھی اُس آبادی کی طرح ہے جس میں ہر دورِمیں آدمی تو کثرت سے پیداہوتے رہے ہیں مگر جواپنے اندر سے کوئی بھی ایساانسان تہذیبی عمل سے پیدا نہیں کر پائی ہے جس پر یہ فخر کر سکے اوریہ کہہ سکے کہ یہ انسان اِس کی مکمل تہذ یبی شناخت کا حامل ہے اور آج شائدایساہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہورہاہے کہ ہمارے یہاں ہر دورِ میں ہر آبادی میں آدمی تو پیداہوئے مگر ہم کوئی بھی اِنسان تہذیبی عمل سے پیدانہیں کرسکے ہیں کیونکہ ہر دورِحکومت میں حاکم الوقت نے عدل کو دیدہ و دانستہ طور پر مفقود رکھا اورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج کے حکمرانوں کی سوچ بھی عدل کے حوالے سے اپنے پیش روسے کوئی مختلف نہیںہے اوریہ بھی اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر چل کر سابقہ حکمرانوں نے عدل کا گلاگھونٹا اور اپنی مرضی سے ہرسیاہ کو سفید اور اِسی طرح ہرسفید کو سیاہ کرتے رہے۔آج جس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ ہمارے معاشرے سے جب عدل ختم ہواتو پھر خود بخود ہم میں برداشت اور صَبروتحمل کا فقدان پیداہوگیااور آج ہم ا پنی اِسی کمزروکو دور کرنے کی سعی بھی نہیں کررہے ہیں اور اُلٹا عدل و اِنصاف مُہیاکرنے والے اداروں کی حُوصلہ شکنی کرنے کو اپنے لئے شان و عظمت کا باعث سمجھ رہے ہیں جس سے ہماری آبادیوں سے عدل یقینی طور پر مفقودہوگیاہے۔ اور اِس کے ختم ہونے سے ہماری آبادیوں میںہر طرف قتل وغارت گری کا راج قائم ہوگیاہے جیساکہ کچھ دنوں سے ہمارے شہر کراچی کی گلی کوچوںمیں آگ و خُون اور موت کا رقص جاری ہے اِس کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہم میں اِنصاف، محبت ، اُخوت ومساوات، ملی یکجہتی، رواداری، برداشت اور صَبروتحمل کا مزاج ختم ہوکررہ گیاہے جس کی وجہ سے ہم بے شمار معاشرتی بُرائیوں کے شکار ہوگئے ہیںیقین جانیئے کہ ہم اِن تمام بُرائیوں سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں بس ہمارے حکمران ، سیاستدان (اپوزیشن کے سیاسی رہنما)اورعوام اپنے اندر اِن تمام اچھی خُوبیوں جن میں اِنصاف کا حُصول اور آپسمیں محبت و اُخُوت ،مساوات ، ملی یکجہتی ، رواداری ، برادشت اور صَبروتحمل کا مزاج شامل ہیں اِنہیں پیداکرنے کی جستجو شروع کردیں تو ہمارے ملک میں بھی بہت سی مثبت تبدیلیاں رونماہوجائیںگی۔اور ہر طرف امن و سکون قائم ہوجائے گا۔