انڈین ڈراموں اور فلموں کے شوقین ایک طلسم ہوشربا ملاحظہ کریں، روح پرور اورآنکھیں کھول دینے والی ویڈیو حاظر خدمت ہے

کب سمجھو گے؟

انڈین ڈراموں اور فلموں کے شوقین ایک طلسم ہوشربا ملاحظہ کریں، روح پرور اورآنکھیں کھول دینے والی ویڈیو حاظر خدمت ہے

جنکا کنکشن سلو ہیں انکے لیے اس میں موجود شاعری لکھ دیتا ہوں ۔کوئی غلطی ہو تو معاف کر دینا
ارے آپ شیر ہیں شیر
اور شیر تو جنگل کا راجہ ہوتا ہے
اور شیروں کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا
بتا دو ان لوگوں کو
ان پاکستانیوں کو،عیسائیوں کو
کہ ہم ڈرتے نہیں ان بموں سے وسپوٹوں سے
ہم ڈرتے ہیں تاشقند اور شملہ جیسے سمجھوتوں سے
سیاہ بھیڑیوں سے ڈر سکتی نہیں ہم سنگھوں کی اولاد نہیں
بھرت ورن کے اس پانی کی ہے تم کو پہچان نہیں
ایتم بم بنا کر کے تم اسکو چلانا بھول گئے
65،71 اور 99 کی یدھوں کو بھول گئے
تم یاد کرو عبدالحمید نے پیٹن تینک جلا ڈالا
ہندوستانی فوجوں نے پاکستان کا امریکی جیٹ جلا ڈالا
تم یاد کرو غازی کا بیڑہ ایک جھٹکے میں ہی ڈبو دیا
ڈھاکہ کے جنرل نیازی کو دودھ چھٹی کا یاد دلا دیا
تم یاد کرو ان توے ہزار بندی پاک جوانوں کو
تم یاد کرو شملہ میں اندرہ کے احسانوں کو
پاکستان یہ کان کھول کر سن لے
یا پھر جنگ چھڑی تو سن لے
نام و نشان نہیں ہوگا
کشمیر تو ہوگا لیکن پاکستان نہیں ہوگا
لال کر دیا تم نے خون سے سری نگر کی سوہنی گھاٹی کو
کس غفلت پر کھیل رہے تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھاٹی کو
زہر پلا کر مذہب کا ان کشمیری پروانوں کو
روپیہ لالچ دکھلا کر تم بھیج رہے نادانوں کو
کُھلے کیمپ، کھلی ٹریننگ اور ہتھیار دئیے ، یہ کھلی ہوئی شیطانی ہے
پوری دنیا جان چُکی یہ حرکت پاکستانی ہے۔
بہت ہو چکی مکاری، بس بہت ہوچکا جھوٹ
اپنے لوگوں کو سمجھا لو ورنہ
تمہارے دیس کا ہر کونہ بھبھک اٹھے گا
دیش اگرہو گیا کھڑا تو
تار تار مچ جائے گی
پاکستان کے ہر کونے میں مہا بھارت مچ جائے گی
کیا ہوگا انجام تمہیں اس کا انومان نہ ہوگا
کشمیر تو ہو گا لیکن پاکستان نہیں ہوگا
یہ ایٹم بم پر ہمت کون دکھلائے گا
انہیں چلانے کو بھلا باپ تمہارا آئے گا
اب کی فکر نہ کر
چہر کا خول بدل دیں گے
تاریخ کی کیا بات ہے
اتہاس (جغرافیہ) بدل دیں گے
دھارا اپنا بدل کر لاہور سے گزرے کی گنگا
اسلام آباد کی چھاتی پرلہرائے کا بھارت کا جھنڈا
راولپڈی اور کراچی تک سب غارت ہو جائے گا
سندھو ندی کے آر پار پورا بھارت ہو جائے گا
پھر صدیوں صدیوں تک جناح جیسا شیطان نہیں ہوگا
کشمیر تو ہوگا لیکن پاکستان نہیں ہوگا
بدرالزمان بلوچ
کوئٹـہ ۔ پاکستان

__________________

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ،آج تک آپ اس طرح کی معرکہ آراء باتیں قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں ، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج کے دور میں ٹیلی ویژن نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوں میں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناہی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوش ربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔
اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ ان میں نہ صرف ہندو مت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان ڈراموں کے طلسم میں جکڑے ہوئے لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نئی قسط میں ایک نیا مذہبی سبق (Course)حاصل کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سبق کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس تربیتی پروگرام کو کبھی نہ بھولنے والے خوبصورت مناظر میں قلم بند کیا جاتا ہے۔ ایک بچے کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے کے بعد تک کی تمام ہندو مذہبی رسومات کو اعلیٰ ڈرامائی شکل دے کر جو اسباق مرتب کئے گئے ہیں ان کے شاندار نتائج سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔ اب اگر ایک مسلمان بچے کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں کا اوڑھنا بچھونا ہندوانہ ہو تو اس سے کس مستقبل کی اُمّید کی جا سکتی ہے؟ ایجادات اور تفریح کے اس دور میں کہیں ہم اپنا وجود تو نہیں کھو چکے؟ آج احساس نام کی کوئی چیز میسر آ جائے تو غنیمت جانئے اور صرف ایک بار تفریح کی عینک اُتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیبل و انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ من پسند زندگی گزارے۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ رسل و رسائل کے ذرائع کو کسی معیار کا پابند بنایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ وہ حقیقت سے شناسا ہوں۔ آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کو معمولات زندگی سمجھ کر سیکھ رہا ہے تو کل کو وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنا ”اسلامی تشخص“ تلاش کرے گا؟
ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا credit  کریڈ ٹ اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ اُمید یہ ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے (Stage) پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔
جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو احساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اُتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔
آج اگر میں ایک بھی فرد کو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو جاؤں گا تو سمجھوں گا کہ میں نے اس قلم کا حق ادا کر دیا ہے جو میرے ذمہ تھا۔ تحریریں لکھنے کا یہ مقصد نہیں کہ کوئی مفاد حاصل کیا جائے بلکہ اپنے اندر سے اٹھنے والی وہ آواز جو کہ نوشتہ دیوار کی طرح وارد ہو رہی ہو سب کے سامنے رکھ دینا چاہیے تا کہ کوئی تو راہ پائے۔ میری قوم کا مجھ پہ فرض ہے کہ میں ہر وہ سچ جو ملاوٹوں (Impurities)سے متاثر ہو رہا ہے اس کو جھوٹ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کروں۔ آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ (Imported) اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟ میری گزارش ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے اِن تحریروں میں پڑھیں اپنی روز مرہ کی گپ شپ میں کم از کم دو تین دن تو ضرور اس کو شامل کریں، ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو جائے اور آپ اپنے حصے کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہو سکیں۔
خیر اندیش
محمد الطاف گوہر
آپکی آرا کا انتظار رہے گا

C
urduskywww.urdusky.com
Comments (18)
Add Comment
  • arifkarim

    سب سیاست ہے جناب۔۔۔۔۔

  • SHUAIB

    خاتون جو بھی ہو ماشاءاللہ بہت خوب بولتی ہے ـ

  • talkhaaba

    کیا اب بھی انکھیں نہیں کھلنی چاہیے؟

  • salman

    ya khuwab hay or khuwab kabhi sach nahi hota i hate india

  • ڈفر - DuFFeR

    اسی سٹار پلسی کا تو مسئلہ ہے جی
    مجھے یہ نہیں سمجھ آتی کہ دیکھنے لائق ان چینلوں پر ہے ہی کیا؟

  • Obaid

    @ Hassan

    جناب احمدی مشرک اور بھٹکے ہوے لوگ ہیں! جو بھی نبوت کا دعوا کرتا ہے کافر اور مشرک اور بھٹکا ہوا ہے، اور اسلام میں واجب القتل ہے! اسلامی ریاست میں کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کرنے والا بھی واجب القتل ہے! آپ کو یہ باتیں پتا ہونی چاہیے ہیں اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ کو اسلام کے بارے میں تھوڑا سا علم ہے… جو انسان مذہب اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیاں کر لے اس کی سزا بھی قتل ہے!

  • Obaid

    @ Hassan

    اور اگر کوئی عیسائی، ہندو، احمدی، سکھ ، یہودی اسلامی ریاست میں اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے ،تو اسے یہ حق حاصل ہے ، مذہب ے پرچار کومنع کیا گیا ہے مگر مذہب کی Practice کو منع نہیں کی گیا، اگر احمدی مذاہب کے لوگ یہاں اسلامی ریاست میں رہ کر اپنے مذہبی فریضے سر انجام دیتے ہیں تو انھیں کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے ،

  • Obaid

    @ Hassan

    اور یہ بات طے ہے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں! اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے
    مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے!

  • Qaiser Khan

    what a rubish thinking of this little girl, she did’t knows about PAKISTANI’S.

  • انعام المصطفیِ اعظمی

    سب سے پہلے تو میں اپنے اسلامی جذبات کا اظہار ان لفظوں میں کرنا چاہوں گا کہ۔۔۔۔
    ہندووں یاد رکھو کہ جس گاءے کو تم خدا کہتے اور مانتے ہو اسے ہم مسلمان شوق سے کھاتے ہیں تو جب تمھارے خدا کا یہ حال کردیتے ہیں تو پھر بندوں کی کیا درگت بناءیں گے۔
    بتانے کی ضرورت نہیں ہم جانتے ہیں کہ تم شیر ہو۔۔۔۔۔۔۔ کاغذی شیر یا چڑیا گھر کے شیر۔۔۔۔۔؟
    اور جانتے ہو ہماری تاریخ اپنے ان باپ دادوں راجہ مہاراجاوءں سے پوچھو جنہیں ہمارے سلاطین نے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا یاد رکھو محمد کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

  • انعام المصطفیِ اعظمی

    نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پڑحا جاءے مجھ سے غلطی میں ح کی ھ استعمال ہوگیا۔ دل و جان سے اللہ پاک کی بارگاہ میں اور بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں معذرت خواہ ہوں
    محمد کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

  • Sarmad

    tum jis taak me bethey ho
    wo taak hum mitta dengy
    agr hum pakistani khare hue
    to hindustan ko mitta dengy

  • sameena

    qabile nafrat hain ye hinduz in ko khatam kernay kay liye jihad farz ho gaya hay hay. 

    • بزم اردو

      ہمارے میسنجر کی ایڈمن محترم مریم جی نے جب پیج دیکھا تو حبالوطنی کے جوش میں انہوں نے اسی وقت یہ آرٹیکل لکھ ڈالا ملاحظہ فرمائیے

      مریم 

      کب تک کوئی جگائے گا

      (دلکش کے ایک لگائے ہوئے آرٹیکل کو پہلے پڑہیۓ فورم میں پھر آپ پڑھ لیں گے )

      بہت کم الفاظ ایسے ہوتے ہیں جواپنی جانب راغب کرتے ہیں اور پھر ان کو پڑھنے کے بعد بھی ایک عرصے تک یا تو انکی ٹھنڈک آپکو یاد کرتے ہی اپنے وجود میں اترتی محسوس ہوتی ہے ـ
      یا پھر ان میں کڑواہٹ اتنی ہوتی ہے کہ ان کو زندگی کے ہر تلخ اور برے تجربے میں آپ یاد کرتے ہیں اور انکی کڑواہٹ اور کسیلا پن اسی طرح اپنے حلق میں محسوس کریں گے
      آج عرصے کے بعد ہمارے سوئے ہوئے زہنوں کو شائد جھنجھوڑ دیا اس تحریر نے

      لیکن
      شکریہ
      دلکش

      ہم جیسوں کو یہ چاہیۓ ہوتی ہے چھڑی یا کوئی ایسا گھونسہ یا ایسا طمانچہ جس کی چٹاخ کی آواز نہ صرف ہمارے ارد گرد والے سن سکیں کہ کیسا زور کا تھپڑ پڑا ھےـ ہمیں
      بلکہ اس کی حدِت سے ارد گرد والے بھی جاگ جائیں گے جیسا کہ آج آپ نے جگایا ـ
      کیا الفاظ ھیں جیسے زہر میں بجھے ہوئے تیر ـ ٌ

      ایک ایک لفظ اردو کا نہ ہوتا تو شائد اسکو آگ لگا دیتی خاکسار کر دیتی لیکن کیا یہی حل رہ گیا ہے ؟

      مجھے پہلے یہ سوچ کیوں نہی آئی کس موج کس مستی میں ہیں ہم ؟

      اس کو تو کہ دوں کہ کہ بکواس ھے جھوٹ ھے حسد ھے ناکامی ہے انتشار پھیلانے کی ایک گھٹیا کوشش ہے ؟

      لیکن

      کیا یہ سچ ہے؟

      کیا آپ میں اور ہم سب آج لرز نہیں گئے کیا ہمارے دل خون کے آنسو نہیں روئے ؟

      کیا ہم سب نے اپنا اپنا محاسبہ نہیں کیا؟

      کیا ہم کہیں دور دل کے دماغ کے کسی کونے میں خِود سے بھی چھپا کے یہ نہیں سوچتے کہ ویسے لکھا تو ٹھیک ہی ہے؟

      ایسا کیوں ہوا ؟

      ہندو بنئے کی یہ جرآت کہ وہ اپنی گندی انگلیوں سے ایسے بد نما الفاظ تحریر کرے اپنی پلید سوچ کو الفاظ کا روپ دیکر ہم تک پہنچائے ؟

      ایسی جرآت کس نے دی ؟
      ہمارے

      ایٹم بم بنا کر کے تم اسکو چلانا بھول گئے
      65،71 اور 99 کی یدھوں کو بھول گئے

      بے وقوفو ایٹم بم کی ہمیں ضرورت نہیں کیونکہ

      کافر ہے تو شمشیر پے کرتا ہے بھروسہ
      مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

      ان کھلونوں کی ضرورت تو جب ھو گی جب قوتِ ایمانی کم ہو گی ـ ابھی تو ہمارے جانبازوں کے بازووں کی مضبوط مچھلیاں تڑپ رہی ہیں ـ تمہیں دبوچنے اور تمہاری گردنوں کے کڑاکے نکالنے کیلیۓ ـ اس آہنی حصار کی گرفت میں سے بچ جاؤ اور ہم تک رسائی حاصل کر سکو تو ہی ایٹم بم کی باری آئۓ گی ـ ابھی تو کفن پوشوں کے لشکر تیار ـ
      تروتازہ ہیں جن کے لب کلمہ شہادت کی ُپرسوز آواز سے فضا کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں ـ تم لڑوگے تم سامنا کرو گے ان شیروں کا جن کے ایک جیالے کے بوٹ کی دھمک سے پرچم سرنگوں کرتے ہوئے اس دھمک سے تمہارا کمزور دل ہندو بنیا ہمارے شیر کے آگے لڑکھڑا گیا ـ کیونکہ وہاں ایمان تھا اسلام تھا ـ
      دوسری طرف کمزور عیاری مکاری کی بے بنیاد دیوار تھی ـ اسکا لڑکھڑانا اسکے چہرے کی
      شرمندگی بتا رہی تھی کہ عقب سے اٹھتے ہوئے ایمان افروز نعروں کی طاقت دہشت یا رعب ایسا تھاـ جو اس کمزور انسان کو گرانے کا باعث بنا ـ
      تم کہتے ہو کہ کشمیر تو رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      حد ھو گئی اتنی جلدی بھول گئے وجود تمہارے لاغر کمزور زہن
      کہ آج سےسات دہائیاں قبل تم ہی تھے بزدل انگریز کی چاپلوسی کر کے جی حضوری کر کے ایک سادہ لوح بِھیڑ کو

      اس طرح سے اپنی عیارانہ مکارانہ چالون میں الجاھ دیا کہ وہ ان دیکھے جال میں کی گرہیں سلجھاتے سلجھاتے نڈہال ھو گئی زندہ درگور ھو گئی ـ
      انگریزون کے ساتھ مل کے حکومت میں داتر میں عام زندگی میں اجارہ داری اپنی قائم اس لئے کر لی کہ نہ تمہارے
      پاس کوئی الہامی کتاب تھی جو تمہیں سچ اور جھوٹ کا نیکی اور بدی کا فرق بتا سکتی ـ نہ ہی کوئی مذھبی حد بندی ایسی جو تمہیں بے غیرتی بے حیائی کی جانب جانے سے روکتی ـ اس لئے تم نے بہت جلدی ہر بے حیائی جو دور سمندر پار سے بحری جہازوں میں بھر بھر کے لائی گئی اسکو بسرو چشم نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنی بیٹیوں بہہوں کو سر عام ان کے ساتھ بے حیائی کی حالت میں دیکھ کر دوسرے کمروں میں بڑے بڑے تجارتی معاہدے حاصل
      کرنے والے بے غیرت بے حمیت انسان ہو ـ

      تم نے تجارت حاصل کر لی ملکیتیں حاصل کر لیں رعب دبدبہ حاصل کر لیا لاکھوں انسانوں کو انسانی سطح سے نیچے رکھ کے خود کو ان کا مالک سمجھ لیا ـ انکی سادگی کو ان کی بیوقوفی جان لیا ـ
      حیرت ھے ماضی کا وہ تمانچہ جو تمہاری ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے سامنے ایک ایسی مثال ہے کہ جس کی تڑپ اور گرمی آج بھی تم سب اپنے اپنے گالوں پر محسوس کرتے ہو ـ
      تمہاری ہر عیاری مکاری اور ہوشیاری کے باوجود یہ منتشر کمزور بے سرو ساماں غریب افلاس کے مارے ہوئے جب تمہارے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہوئے یاد تو کرو میں یاد کروادوں ـ
      کیونکہ
      "” تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ـ "”
      لاشوں کےڈھیر ہماری عصمتوں کی دھجیاں حاملہ ماووں کے پیٹ سے وہ معصوم لاشے تمہاری درندگی کا ثبوت وہ کنوون سے جوان بن بیاہی بچیوں کی لاشیں کہ جب جب وہاں کی دھرتی کے کنووئیں سوکھ گئے ہماری عفت مآب بیٹیوں کی لاشوں نے پانی خشک کر دیا ـ

      درندو
      اس عظیم ہندوستان میں جو نام نہاد یکجہتی کا ڈنکا تم بجاتے تھے ـ ڈراتے تھے مار دیتے تھے ـ اٹھوا لیتے تھے وحشت کا خوں ریزی کا بازار گرم تھا ـ

      سب حیلے کر کے تم نے تب دیکھ لئے جب سب کچھ تمہارے مکروہ اور گھٹیا ہاتھوں میں تھا ـ

      اُس وقت وہ ھو گیا جو ایک معجزہ تھا ـ تمہارے چنگل سے باز جیسے جھپٹ کر اپنا شکار اڑا لیجاتا ھے ـ

      ایسے ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے تمہارے اسی متحدہ ہندوستان کے اور جن مسلمانوں کو تم حق نہیں دیتے تھےـ آزادی سے سانس لینے کا وہ تم جیسے مضبوط دولتمند صاحبِ اختیار مکار لوگوں سے اپنا حصہ لیکے کس شان سے ایک الگ ریاست ایک الگ ملک ایک الگ زمین جو آزاد تھی تعصب سے پاک تھی خود مختار تھی ـ وہ حاصل کی
      شائد تم نے وہ قول تو سنا ہو گا
      کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ می جگہ بناتے ہیں اس سے بھی کم ہوتے ہیں جو جو کسی ملک کا نام لیکے اسکو حاصل کرنے کی جدو جہد کرتے ہیں اور اس سے سے بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشےکو ہی تبدیل کر دیتے ہیں ـ
      اور
      تم نے یہ سب ہوتے دیکھا
      ان بہت سے کم ناموں میں سے کوئی ایک ہی اٹھا اور اس نے وہ کام کر دکھایا جس کو تم لاکھوں کروڑوں طاقت ہتھیاروں کے باوجود نہ روک سکے ؟
      کیس الگا تھا جب دنیا کے نشے سے ایک ہندوستان کاٹ کے ایک نیا نام ایک پاک نام ایک مقدس نام ایک محترم نام ابھرا
      پاکستان
      اور یہ پاکستان تب سے ہی تمہارے سینوں کو جلا رہا ہے ایک این دیکھی آگ بن کے جب جب جہاں جہاں اس کا نام آتا ھے تم تِمتما جاتے ہو بھڑک جاتے ہو کیوں؟
      اس لئے کہ اندر کہیں اس ذلت کا احساس اُس ناکامی کی شرمندگی دہائیاں گذرنے کے بعد بھی اسکے وجود کی بقا تمہیں ہراساں کرتی ہے ـ
      اسکو پریشان کرنے کیلئے روسیوں سے گٹھ جوڑ کیا امریکیوں کو کبھی دوستی تو کبھی دشمنی کی دھمکی دی کبھی محبتیں تو کبھی نفرتوں کے درمیان خوب گھمایا ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے اسکو نقصان پہنچا سکو
      اسرائیل سے محبتیں
      افغانستان کی جائز ناجائز ہمدردیاں ایران کے ساتھ باہمی تعلقات کو فروغ
      متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری ـ
      ہر ہر وہ راستہ جو ہمارے پاس اسلامی تشخص کے اعتبار سے مضبوط تھا وہا ں وہاں تمہاری گھٹیا ذھینیت پہنچیں ـ پیسہ زہن ہتھیار ہر ہر حربہ آزما کے دیکھ لیا ـ

      پاکستان کا وجود اگر تم نہیں جانتے تو سن لو کہ 27 رمضان المبارک کی رات کو وجود میں آیا اور ہمارے عقیدے کے مطابق ہماری مقدس کتاب پاک جس کو قرآن پاک کہا جاتا ھے وہ بھی اسی رات کو نازل ہونا شروع ہوئی تھی اس لحاظ سے یہ ہمارے لیۓ بیحد مقدس ہےـ اور ہمارے پاک کلام کیلۓ اللہ پاک کا وعدہ ہے وہ تا قیامت اپنی اصلی حالت میں بغیر کسی رد و بدل کے رھے گا انشاءاللہ
      اور ایسا ہی ہمارا یقین ہمارے اس پیارے ملک پاکستان کیلیۓ بھی ہے ـ (انشاءاللہ)
      یہ سبز ہلالی جھنڈا انشاءاللہ اسی آب و تاب اور اسی آن بان کے ساتھ سدا بلند وبالا رھے گا اور دشمنوں کے سینوں پر برچھیوں کی صورت ہر ہر لمحہ کچوکے لگاتا رہے گاـ
      اور ہاں انشاءاللہ کشمیر بھی ھو گا آزاد اسی کشمیر کے ساتھ ہمارے سفارتی تجارتی سیاسی تعلقات کی مثال دنیا دے گی اس خطہ بے مثال پر اگر کہیں محبت اخوت سکون اور مثالی تعلقات ھوں گے تو وہ یقینا کشمیر اور پاکستان کے ہوں گےـ یہی ایک اندیکھا خوف ہے جو تم کو مجبور کرتا ھے وہاں ظلم پر اور فوج کی بھرمار پر ـ تم ایک بار بربریت کی جبر کی اور اپنے غاصبانہ قبضے پُر ہیبت تصویر ہٹا کر دیکھو کی اس جنتِ بے نظیر کے لوگ کیسے پاکستان کے ساتھ مل کے امن کے محبت کے اور اخوت کے الوہی نغمات فضا میں بکھیرتے ہیں ـ یہی خوف یہی بے یقینی تو تمہیں وہاں لاکھوں فوجی نامزد کرنے پر مجبور کرتی ہےـ

      بے حسی بے شرمی کا ثبوت آج یہ نظم دیکھی
      اس ملک کا باسی
      جس ملک کی ہوائیں آجکل راگ الاپ رہی ہیں

      نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
      یہ سُر بلاتے ہیں جب تم ادہر نہیں آتے

      ایک بار پھر سے قلعی کھول دی تمہارے اس گھٹیا کلام نے

      امریکہ سے سِول نیو کلئیر ٹیکنالوجی کا حصول ہو یا پھر سپیس پروگرام میں شرکت کا زہن تو تم لوگ دُم ہلاتے ہوئے لپکتے ہو پاکستان کی طرف دونوں ہاتھ دوستی کے بڑہاتے ہوئے ـ اور جیسے ہی مقصد پورا ہو جاتا ھے تو وہی مخصوص بنیے کی سوچ منظرِ عام پر آجاتی ہےـ
      وقت بدل گیاـ

      تمہارا اگر خیال ہے کہ تم اپنا ترنگا اس پاک زمین کی کسی چوٹی پر؟

      یا کسی عمارت پر؟

      تو اس دماغ کو پہلے تو سکون آور ادویات کا استعمال کرواگر افاقہ نہ ہو تو پھر اپنے دماغ کو بجلی کے جھٹکے لگواؤ ـ

      تم جانتے ہی نہیں کہ یہ پرچم نہیں ہماری جان ہے ہمارا یقین ہمارا اعتماد ھےـ اس جھنڈے کو فضا میں لہرانا پاکستان کا نام ہواؤوں کو فضاؤوں کو دکھلانے کیلئے ہے کہ زمین تا عرش سب جان لیں کہ یہ وہ سلطنتِ خداد ہے جس کا قیام کسی حادثے کا یا اتفاق کا مرہون منت نہیں ہے ـ

      بلکہ ایک مخصوص سوچ ایک تمدن ایک نظامِ حیات ایک لائحہ عمل اس کے رنگوں سے بام و در پے پھیلتا ھے اور یاد دلاتا ھے کہ تم ریوڑ نہیں تم کوئی بے ہنگم وجود بھی نہی اور نہ ہی کوڑھ مغز لوگوں کا بے ہنگم گروہ ہے ـ

      آج یہ ایک کلمہ ایک اللہ ایک نبی کیلیۓ ایک سرزمین کے حصار میں ہیں ـ یہاں پہنچنا ایک ایسا خواب ھے جو تم اپنی ماضی کی شرمندگی کو ختم کرنے کیلیۓ یعنی اس تقسیم کا سوچ کر تو دیکھ سکتے ہوـ ایک معقول ذی الشعور انسان ایسا نہیں کہ سکتا ـ
      آج تم نے را موساد کے جی بی کے ساتھ بہت سے لوگوں کو بِلاشبہ اسلحہ دے کر بلوچستان سوات اور شمالی علاقہ جات میں بھرپور طریقے سے ان کو قوت اور رہنمائی دے کر بھیج رہے ہو ـ کہ جاؤ اور جا کے ان کی زمین کو ناپاک کرو ـ

      لیکن دیکھ لو ہوا کیا ؟

      تمہاری بزدلانہ کاروائیاں بین الاقوامی ہر اس اصول کی نفی کرتی ہیں ـجو جنگ کے قوانین وضع کرتے ہیں ـ تم نے انتہائی بزدلانہ کاروائی کی جس
      کو جنگ کی اصطلاح میں تو گوریلا وار کہا جاتا ھےـ
      لیکن
      دراصل تو یہ تمہارا کمزور اور بزدلانہ اقدام ہے ـکیونکہ ہمارے شیر جوانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا تو دور کی بات ہے تم دیکھنے کی بھی تاب نہیں لاسکتے کیونہ وہ سپاہی پاکستان کے شیر جوان ھیں جو ملک کی آن شان پر بے جگری سے جامِ شہادت نوش کرنے کو عین سعادت سمجھتے ہیں ـ

      جبکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک لڑائی وہ بھی ہے جو تم لڑ رھے ھو پاکستان میں نہتے شہریوں کو مظلوم غریب عام عوام کو معصوم بچوں کو
      بیدردی سے بموں کے بے دریغ استعمال سے مار رھے ہو ـ

      یہ سب کر کے عمارتیں برباد کر کے عوام میں انتشار پیدا کر کے تمہارا کیا خیال ہے؟

      کہ یہ سب ہمیں ہراساں کر لے گا اور تمہارا شیخ چِلی کا خواب کہ تمہارا ترنگا؟
      تو دیوانے کی بڑ ہے ـ
      تم کو نجانے کیا غلط فہمی ہے اور اگر ھے تو آؤ

      بسمہ اللہ کرو

      تم دیکھو گے کہ آج یہ مسائل میں الجھی ہوئی بدحال فاقہ زدہ قوم الجھی ہوئی اپنے حکمرانوں سے بگڑی ہوئی ناراض اس قوم کو دیکھ اگر یہ قیاس کیا ہے تو آجاؤ ایک بار اور ہم سے الجھ کر دیکھو ایک بار ٹیڑہی آنکھ کر کے دیکھو اس پاک سر زمین کو
      وہی آنکھیں نکال کر تمہاری ہتھیلی پر نہ رکھ دیں تو کہناـ

      حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی نے گو ہمیں وہ مقام حاصل کرنے نہیں دیا جو ہمارا حق تھا لیک وہ ہمارے اندرونی مسائل ہی تم کہ کر تو دیکھو کچھ
      پھر دیکھو جزبہ ایمانی
      ایک ایک فرقہ ایک ایک مذھبی سوچ ایک جگہ سیسہ پلائی دیوار بن کے مضبوطی میں دیوارِ چین کو نہ چھوٹا دکھا دے تو کہنا
      ہمارے اختلافات وقت کی مخالف سوچ اور بین القوامی اسلام مخالف سوچ اس وقت ضرور حاوی نظر آ رہی ہے ـ

      لیکن تم جیسے بزدل اور زہنی طور پے خوفزدہ دشمن کیلئے ہم آج بھی الحمد اللہ کافی ہیں ـ اسلحے کا انباراور دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھنے والے عظیم ڈیمو کریٹک ملک کو اپنی یہ خوش فہمی اپنی تحریر سے بھی اور تقریر سے بھی نکال دینی چاہیۓ کہ وہ دنیاوی لحاظ سے ایک بڑی فوج ضرور رکھتا ھے ـ
      لیکن
      اگر وہ پاکستان کی طرف میلی نظر سے بھی دیکھیں گے تو یقین کیجیۓ اس دس یا گیارہ لاکھ کی فوج تو ایک مقررہ تعداد ھے ـ
      مگر ہمارے سامنے آِ گے تو سامنے ایک لاکھ پاک فوج نہیں ھو گی ـ
      بلکہ
      18 کروڑ کے کفن پوشوں کا تاحدِ نظر ہجوم ھو گاـ

      اس ہجوم کا کہیں انجام ھو گا تو تم اپنا ترنگا لیکے آگے ناپاک قدم بڑہا پاؤ گےـ

      ایک ایک بچہ بچہ کٹ مرے گا اس زمین کے تقدس کو تمہارے ناپاک قدموں کے پڑنے سے پہلے ـ

      اسلام آباد پہنچنا تو بہت دور ہے ـ اسلام اور اسکے ساتھ آباد کو بھی اجازت کبھی مت دینا اپنی سوچوں میں آنے کی ورنہ ہو سکتا ھے کہ تمہیں اپنا بچپن یاد آجائے جب ڈراونے خواب تمہارا بستر گیلا کر دیتے تھےـ

      ایسی ہی دہشت ہے ہماری اور ہماری قوت ایمانی کی ـ
      ڈِینگیں امرنے سے پہلے اپنی اوقات دیکھ لینی ضروری ہے امید ھےـ کہ اتنا سبق کافی ہو گا اب بھی نہ سمجھے تو منتظر ہوں سب سے پہلے میں اٹھاِؤِ ناپاک قدم اگر دنیا سے اٹھنے کا شوق ھے تو ؟

  • whs0123

    جناب قادیانی ہوں یا ہندو اسلام اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے جو ایک سچا دین ہے ان ملعونوں کی طرح کسی صیہونیوں کی پیداوار نہیں اگر انڈیا اتنا طاقتور ہوتا تو سولہ کروڑ اور ایک ارب آبادی کا کیا مقابلہ قادیانیوں کو برٹش سرکار نے پیدا کیا اور وہ انھیں کی گود مین بھیٹے ہوے ہیں