جنت میں جیل‘ تائیوان کا گرین آئی لینڈ

تائیوان میں گرین آئی لینڈ کا خوف ایسا تھا کہ بچوں کو بھی اس جزیرے کے نام سے ڈرایا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی، جہاں جرائم پیشہ افراد اور سیاسی قیدیوں کو سدھارنے یا یوں کہیے کہ مزا چکھانے کے لیے بھیجاجاتا تھا۔ یہاں کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں قیدیوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔

یہ بات کافی حد تک صحیح بھی تھی کہ اس جیل میں بہت سے قیدیوں کو موت کی نیند سونے کے بعد ہی آزادی نصیب ہوئی۔ بہرحال 1951ء سے 1987ء تک لوگوں میں خوف کی علامت بنا رہنے والا گرین آئی لینڈ اب سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب لوگ صرف خوبصورت مناظر اور اس جزیرے کی ہریالی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس کے تاریک ماضی کو دیکھنے کے لیے بھی آ تے ہیں۔ یہاں کی بدنام زمانہ جیل کو اب ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جیل کی اندرونی دیواروں پر اب بھی قیدیوں کی بنائی ہوئی بہت سی ادھوری تصاویر موجود ہیں۔ ان کو دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قیدیوں کوکن پرتشدد حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ شیشے کی کرچیوں پر گھٹنوں کے بل چلنا یا بانس کی لمبی لکڑیوں سے پٹائی یہاں عام سی بات تھی۔ 50ء کی دہائی میں یہاں سزائے موت بھی دی جاتی تھی۔ اس میوزیم کے سربراہ چینگ شینگ کہتے ہیں کہ یہ جیل نہیں بلکہ اذیتی مرکز تھا، جہاں قیدیوں کو صرف تکلیف دینے کے لیے لایا جاتا تھا۔

ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ کچھ قیدی ابھی حیات ہیں اور ان کی عمریں ستر، اسی اور نوے برس کے لگ بھگ ہیں۔ ان افراد سے بیتے ہوئے وقت کے بارے میں معلوم کر نے اور انہیں قلمبند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دوران حراست یہاں کتنے قیدی ہلاک ہوئے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہو سکا۔ اس حوالے سے اگر کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں تو ان تک رسائی اب نا ممکن ہے۔

گرین آئی لینڈ پر اب بھی ایک جیل قائم ہے لیکن اب یہاں ہر قسم کے قیدی لائے جاتے ہیں۔ اس کی پہچان بھی تبدیل ہو چکی ہے، اسے اب جیل والے جزیرےکے نام سے بھی نہیں جانا جاتا۔ یہاں آنے والے زیادہ تر سیاح نوجوان ہیں۔ یہ لوگ اس دور کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، جب یہ جگہ ’’جنت میں جیل ‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔

greenislandaerialpicture
Comments (0)
Add Comment