ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر مزید کنٹرول کی خواہش

انہیں خدشہ ہے کہ مطلق العنان حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر سخت کنٹرول اس آزاد خیال ثقافت کا گلا گھونٹ دے گا جس کے باعث ابھی تک نوعمر انٹرنیٹ کو اقتصادی نمو اور اختراع کے محرک کے طور پر پھلنے پھولنے میں مدد ملی ہے۔

گزشتہ ماہ چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے اقوام متحدہ کو ایک عالمی ضابطہ اخلاق بنانے کی تجویز پیش کی تھی جو اس اصول کے گرد گھومتا ہو کہ انٹرنیٹ سے متعلق عوامی مسائل پر اختیار ملکوں کا خود مختار حق ہے۔

چین میں انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والی نصف ارب کے قریب آبادی کو حکومت کی جانب سے سخت سنسر شپ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ آزادی صحافت کی عالمی تنظیم Reporters without Borders نے ازبکستان کو ایسا ملک قرار دیا ہے جو ’انٹرنیٹ کا دشمن‘ ہے۔

انٹرنیٹ کے بانی ونٹن سرف نے گزشتہ ہفتے نیروبی میں ہونے والے انٹرنیٹ گورننس فورم کے دوران خبر رساں ادارے روئٹرز سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان میں سے بعض ملکوں کا انداز حکمرانی مطلق العنانیت پر مبنی ہے اور اسی لیے وہاں آزادی اظہار پر کنٹرول رکھنے کی روایات موجود ہیں۔

انٹرنیٹ کے نظم و نسق کے معاملات سے متعلق اہم کردار نہ ملنے پر مایوس ہو کر بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ نے انٹرنیٹ کی عالمی پالیسیوں سے متعلق اقوام متحدہ کا ایک نیا ادارہ قائم کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔

انٹرنیٹ پر کنٹرول کی خواہش مغرب میں بھی موجود ہے۔ فرانس کے صدر نکولا سارکوزی نے حقوق دانش کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے انہیں انٹرنیٹ سے خارج کرنے کے ایک قانون کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے رواں برس پیرس میں انٹرنیٹ سے متعلق ایک سربراہی اجلاس بھی طلب کیا تھا جسے e-g8 کا نام دیا گیا تھا۔

انٹرنیٹ کے آزاد کنٹرول نے جہاں اختراعیت اور عرب بہار جیسے انقلابات کو جلا بخشی ہے وہیں اس سے بچوں کے عریاں فلموں میں استعمال اور آن لائن فراڈ جیسے جرائم کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں

Mckinsey کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس وقت اہم معیشتوں کی مجموعی ملکی پیداوار میں انٹرنیٹ کا حصہ 21 فیصد ہے جبکہ ٹویٹر جیسی ویب سائیٹوں کے ذریعے اس کی سیاسی مخالفت کو تحریک دینے کی طاقت نے چین سے لے کر مصر اور ایران کی حکومتوں تک کو خائف کر دیا ہے۔

انٹرنیٹ اس وقت مختلف مفادات، گروپوں اور اداروں کے اتفاق رائے کے زیر انتظام چل رہا ہے اور انٹرنیٹ گورننس فورم کے نام سے ہر برس ان کا ایک اجلاس بھی ہوتا ہے۔ تاہم فورم کی فیصلہ سازی کی عدم صلاحیت سے بہت سی حکومتیں مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ ان کی سائبر جرائم، حقوق دانش کی چوری یا ناپسندیدہ مواد کو روکنے کی کوششیں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔

بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کی جانب سے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے الگ ادارے کے قیام کی تجویز کو اجلاس کے کئی اراکین کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کا مطلب انٹرنیٹ کی آزادی پر قدغن ہے۔

Thanks .dw-world.de

Internet
Comments (0)
Add Comment