بھارت افریقہ میں اپنا کردار بڑھانا چاہتا ہے۔ بھارتی کمپنیاں قدرتی وسائل سے مالا مال اس براعظم میں چین اور یورپ سے مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے وہاں کی کمپنیوں کو قرضے بھی دیے جارہے ہیں۔
نئی دہلی حکومت کو امید ہے کہ اس طرح افریقی ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لئے بھی اس کی حمایت پر تیار ہو جائیں گے۔ گزشتہ برس براعظم افریقہ میں بھارت کی سب سے بڑی موبائل آپریٹنگ کمپنی ایئر ٹیل نے 16 افریقی ممالک میں کام کرنے والی ایک کویتی کمپنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 10 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بھارت افریقہ میں سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔
ویسے تو سرمایہ کاری کے لحاظ سے چین پورے بر اعظم افریقہ پر چھایا ہوا ہے لیکن بھارت قابل اعتماد متبادل کے طور پر سامنے آنا چاہتا ہے۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں افریقی
براعظم افریقہ اور بھارت کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے لیے ہر تین برس بعد سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع اور جاری منصوبوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ گزشتہ سربراہی اجلاس 2008ء میں نئی دہلی میں ہوا تھا جبکہ آئندہ سربراہی اجلاس کا انعقاد رواں برس مئی میں ایتھوپیا میں کیا جائے گا۔ چین بھی ایسے ہی چار سربراہی اجلاس کا انعقاد کر چکا ہے۔ روانڈا کی ہائی کمشنر William Nkurunziza کہتے ہیں، ’’مجھے لگتا ہے کہ بھارت اور افریقی ممالک کے درمیان سفارتی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت ان تمام افریقی مسائل کو حل کرنے میں مدد دے رہا ہے، جس کا ہمیں سامنا ہے۔ بھارت۔افریقہ سربراہی اجلاس شراکت اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔‘‘
افریقہ کے ساتھ تجارتی حجم کے لحاظ سے چین اور بھارت کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے۔ افریقہ کے ساتھ بھارتی کاروبار کاحجم 30 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ چین کا افریقہ کے ساتھ تجارتی حجم 56 ارب ڈالر کا ہے
۔بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی