حقیقت تقویٰ اور اس کے فوائد

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے ) سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال﴿
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، یا ایھا الذین اٰمنو اتقو اللّٰہ حق تقٰتہ”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسے اللہ سے ڈرنے کا حق ہے ۔“ فاتقو اا للّٰہ ما ستطعتم۔”تو تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جتنا تم سے ہو سکے ۔“(آل عمران)
ان آیات بینات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔تقویٰ کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید کی تلاوت کرنیوالے پر یہ بات عیاں ہے کہ درجنوں نہیں سینکڑوں آیات صرف تقویٰ ہی کے موضوع پر وارد ہوئی ہیں ۔بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں بڑے پرُ زور انداز میں خالقِ کائنات نے بندوں سے تقویٰ کا مطالبہ کیا ہے ۔کئی آیات ایسی ہیں جن میں تقویٰ اختیار کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے اور کہیں ترکِ تقویٰ پر عذاب کی وعید۔ کہیں ترغیب ہے تو کہیں ترہیب کہیں فقط مسلمانوں کو خطاب ہے تو کہیں تمام بنی نوع انسان کو ۔اس صفتِ حمیدہ کی ضرورت کا اندازہ اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ جنت میں جتنے بھی آدمی داخل ہونگے وہ سارے کے سارے تقویٰ کے کسی نہ کسی درجے میںضرور ہوں گے ۔آئےے دیکھتے ہیں تقویٰ ہے کیا ؟
تقویٰ کا لغوی اور شرعی معنی :تقویٰ ”وقٰی“ اور ”وقایة “ سے بنا ہے جسکا معنی ہے بچنا ،حفاظت کرنا ،پردہ کرنا اور خوف کرنا وغیر ۔تفسیر بیان القرآن ،نور العرفان و غیرہ میں ہے: ”وقٰی “ اور”وقایة“ کا معنی ہے کسی چیز کو ایذاءاور ضرر سے محفوظ رکھنا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :ووقٰھم عذاب الجحیم۔”اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب دوزخ سے محفوظ رکھا ۔“
”تقویٰ “کا لغوی معنی ہے نفس کو اس چیز سے محفوظ رکھنا جس سے اسکو ضرر کا خوف ہو۔

Allah

اصطلاحِ شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لئے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں تقویٰ کہلاتا ہے ۔
تقویٰ کے متعلق سلف صالحین کے اقوال:1)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں ! کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان شرک ،کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے۔
2)    حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :” تقویٰ یہ ہے کہ تو ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھے اور اپنے آپکو ہر کسی سے حقیر اور کم تر ۔“
3)    حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے فرماتے ہیں : ”کہ تقویٰ صرف دن کو روزہ رکھ لینے اور رات کو عبادت کے لئے قیام کرنے کا نام نہیں ۔بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس سے بچے اور جو فرض کیا ہے اسے ادا کرے ۔
حضرت کعب الاحبار سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا ! مجھے بتائےے تقویٰ کیا ہوتا ہے ۔انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں آپ نے فرمایا !ہاں تو حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے پوچھا بتاﺅ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے آپ نے فرمایا ڈرتا ہوں ۔ دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزر تا ہوں اس خدشہ کے پیش نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے ، کہیں پاﺅں زخمی نہ ہو جائے ،جسم چھلنی نہ ہو جائے ۔حضرت کعب الاحبار نے فرمایا بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے دنیاوی لذات اور خواہشات نفسانی اسکی خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا وہ صاحب تقویٰ ہوا ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا جس کا ترجمہ یہ ہے :” ہر چھوٹے بڑے گناہ سے اپنا دامن بچا لے بس یہی تقویٰ ہے اور اس آدمی جیسا طریقہ اختیار کر جو پر خار اور دشوار ی سے گزرتے ہوئے ہر نظر آنے والی چیز سے اپنا دامن بچاتے ہوئے گزرجاتا ہے ۔یاد رکھ چھوٹے اور معمولی گناہوں کو بھی حقیر نہ سمجھنا کیونکہ پہاڑ بھی چھوٹے چھوٹے کنکروں اور ذروں سے مل کر بنا ہوتا ہے ۔“
حضرت سری سقطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں متقی وہ شخص ہے جو اپنے نفس سے دشمنی کرتے ہوئے اسکے خلاف چلتا ہے ایک قول یہ ہے تقویٰ ہر اس چیز سے بچنے کا نام ہے جو تجھے اللہ تعالیٰ سے دور کر دے ۔ حضرت قاسم بن قاسم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :”تقویٰ آداب شریعت کی محافظت کا نام ہے ۔“ایک قول یہ ہے کہ اپنے دل کو غفلتوں سے ،نفس کو شہوتوں سے ،حلق کو لذتوں سے اور اعضاءکو گناہوں سے بچا لینا تقویٰ ہے ۔جب یہ چیزیں حاصل ہو جائینگی تو اس وقت قربِ خدا وندی کی منزل تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے :معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے ۔“
حضرت ابو دردا ءرضی اللہ عنہ نے فرمایا :”تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے ۔“علامہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ”التعریفات “میں لکھتے ہیں ۔کہ آدابِ شریعت کی حفاظت کرنا اور ہر وہ کام جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دے اس سے خود کو باز رکھنا تقویٰ ہے ۔“
خلاصہ:تمام تعریفیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور تقویٰ کے مختلف درجات کو کسی نہ کسی جہت سے حاوی ہیں ۔تمام تعریفات کو مدِ نظر رکھ کر تمام

Allah-Hu

اقوال کا خلاصہ یہ ہوا ۔ مامورات کو بجالانا اور منہیات سے بچنا اور اپنی زندگی کے شب و روز حسبِ استطاعت اتباعِ شریعت میں گزارنا تقویٰ ہے ۔
تقویٰ کے درجات :تقویٰ کے عام طور پر تین بڑے درجات ہیں :(1)ادنیٰ درجہ ،(2)متوسط درجہ،(3)اعلیٰ درجہ
1)    ادنیٰ درجہ:دائمی اور ابدی عذاب سے بچنا یعنی کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونا یہ درجہ ہر کلمہ گو مسلمان کو حاصل ہے ۔
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ”کلمة التقویٰ“کی تفسیر میں فرمایا !”لا الہ الا اللّٰہ “ اس تقویٰ کا مطالبہ اللہ رب العزت نے تمام بنی نوع انسان سے کیا ہے جیسا کہ خود رب قدوس کا فرمان پاک ہے :یا ایھا الناس قوا انفسکم و اھلیکم ناراً۔”اے لوگو! تم خود اپنے آپکو اور اپنے اہلِ و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاﺅ ۔“(القرآن)
یہ تقویٰ کا پہلا درجہ ہے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ کم از کم کلمہ اسلام ”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “پڑھ کر دین اسلام کے قلعہ میں پنا لے لے اور اپنے آپکو ”دخول فی النار“سے بچالے ۔خیال رہے کہ کلمہ اسلام تقویٰ کا ادنیٰ درجہ ہونے کیسا تھ ساتھ باقی درجات کے لئے شرف کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔تقویٰ کا یہ پہلا درجہ یعنی کلمہ اسلام نماز کی تکبیر تحریمہ کی مثل ہے جیسے تکبیر تحریمہ ایک لحاظ سے نماز کے لئے شرط کی حیثیت رکھتی ہے کہ دیگر ارکانِ نماز سے پہلے اس کا پایا جانا ضروری ہے اور ایک لحاظ سے ارکانِ نماز میں داخل ہے کہ بغیر اس کے نماز کا وجود ہی متحقق نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی پہلا درجہ کلمہ اسلام دیگر درجاتِ تقویٰ یا ارکان تقویٰ کے لئے شرط کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر آدمی تقویٰ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔جبکہ دوسری سمت سے دیکھو تو کلمہ اسلام تقویٰ کا پہلا اور ادنیٰ درجہ ہے کہ آدمی صرف کلمہ پڑھ کر اسی پر اکتفا کر جائے۔
2)    متوسط درجہ:تقویٰ کا متوسط اور درمیانہ درجہ یہ ہے کہ فرائض اور واجبات کو ادا کرنا حرام کاموں اور کبیرہ گناہوں سے بچنا ہر مسلمان کے لئے کم از کم اس قدر تقویٰ ضروری ہے ۔
3)    اعلیٰ درجہ:فرائض و واجبات کے علاوہ نوافل بھی بکثرت ادا کرنا مستحبات پر بھی عمل کرنا حرام کیساتھ ساتھ مکروہات اور مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز اختیار کرنا ۔ کبیرہ گناہوں سے بچنا اور صغیرہ پر اصرارنہ کرنا یہ خواص کا تقویٰ ہے ۔
اعلیٰ ترین درجہ:یہ مقربین کا تقویٰ ہے فرائض و واجبات کی ادائیگی کے علاوہ سنن و نوافل کو بھی پابندی اور دوا م کے ساتھ اداکرنا اور ہر اس چیز سے بچنا جو یادِ خدا سے غافل کر دے ۔اور سنتِ نبوی ﷺ پر چلتے ہوئے شریعت کی کامل اتباع کرنا ۔
رسول اکرم نورِ مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا :”خبردار!حلال چیزیں بھی واضح ہیں اور حرام بھی واضح ہیں اور انکے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں بہت سے لوگ ان کو نہیں جانتے پس جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو بچا لیا اور اپنی عزت محفوظ کر لی ۔“تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں دو سو چھتیس (236)سے زائد آیات ایسی ہیں جن میں مختلف انداز میں تقویٰ ہی کا بیان ہے اس کی اہمیت کا انداز اس بات سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاءکرام تشریف لائے سبھی نے اپنی اپنی اُمتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ رب العزت نے مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یا ایھا الذین اٰمنوااتقو االلّٰہ حق تقٰتہ۔”اے ایمان والو! تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اختیار کرنے کا حق ہے ۔“ (آل عمران)
اللہ سے ڈرنے اور اس سے تقویٰ کرنے کا حق تو یہ ہے کہ مومن تادمِ مرگ سجدہ سے سر ہی نہ اُٹھائے ،تقویٰ کا حق ادا کرنا بندوں کے بس کی بات ہی نہ تھی ۔چنانچہ اپنے حکم میں نرمی فرماتے ہوئے ارشاد ہوا:فاتقوا اللّٰہ ماستطعتم۔”جتنا تم سے ہو سکے اتنا تو اللہ سے تقویٰ اختیار کرو۔“(القرآن)
بعض مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ اس آیت نے مذکورہ بالا آیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے پہلی آیت پر عمل کرنا بہت مشکل تھا اس آیت سے ہر کسی کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق گنجائش مل گئی ۔ کیونکہ انبیاءکرام کی استطاعت اور ہے صحابہ کرام کی اور ،اولیاءکاملین کی استعداد اور ہے ،مومنوں کی اور ہے ۔
امام الانبیاءکا تقویٰ:”ماستطعتم“پہ جب امام الانبیاءعمل کریں گے تو دیکھو گے کہ ساری ساری رات عبادت میں بیت جاتی ہے پاﺅں پر ورم آجاتا ہے ۔حد یہاں تک ہو جاتی ہے کہ خود رب کائنات کو کہنا پڑتا ہے ۔یا یھا المزمل ، قم اللیل الا قلیلا، نصفہ اونقص منہ قلیلاط۔”اے مزمل! رات کو قیام کرو ،سوا کچھ رات کے آدھی رات یا اس سے بھی کم۔“(سورة المزمل)
میرے آقا جب ”ماستطعتم“کے مطابق عمل کرتے ہوئے رات کو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو گھنٹوں ایک ایک رکعت میں کھڑے رہتے ہیں اور جب سجدے میں جاتے ہیں تو سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ روح مبارکہ پرواز کر گئی ہے ۔ ”ماستطعتم“پرعمل کرتے ہوئے جب سخاوت کی طر ف آتے ہیں ہاتھ عطا فرمانے سے رُکتے ہی نہیں یہاں تک کہ اپنی قمیض بھی اُتار کر سائل کو دے دیتے ہیں ۔رب قدوس کو پھر کہنا پڑتا ہے :لا تبسطھا کل البسط۔”ہاتھوں کو اتنا کھلا نہ چھوڑ دو کہ اپنی ضرورت کا بھی خیال نہ رہے ۔“
آﺅ ذرا نبی کریم ﷺ کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں ۔ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ساری رات بے قراری میں گزاردی بار بار کروٹیں بدلتے ، بے چینی کی کیفیت نمایا ں تھی ازواج مطہرات میں سے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا وجہ ہے آج آپکو ساری رات نیند نہ آئی؟ ارشاد فرمایا : ایک کھجور پڑی ہوئی تھی اُٹھا کر کھالی کہ مباداضائع ہو جائے ۔اب فکر لاحق ہے کہ کہیں وہ صدقہ کی نہ ہو ۔اقرب بات یہی ہے کہ وہ صدقہ کی نہ تھی مگر چونکہ آپ کے پاس صدقہ کا مال بھی آتا بس اس خیال نے آپکو بے چین کر دیا ۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقویٰ کی صفت حسنہ سے موصوف ہونے والوں کا بہت بلند مقام بھی ہے اور اجر عظیم بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم۔”یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ عزت و تکریم والا وہی ہے جو زیادہ متقی ہے ۔“(القرآن)
متقی دنیا میں بھی صاحب تکریم ہیں اور میدانِ محشر میں اور جنت میں تو بہت بڑا صلہ انکا منتظر ہے ۔خود اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا۔”ہم متقین کو رحمن کی بارگاہ میں مہمان بنا نے کے لئے لے جائیں گے ۔“ (سورةالمریم)
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:ولدار الاٰخرة خیراللذین یتقون۔”آخرت کا گھر یقینا ان ہی لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہیں ۔“(القرآن )
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا :اتدرون ما اکثر ما یدخل الناس الجنة تقوی اللّٰہ وحسن الخلق۔”جانتے ہو زیادہ کون سی چیز لوگوں کو جنت میں داخل کریگی (خود ہی فرمایا )اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرنا اور حسنِ اخلاق ۔“(مشکوٰة شریف )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔(آمین)

Allama Peer Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
Comments (0)
Add Comment