عثمان حسن زئی
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بالآخر اپنی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے جان چھڑالی، یہ اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ صورتحال میں نواز لیگ تنہا پرواز کرنا چاہتی ہے۔ن لیگ کے ماضی قریب کے اقدامات پر غور کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے بھی میاں نواز شریف کے قریب ہونے یا انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے انہوں نے بڑی بے دردی سے اسے دھتکاردیا۔ مسلم لیگیوں کو اکھٹا کرنے کی آڑ میں ن لیگ کو پھانسنے اور انہیں اپنے جال میں لانے کے لیے میدان سجایا گیا مگر میاں صاحب کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لیگی دھڑوںکو اتحاد کا درس دینے والے بھی اپنی کوشش میں ناکامی کے بعد خاموشی رہنے پر مجبور ہیں اور اب متحدہ مسلم لیگ بھی منظر عام سے غائب نظر آرہی ہے۔ آپ غور کریں! اکثر ایشوز پر میاں نواز شریف اور عمران خان کا موقف تقریباً یکساں ہے، دونوں ہی انقلاب کے نعرے لگارہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملانے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو کیوں؟ جماعت اسلامی جو کبھی نواز لیگ کی اہم اتحادی ہوا کرتی تھی جتنی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب تھیں آج ان میں اتنی ہی زیادہ دوریاں نظر آرہی
دوسری طرف وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران سخت لب و لہجہ اور دھمکی آمیز زبان اختیار کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب میں پیپلزپارٹی پر غیر جمہوری وار کیا گیا تو کراچی سے کشمور تک مسلم لیگ نواز کا ایک بھی دفتر باقی نہیں بچے گا۔ اس کے بعد میاں نواز شریف کو اگر کوئی پروگرام کرنا ہوا تو حیدرآباد کے پاگل خانے جانا ہوگا۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے نواز شریف اور عمران خان سے اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بدمعاش نہیں لیکن ملک کے لیے بدمعاشی کرنی پڑی تو کریں گے۔
ملک کی دو بڑی قومی جماعتوں کے درمیان تین سال سے الفاظ کی جنگ جاری ہے اس سے ان جماعتوں کے ملک و قوم سے ”مخلص“ ہونے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایک جانب صدر اور وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کو مذاکرات کی دعوت دے رہے تھے تو دوسری طرف صدر زرداری کے دست راست سمجھے جانے والے ذوالفقار مرزا سندھ میں ن لیگ کے دفاتر جلانے کی بات کررہے تھے۔ جو یقینا انتہائی نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہے ایک ایسا شخص جس کی ڈیوٹی ہی صوبے میں امن و امان کا قیام یقینی بنانا ہوا گروہی اپنے مخالفین کے دفاتر کو نشانہ بنانے کی بات کرے گا تو پھر امن و استحکام کی کیا ضمانت باقی رہے گی۔ اس سے ان کی حکومت و سیاست کے معیار کا اندازہ ضرور ہوتا ہے جو اتنے اہم عہدے پر فائز رہتے ہوئے بھی خود کو بدمعاش قرار دیتے ہوں اور جنہیں اپنی زبانوں پر قابو نہ ہو وہ حکومت کی باگ ڈور کیسے سنبھالے ہوئے ہیں؟
اس سے قبل بھی ذوالفقار مرزا متحدہ قومی موومنٹ کو مخاطب کرکے کئی مرتبہ خود کو بدمعاش کہتے رہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے ساتھ نائن زیرو پر حاضری لگاکر بزبان حال معافی مانگ چکے ہیں!
اس قسم کے بیانات سے ملک میں سیاسی ماحول کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی، لہٰذا ایسے بیانات سے احتراز برتنا چاہیے اور ہمارے سیاسی لیڈروں کو اس تاثر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ملکی مسائل کو حل کرنے اور قوم کی قیادت کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں، اگر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر ملک کو 90 کی دہائی کی سیاست میں دھکیلنے کی کوشش کی تو کیا یہ کسی طالع آزما کو خود دعوت اقتدار دینے اور اپنے پاﺅں پر کلہاڑے چلانے کے مترادف نہیں؟