URDUSKY || NETWORK

زبان کی سائنس اور لفظوں کی شرارت

124

لسانیات Linguistics ;

زبان کی سائنس اور لفظوں کی شرارت

دنیا سے سینکڑوں زبانوں کے نا پید ہونے کا خطرہ

تحریر:محمدالطاف گوہر

لسانیات Linguistics ایک ایسا مضمون ہے جس میں انسانی زبانوں کا ، زبانوں کی موجودہ صورت کا اور زبانوں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم میں مختلف زبانوں کی آپس میں مشابہت کے بارے میں مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس چیز کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے کہ زبانوں کا اس دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
لسان (زبان) (language) ایک ایسا نظام ہے جس میں مختلف آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ کیا جاتا ہے یا معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار آپس میں ترسیلِ معلومات کرتے ہیں مگر زبان سے عموماً وہ نظام لیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلہ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت بھی ہزاروں مختلف زبانوں کا وجود ہے جو بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہیں۔ مختلف زبانوں کی تخلیق و ترقی کا تجزیہ لسانیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ زبانیں مصنوعی بھی ہوتی ہیں مثلاً وہ زبانیں جو شمارندہ (Computers) میں استعمال ہوتی ہیں۔
اردو (برج بھاشا ) زبان جسکے معنی لشکر کے بھی ہیں، یورپی لسانی خاندان کے ہندی،ایرانی شاخ کی ایک آ ریائی زبان ہے. اِس کی اِرتقائ جنوبی ایشیائ میں سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے دوران ہند زبانوں پر فارسی، عربی اور ترکی کی اثر سے ہوئی. اردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. اردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اردو اور ہندی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے. کچھ ماہرینِ لسانیات اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں. تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں.معیاری اردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے. ایس.آئی.ایل نڑادیہ کے 1999ئ کی شماریات کے مطابق اردو اور ہندی دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے. لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے: دنیا کی دس بڑی زبانیں، میں اردو اور ہندی چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے. اِسے دنیا کی کل آباد کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں.اردو کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے. یہ مدرسوں میں اعلٰی ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بھارت کی دو سو زبانیں جبکہ پاکستان کی 27 زبانیں صفحہ ہستی سے معدوم ہونے کے خدشے سے دوچار ہیں، جبکہ زبان کوئی بھی ہو اسکی افادیت اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں لاتعداد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ چیکو سلواکیہ کی ایک مثل ہے کہ” ایک نئی زبان سیکھو اور ایک نئی روح حاصل کرو” Learn a new language and get a new soul. ؛ یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقائ سے ہے۔ اگرچہ زیادہ زبان جاننا بذات خود انسانی ارتقاء کے لئے کافی نہیں لیکن انسانی ارتقائ کا تجربہ وہی لوگ کرتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر احمد امین نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ پہلے میں صرف اپنی مادری زبان (عربی) جانتا تھا۔ اس کے بعد میں نے انگریزی سیکھنا شروع کیا۔ غیر معمولی محنت کے بعد میں نے یہ استعداد پیدا کرلی کہ میں انگریزی کتب پڑھ کر سمجھ سکوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں انگریزی سیکھ چکا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا پہلے میں صرف ایک آنکھ رکھتا تھا اور اب میں دو آنکھ والا ہوگیا۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ میں اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھنے کا موقع پاسکا۔ میں کم وبیش 5 زبانیں جانتا ہوں ؛ اردو،عربی،فارسی،انگریزی،ہ ندی،اگر میں صرف اپنی مادری زبان (اردو) جانتا تو یقینا معرفت کے بہت سے دروازے مجھ پر بند رہتے۔
سن 2001ءکی مردم شماری کے مطابق بھارت میں ایک اعشاریہ سولہ بلین افراد آباد ہیں، جو مختلف لہجوں والی چھ ہزار پانچ سو زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں۔ مغربی بھارت میں قائم ادیواسی اکیڈمی میں ابھی بھی ایسی زبانیں گونجتی ہیں، جن کی اہمیت شائد جلد ہی بے ہنگم شور سے زیادہ نہ رہے۔ کوکنا، پانچ محالی اور راٹھوری وہ تین زبانیں ہیں جو ابھی تک اس اکیڈمی میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ادیواسی اکیڈمی کا آغازانیس سو چھیانوے میں ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ معدوم ہوتی بھارتی زبانوں کے ورثے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا جا سکے۔
اس اکیڈمی کے 29 سالہ ٹیچر واساوا کا کہنا ہے کہ اگر نئی نسل نے یہ زبانیں نہ سیکھیں تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلا دی جائیں گی۔ یہ زبانیں بولنے والے افراد آئندہ 30 برسوں میں بوڑھے ہو جائیں گے، جس سے یہ زبانیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔جتیندراپنی مادری زبان وساوی کے ساتھ ساتھ مزید دس زبانیں بول سکتے ہیں۔ وساوی زبان تقریبا 80 ہزار افراد بولتے ہیں۔ یہ افراد گجرات اور مغربی ریاست مہاراشٹر میں آباد ہیں۔ بھارت کی وہ زبانیں جو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں زیادہ تر ہمالیہ، شمال مشرقی علاقوں، چین اور بھوٹان کی سرحدوں پر واقع دوردرازعلاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی جانب سے خاتمے کے خطرے سے دوچار زبانوں کے بارے میں تیار کردہ فہرست تفصیلی نہیں ہے۔ ان کے مطابق درجنوں کئی دوسری زبانیں بھی ہیں، جن کو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
یونیسکو اٹلاس کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ بڑی زبانیں اس وجہ سے زندہ رہتی ہیں کہ لوگوں کی شناخت ان زبانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو اور پنجابی زبان کو مذہبی اور سیاسی سہارا حاصل ہے، جس وجہ سے ان زبانوں کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ زبانیں مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ بھارت کی 22 دفتری زبانیں ہیں، جن میں انگریزی بھی شامل ہے۔
دنیا میں بقا کے خطرے سے دوچار زبانوں میں پاکستان کی ستائیس زبانیں بھی شامل ہیں، جن میں براہوی، بلتی، مائیا(مائین)، پھلور، کلاشہ، خووار بہادرواہی، چلیسو، دامیلی، ڈوماکی، گاورو، جاد، کاٹی، خووار، کنڈل شاہی اور مری، پھلورا، سوی، سپٹی، طور والی، اوشوجو، واکھی، یدیغا اور زنگسکاری شامل ہیں۔
لسانیات نے جہاں زمانے کی دوڑ کا ساتھ دیا ہے وہاں ناپید ہونے والی زبانوں کیطرف کوئی خاص توجہ نہیں دی حالانکہ انسانی ارتقائی عمل صرف اور صرف مختلف زبانوں کے مرہون منت ہے۔ البتہ ایک جدت ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ اس وقت جو سائنسی انداز میں سٹڈی ہو رہی ہے اس میں انسانی آواز کی بجائے اسکے حرکات و سکنات سے جو نتائج اخذ کئیے جا رہے ہیں جو کہ پہلے وقتوں میں "باڈی لینگویج ” کہلاتا تھا اور اب "لینگویسٹکس” کے زمرے میں آتا ہے۔
یار لوگ تو بغیر پڑھے ہی لینگویسٹیکس کے ماہر ہوتے ہیں؛ محبوب کی گفتار و چال سے ہربات کا اندازہ لگا لیتے ہیں، اور تو اور آنکھوں آنکھوں سے جو جوت جگاتے ہیں اسکی تو کوئی مثال نہیں ؛
کون کہتا ہے کہ محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے
الفاظ کی کھلاڑی وہ مشاق نشانہ باز ہوتے ہیں کہ انکا کوئی تیر بھی خطا نہیں جاتا ، اگر اسی کھیل ہی کھیل میں وہ ستم نہ ڈھائیں تو انسانئیت کے شانے بلند کرتے نظر آتے ہیں اور اگر فاول کھیلیں گے تو انسانیت کی جڑوں میں زہر گھول دیتے ہیں جسکے ثمرات آنے والی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ، ایک اور طبقہ بھی انسانیت کی جڑوں میں زہر گھول رہا ہے جسکا محور صرف ناکامیوں اور دکھوں کو لذیذ بنا کر پیش کرنا اور اس چنگل میں پھانسنا ہے جبکہ اس مکتبہ فکر کی راہ مایوسیوں کا گرداب ہے اور بے نشان منزل کا شاخسانہ ہے اور نتیجہ میں حاصل بھی کچھ نہیں۔جبکہ اچھے نصیب کے متلاشی لوگ ناکامیوں اور نفرتوں کی شاموں میں اپنے آپ کو ایسے گرداب میں پھنسا لیتے ہیں اور جب اس سے بچنے کیلئے جتنے ہاتھ پاوں مارتے ہیں اور اتنا گہرا دھنستے چلے جاتے ہیں اور اپنے قیمتی آنسو کسی فضولیت کی راہ میں بہا تے ہیں۔ ناکام زندگی سے ہمکنار رہبر اپنی ناکامیوں کا خوبصورت جواز بناتے ہوئے اسے شیشے کے محل میں بٹھا کر کبھی شعر اور کبھی نثر میں الفاظ کے کھیل کھلواڑ کرتے انسانیت کو ڈس رہے ہیں، مگر ا نکے اس چنگل سے دوری کیلئے لذت آشنائی ایک نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔اچھی اور تحقیقی تحاریر بےشمار آفاقی حقیقتوں سے ہمکنارکرنے کے ساتھ ساتھ ذہن کے دریچے کھولنے میں توانائیوں کو خوامخوہ ضائع ہونے سے بچانے میں ، اور راہوں کو روشنی کے قمقموں سیراب کردینے میں پیش پیش ہوتی ہیں تاکہ کوئی بھٹکا مسافر بھی ان راہوں پہ آجائے تو اسے اپنی منزل کے نشاں مل جائیں، اور ان قمقموں کی روشنی میں شعوری پستی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکو پچھاڑ دیں کی کبھی بھولے سے بھی ان راہوں کی مسافر نہ بنے۔
(یہ تحریر میری مارچ میں شائع ہونے والی تصنیف ” لذتِ آشنائی” کا ایک باب ہے)