URDUSKY || NETWORK

دل کی آواز

90

دل کی آواز

تحریر: محمد الطاف گوہر
پہاڑوں کی ننگی چوٹیوں کو سفید مخملی چادر اوڑھنے والی برف سے پوچھا کہ کبھی دل کی آواز سنی ہے تو خاموشی سے پگھل کر بہنے لگی ، ہرے بھرے لہلہاتے پتوں سے پوچھا تو فقط زرد ہو کر گرنے لگے، مگرلرزتی ہوئی زمیں، آندھی وطوفان سمیٹے ہوائیں ، آسمان پر چھائی ہوئی کالی گھٹاﺅں، آنسو بہاتے بادلوں اور مدوجزرکی طوفانی تڑپ سے دوچار یہ سمندرکی لہریں کسی کرب کی لرزش کے باعث مرتعش ہیں کہ ہم اس دنیا میں ہیرے، موتی ، لال ، جواہرات اور دنیا کی ہر شے سے قیمتی شے ایک ’ٹوٹے ہوئے دل‘ کی آواز ہیں۔
کیا ساحل کے پتھروں کو معلوم ہے کہ ان سے سر پھوڑنے والی لہروں کی صداکیا ہے؟ کبھی نسیم سحر اور کبھی باد صبا کے جھونکوں کے سنگ سفر کرنے والی معصوم لہروں کو کیا معلوم کہ کبھی پتھر بھی موم ہوئے ہیں؟اور جب خورشید کی پہلی کرن نے گلستان میں جھانک کر گلوں سے پوچھا کہ کبھی دل کی آواز سنی ہے تو برگ و گل شبنم کے قطروں سے اٹ گئے، اور جب بہاروں کو پوچھا کہ کبھی دل کی آوازسنی ہے تو انہوں نے اپنا رخ واپس موڑ لیا اور خزاںنے ڈیرے جمادیئے۔
چنددیوانے لوگ جو زندگی کی کشتی دل کے چپوﺅں سے چلانےکی کوشش میں کسی دھوکے کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں اورکچھ توقعات کی لہروں کی نظر ہوجاتے ہیں اور کچھ انتظارکے سورج کی تاب نہیں لاسکتے اور کچھ عشق کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی کاوش کا شکار اور کچھ الفت کی شاموں کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والے جب ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو کوئی آواز نہیں آتی ۔مگر آنکھیں کسی بھی ٹوٹے دل کاآئینہ بن جاتی ہیں،جوکبھی تو ساون بھادوں کو بھی مات کرجاتی ہیں اور کبھی خزاوں کی خنکی بھی سمیٹ لیتی ہیں مگر فقط خاموش ۔ کبھی چہچہاتے پرندوں کو سنااور کبھی گنگناتی ندیوں کو ، کبھی بارش کی گرتی بوندوں کو سنا اور کبھی سٹیاں بجاتی ہواﺅں کوجنکی فضاﺅں کو موسیقی سے لبریز کرنے والی دھنوں کی ایک ہی صدا ہے کہ جب دل ٹوٹتا ہے تو آواز نہیں آتی کیونکہ یہ کائنات اس کی آواز بن جاتی ہے۔
اے محبت جب بھی تو نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں، ہمیشہ تجھے مات ہوئی ہر بار تیری لاچاری آڑھے آئی ، تیری بے قراری اور تڑپ نے مجبور کیا اور گوشہ دل نرم کرنا پڑا۔ مگرنہ تو کبھی میدان مارسکی اور نہ ہی میدان چھوڑا ، اور آخر لاچار ہوکر تو مجسم ہو کر سامنے آگئی۔نظرسے نظریں چار ہیں تو لمحے محو رقص ہوگئے،اور زندگی نے اپناقدم موسم بہارمیں رکھ دیا ۔تری تڑپ اگر آفاق میں جھومتے چاند ستاروں میں دیکھی تو میں نے اسے مرتعش ذرے ذرے میں بھی پایاجبکہ تیری بے قراری کو دوام رہا۔
اورجب تو نے نظریں چرا لیں تو پھر اک ایسا دور چلا کہ وصل کی برسات رک گئی ، اور پیار کی رتیں بدل گیں ، طوفان اور کالی آندھیاں امڈ پڑیں کہ طوفان تھا کہ تھمتا نہ تھا ، درختوں نے ہلکان ہو کر گردنیں کٹوا نی شروع کر دیں اور سڑکوں پر گرنے لگے ، اور اس ٹوٹے دل سے یہ نظر یں آشکار ہوئیں اور جس طرف جاتی بربادیاں ہوئیں ،نہ اندر کا طوفان تھمتا اور نہ باہر کا، ان تڑپتی آشکار نظروں کو بہت سمیٹنا چاہا مگر لاچار ہو چکا تو سمندروں کو طوفانوں میں بدل دیا ، پانی کا ایک سیلاب کناروں کیطرف امڈ آیا مگر اندر کا طوفان پھر بھی نہ تھمتا تھا ۔
مگر اس کرب کی طاقت کا احساس اپنا دم توڑ گیا کہ دل کی دنیا اگر ویران ہوجائے تو زندگی کا حاصل کیا؟ چند بہکے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ستم ہے تو مسکرائے اور بولے ’ ان بکھری آوازںمیں ٹوٹے دلوں کی آوازیں پنہاں ہیں‘،حالات کی مار اور کبھی امیدوں کے دھوکے اور کبھی اپنوں کی بے رخی ۔ جب آب و تاب سے دمکتے چاندسے پوچھا کہ یہ کیا ستم ہے تو مسکرا کے بولا محبت کی یہ رئیت پرانی ہے ، اور خورشید سے گلہ کیا تو مسکرا کے ٹال گیا۔وصل کے وہ ناقابل فراموش لمحات جودل پہ نقش ہوچکے کیا ہجر کی تنی دھوپ کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
سورج کی تڑپتی کرنیں جب بادلوںکا سینہ چیر کر زمین کی گود میں اترتی ہیں نہ جانے کتنا سفر کر چکی ہوتی ہیں ، زمین کو زخیزی سے ہمکنار کرنے والے آفتاب و مہتاب ہر شے کا لہوبنتے ہیں ۔بلندی سے گرتی آبشاروں سے پوچھا کہ کس کا گانا گنگناتی ہو ، تو مسکر اکر بولیں یہی تو دل کی آواز ہے ، اور جب سرسبزوشاداب وادیوں کے روح رواں بہتے چشمے سے پوچھا کہ کونسی ترنگ میں ہو ؟ توبولا میں ہی تو دل کی آواز ہوں کہ جب وہ ٹوٹتا ہے تو جاری ہوجاتا ہوں اور زندگی کے خشک سوتے ہرے کرتا بہتا رہتا ہوں کہ جیسے تو الفاظ کو قلم کی نوک پر مسخرکرتا جارہا ہے۔