URDUSKY || NETWORK

دین اور مذہب

248

تحریر : انوار ایوب راجہ – برطانیہ

میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی تم کبھی یہ فلسفہ نہیں سمجھو گے ، تمہیں نہیں پتہ تم ہمیشہ خرافات بکتے رہتے ہو ناجانے کن پیروں کی صحبت میں بیٹھتے ہو جب میں سکول میں ٹیچر تھی تو میں نے دینیات کے طلبا سے پوچھا تھا کہ دین اور مذھب میں کیا فرق ہے ؟ پورے سکول میں اس بات پہ بحث ہوئی اور آج پانچ سال بعد تم بھی دین اور مذہب کی بحث میں الجھے ہو . تمھاری دلیلیں بے معنی ہیں مکمل ضابطہ حیات دین  ہوتا ہے اور اسلام دین ہے جبکہ مذاہب بہت سے ہیں . یہودی ، عیسائی اپنے اپنے مذاھب کے پیروکار ہیں اور ان کی پرچار کرتے ہیں جبکہ اسلام مکمل ضابطہ حیات  اور مکمل دین ہے اب اس میں کیا ہے جو تم نہیں سمجھ نہیں پا رہے ………………….؟ فون کٹ گیا  صنم شائد غصے میں تھی یا پھر اسے میرے سوالات نے تنگ کر دیا تھا .

میانی صاحب کے قبرستان میں لیٹے ایک بابے کی کتاب میں میں نے پڑھا تھا کہ دل کے دریا میں ڈوب کر راز الہی پانے کو تصوف کی رو سے حقیقت اور معرفت کی سیڑھی کہتے ہیں. اپنے اشفاق صاحب بھی یہی لکھتے ہیں اور پھر منچلے کے سودے میں اشفاق صاحب کے ارشاد صاحب بھی ایسے ہی ولایت کی سیڑھیاں  چڑھتے ہیں . گڈریے کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں اور نہ ہی صوفی برکت صاحب کے نظریات اس سے مختلف ہیں  . بابا نور الدین بھی یہی کہتے تھے اور باقی صوفیا اور اولیا کی بھی یہی پیغام ہے .صنم ٹھیک کہتی ہے میں فضول میں دین اور مذہب کی بحث میں الجھا ہوں مگر میں یہ سمجھ نہیں پاتا کہ اگر میانی صاحب والے بابا جی ، راوی کے کنارے لیٹے داتا صاحب ، پاک پتن والے گنج شکر، اجمیر شریف والے خواجہ صاحب اور کشمیر والے مولوی امین صاحب سب یہی کہتے ہیں تو دین والے اس سے انکار کیوں کرتے ہیں اور مذہب والے اتنے پختہ کیوں ہیں؟

مذہب والے نہ تو ایک دوسرے کے گلے کاٹتے ہیں اور نہ ہی عبادت گاہوں کے باہر  اور اندرفساد کرتے ہیں جبکہ دین والے یہ سب کر رہے ہیں . بابے سب ٹھیک ہیں مگر ان بابوں کو لوگ سمجھ کیوں نہیں پاتے ؟

رات  گئے دیر میں نے صنم کو پھر فون کیا اور اس الجھن سے آگاہ کیا . وہ بولی میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں ، سب سمجھ جاؤ گے . صنم گہری نیند سے بیدار ہوئی تھی …….

بولی! ایک دفعہ کسی گاؤں میں سیلاب آیا ، گاؤں چونکہ دریا کے کنارے پہ تھا اس لیے اس گاؤں کا بہت نقصان ہوا ، سب کچھ تباہ ہو گیا . لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ گاؤں سے دور پانی کے اترنے کا انتظار کرنے لگے . اس گاؤں میں ایک ملنگ رہتا تھا ، جب سیلاب آیا وہ ایک تختے پہ  لیٹا تھا اسے علم بھی نہ ہوا اور وہ تختے پہ ہی تیرتا رہا.

دو چار دن میں سیلاب تھم گیا اور لوگ واپس اپنی ٹوٹی ہوئی دیواروں کو کھڑا کرنے واپس گاؤں کو لوٹے . کسی نے ملنگ کا پوچھا اور تھوڑی تلاش کے بعد یہ سوچ کر تلاش چھوڑ دی کہ وہ پانی کی نظر ہو گیا ہے . رات گاؤں کے لوگ تھکے ہارے کھلے  آسمان تلے سوے تھے کہ برگد  کے درخت سے اللہ ہو کی آوازیں آئیں . لوگ پہچان  گئے یہ ملنگ ہی تھا . کچھ نوجوانوں نے اسے درخت سے اتارا اور پوچھا کہ تم بھاگے کیوں نہیں کیا تمہیں موت کا ڈر نہیں ؟ ملنگ مسکرایا اور بولا کس چیز کا ڈر ؟ زندگی جو میری نہیں اور موت جو میرے اختیار میں نہیں . وہی میرے ساتھ اور میرے پاس ہے جو میراپنا ہے . گاؤں والوں کے لیے ملنگ کی بات ایسی تھی جیسے دین اور مذہب کی بحث کم عقل لوگوں کے لیے .

صنم بولی مت الجھو کردار اور گفتار کی بحث میں . اپنے دین کا موازنہ اور مذاھب سے مت کرو ، میانی والے بابے اور بغداد کے والی کی عظمت اور ان بے  وقعت  لوگوں کی بد کرداری کا   جائزہ لینا چھوڑ دو . گاؤں میں سیلاب آئے گا تو یہ بابے اپنے تخت کو تختہ بنا لیں گے جبکہ تم اور تمہارے جیسے بھاگ جائیں گے لہٰذا چیزوں کو سمجھو ، سوال کرو صرف تحقیق کے لیے اور ساتھ ساتھ جواب سننے کی ہمت رکھو اور جاری حالات سے گھبراؤ نہیں . بس یہی جانو کہ دین ضابطہ اخلاق اور حیات ہے اور ہم اس کے کار بند غلام ہیں . اتنا جاننا کافی ہے کہ وہ دین کا رب ہے اور مذاھب اس کی عطا ہیں ، اب کون یہاں منظم ہے اور کون نہیں یہ  سوچنا تمہارا کام نہیں !

صنم ٹھیک کہتی ہے میں الجھا ہوا ہوں کیونکہ مجھے بغیر محنت دین ورثے میں ملا شائد  اسی لیے جب نو مسلم  دین میں  داخل ہوتے ہیں تو انکے چہرے نورانی اور کردار بابوں جیسے ہوتے ہیں.